مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا کھیل شروع ہونے کو ہے؟||حیدر جاوید سید

ان ملاقاتوں اور ٹیلیفونک رابطوں کے بعد ہی لاہور میں شہباز شریف نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو ظہرانہ دیا سادہ الفاظ میں یہ کہ یہ ظہرانہ میاں نوازشریف کی جانب سے تھا ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف موجودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے اور کامیابی کی صورت میں عبوری حکومت کی مدت طے کرنا چاہتے ہیں

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بالآخرنون لیگ اور پیپلز پارٹی کے بڑوں کی ملاقات ہوہی گئی لگ یہی رہا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے خلاف مرحلہ وار عدم اعتماد کے لئے باہمی صلاح مشوروں کے ساتھ حکومت میں شامل جماعتوں سے بھی رابطے شروع کردیئے ہیں۔ گزشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اورپنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویزالٰہی سے ملاقات کی ،
ن لیگ کی قیادت سے گزشتہ روز ایم اکیو ایم بہادرآباد والے بھی ملے ، شریف خاندان اور گجراتی چودہری خاندان کے درمیان پنجاب کے سینیٹ الیکشن کے بعد دوبارہ رابط ہوا ہے اگلے ایک آدھ دن میں شہبازشریف اور چودہریوں کی ملاقات متوقع ہے
اسی دوران (ن) لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ نے حکومت مخالف لائحہ عمل کے حتمی فیصلے کے لئے اختیار اپنی جماعت کے قائد میاں نوازشریف کو دیتے ہوئے پارٹی کے صدر شہباز شریف کو مختلف الخیال سیاسی جماعتوں سے رابطے کی ذمہ داری سونپ دی ہے، مجلس عاملہ کے اجلاس میں میاں نواز شریف نے حکومت کو تو آڑے ہاتھوں لیا لیکن اس بار وہ اسٹیبلشمنٹ کے معاملے میں نہ صرف خود خاموش رہے بلکہ بولنے والے چند جانبازوں کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی
(ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں پیپلز پارٹی سے ملاقات کے لئے مجھ سے نہیں پوچھا گیا البتہ موجودہ حکومت کو حاصل سرپرستی یعنی ’’جس دن بیساکھیاں ہٹ جائیں گی عدم اعتماد ہوجائے گا‘‘۔
غور طلب امر یہ ہے کہ عدم اعتماد کے لئے صلاح مشورے اور ملاقاتیں سیاسی عمل کا حصہ ہیں یا ’’کہیں‘‘ سے اجازت ملنے کی امید پر رابطہ مہم کا آغاز ہوا ہے؟
کیونکہ شاہد خاقان عباسی تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں خاقان عباسی سے کسی نے پوچھا نہیں کے پی ڈی ایم کی پشت میں خنجر مارنے والی پیپلز پارٹی سے ملاقات کیوں ضروری تھی یا یہ کہ انہیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا ؟
یہ بات ویسے کچھ لوگوں کے نزدیک حیران کن ہے کہ (ن) لیگ اپنے دورا قتدار میں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کی بات کرتے ہوئے تواتر کے ساتھ حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے دینی چاہیے کے موقف کی حامی رہی ہے لیکن اب وہ پیپلز پارٹی کی لائن پکڑتی نظر آتی ہے ،
اُدھر وزیراعظم عمران خان نے اپنی جماعت کی ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا ہماری معاشی ترقی کے اعشاریہ کو تسلیم کررہی ہے جبکہ اپوزیشن عوام کو گمراہ کرنے کے لئے مسلسل جھوٹ کا سہارا لئے ہوئے ہے، حکمران جماعت تحریک انصاف کی ایگزیکٹو کمیٹی نے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کی منظوری دیتے ہوئے حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم کے بقول عوام کے پاس ہمارے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں اور حکمران قیادت کے حالیہ بیانات، دعوے اور اعلانات اپنی جگہ، جس بنیادی سوال کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ جس معاشی ترقی کا اعشاریہ دنیا کو دیکھائی دے رہا ہے اسے ملک کا عام شہری محسوس اور دیکھ کیوں نہیں پارہا؟ اور یہ بھی کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ حکومتی دعووں کے برعکس کیوں ہے ؟
حکومت مخالف عوامی تحریک یا مرحلہ وار عدم اعتماد کی حکمت عملی ہو یا حکمران جماعت کا جوابی طور پر رابطہ عوام مہم چلانے اور حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھنے کا فیصلہ، ہر دو کا فریقین کو جمہوری حق حاصل ہے۔ جمہور (عوام) کو دونوں صورتوں میں کیا ملے گا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
مسائل ہیں اور ان کی سنگینی سے انکار ممکن نہیں۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے وزیر خزانہ کے سارے بلندبانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور بالآخر اکتوبر 2021ء والی شرائط پر عمل کرنا پڑا۔ ضمنی بجٹ کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرتے ہوئے دو ارب ڈالر کی اگلی قسط کے اجرا کے لئے جو شرائط رکھی ہیں ان پر مجبوراً یا بخوشی کسی بھی طور عمل حکومت کے لئے بہت مشکل ہوگا۔
