مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاور بھائی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے لیکن عجیب سی زندگی گزار رہے تھے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنے طوطے کے ساتھ رہتے تھے۔
امریکا آنے سے پہلے ہم فیڈرل بی ایریا بلاک 13 کے ایک مکان میں کرائے دار رہے۔ یہ مکان پرانی طرز کا تھا۔ اوپر نیچے کی تین منزلوں کے علاوہ علیحدہ سے دو کمرے بنے ہوئے تھے جن میں اٹیچ باتھ تھے۔ مالک مکان ان کمروں کو بھی کرائے پر دیتے تھے۔
ایک کمرے میں یاور بھائی رہتے تھے۔ دوسرا کمرا خالی تھا۔ میں نے پہلی منزل پر رہائش اختیار کی تو اس کمرے کو بھی کرائے پر لے لیا اور اپنی تمام کتابیں اس میں رکھ دیں۔
آتے جاتے یاور بھائی سے سامنا ہوجاتا تھا۔ پتا نہیں ان کے بیوی بچے کہاں رہتے تھے۔ شاید بیرون ملک تھے۔ ان کا اپنا مکان امروہا سوسائٹی میں تھا لیکن وہ خود اس میں نہیں رہتے تھے۔ کرائے پر دیا ہوگا۔ نماز پڑھنے اور مجلس سننے آل عبا مسجد و امام بارگاہ جاتے تھے۔
ان کے چھوٹے سے کمرے میں ایک بیڈ تھا۔ طوطے کا پنجرہ تھا۔ کھانا پکانے کا بندوبست تھا۔ بجلی جاتی تو کمرے میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا۔ پھر وہ گراؤنڈ فلور پر مشترکہ احاطے میں کرسی ڈال کر بیٹھے رہتے۔
یاور بھائی باتیں کرنے کے شوقین تھے۔ کھنکتی آواز میں دنیا جہان کی خبروں پر تبصرے کرتے۔ تنہا تھے اس لیے جب موقع ملتا تو بہت سی باتیں کرتے۔
ہم امریکا منتقل ہوئے تو میں اپنی تمام کتابیں وہیں چھوڑ آیا۔ مالک مکان کو کرایہ بھیجتا رہا۔ یاور بھائی کو کبھی کبھار فون کرکے ان کی اور اپنے کمرے کی خیریت معلوم کرلیتا۔
کچھ عرصہ قبل کتابیں امریکا منگوالیں تو یاور بھائی سے رابطہ کم ہوگیا۔ آخری بار بات ہوئی تو میں نے پوچھا، یاور بھائی! ویکسین لگوالی؟
انھوں نے کہا، نہیں بھائی، میں نے ویکسین نہیں لگوائی۔ پتا نہیں ٹھیک ہے بھی یا نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سازش ہے۔ میں نہیں لگواؤں گا۔
میں نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
آج ایک دوست کو فون کیا تو یاور بھائی کی خیریت معلوم کی۔ دوست نے بتایا، یاور بھائی کا تو انتقال ہوگیا۔ تمھیں نہیں پتا؟
مجھے زور کا جھٹکا لگا، کب؟ کیسے؟
دوست نے کہا، ڈیڑھ ماہ پہلے انھیں کرونا ہوا تھا۔
یاور بھائی امروہے کے تھے لیکن ہماری رشتے داری نہیں تھی۔ دوستی نہیں تھی۔