ضمنی بجٹ میں سیلز ٹیکس میں اضافے اور ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے کے نتیجے میں آنے والی مہنگائی کی لہر سے چشم پوشی خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیوں پر طنزیہ فقرے بازی اور الزام تراشی کی بجائے ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے حکمت عملی وضع کریں۔ ارباب اختیار کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سابق حکمران جماعتوں کے قائدین پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات اور قائم ریفرنسز کا فیصلہ انہوں نے نہیں متعلقہ عدالتوں نے کرنا ہے
ثانیاً یہ کہ ادویات، گندم، چینی، رنگ روڈ راولپنڈی اور کھاد سکینڈلز میں جن شخصیات پر الزامات آئے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے میں امر مانع جو بھی رہا ہو اس سے نظام انصاف اور احتساب پر سوالات اٹھے ہیں۔ بدقسمتی سے ان سوالات کا جواب دینے کی بجائے الزامات کی تکرار پر اکتفا کیا گیا حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی اور ہے کہ احتساب بلاامتیاز ہو اور انصاف ہوتا ہوا دیکھائی دے۔
حکومت کو حاصل بیساکھیوں، دستِ شفقت اور دوسرے سہاروں کے حوالے سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنمائوں کے بیانات کی تائید کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس منطق کے تحت تو پھر ماضی کی حکومتیں بھی ایسے ہی سہاروں پر قائم رہی ہیں۔ ایسا ہے تو پھر انتخابی نظام اور منتخب اداروں پر بھاری بھرکم اخراجات خرچ کرنے کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔
ہماری رائے میں حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کو اپنی سیاست میں ریاستی اداروں کو گھسیٹنے اور ان کا تماشا بنانے کی بجائے جمہوری روایات کے مطابق سیاسی عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔ جمہوری روایات کے مطابق سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے بہترین فورم پارلیمان ہے یا پھر حزب اختلاف شواہد عوام کے سامنے رکھے کہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ نے مرضی کے نتائج کے حصول کیلئے دستوری حدود سے تجاوز کیا اسی طرح اگر اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ حکومت ناکام رہی ہے تو وہ پارلیمان میں ان ناکامیوں کو ثابت کرے۔
دوسری جانب حکومت کے ذمہ داران بھی طنزیہ فقروں اور الزامات کی سیاست کی بجائے پارلیمان میں اپنی کارکردگی منتخب ارکان کے سامنے رکھیں۔ دونوں اگر ایک ہی وقت میں احتجاجی تحریک اور جوابی رابطہ عوام مہم چلانے پر بضد ہیں تو انہیں پاکستان کی سیاسی تحریکوں کے نتائج کا ٹھنڈے دل سے جائزہ ضرور لینا چاہیے۔
ملکی حالات، دہشت گردی کی حالیہ لہر اور عوامی مسائل کو بہرصورت سامنے رکھنا ہوگا تاکہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے پائے جس سے سیاسی تقسیم کی خلیج بڑھے اور جمہوری عمل کی راہ کھوٹی ہو۔ ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘‘۔
اب چلتے چلتے یہ بھی جان لیجے کہ پچھلے ایک ماہ کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان دوسے زائد بار فون پر بات ہوچکی یہ بات چیت ایک مشترکہ دوست کی دونوں سے متعدد ملاقاتوں کا نتیجہ ہے
ان ملاقاتوں اور ٹیلیفونک رابطوں کے بعد ہی لاہور میں شہباز شریف نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو ظہرانہ دیا سادہ الفاظ میں یہ کہ یہ ظہرانہ میاں نوازشریف کی جانب سے تھا ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف موجودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے اور کامیابی کی صورت میں عبوری حکومت کی مدت طے کرنا چاہتے ہیں
نوازشریف کہتے ہیں اگر پیپلز پارٹی اکتوبر نومبر میں عام انتخابات کروانے پر راضی ہوتو نگران حکومت کے قیام تک کی عبوری حکومت میں خورشید شاہ کو وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے اس پیشکش پر سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ آپ کی تجویز پارٹی کے سامنے رکھوں گا ۔
حرف آخر یہ ہے کہ ق لیگ کے ترجمان کامل علی آغا نے منگل کی شام زرداری چودہری ملاقات کے حوالے سے جو بھی کہا وہ الگ سنبھال لیجے کیونکہ اطلاع یہ ہے کہ چودہری برادران نے پیپلز پارٹی کو تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے-

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: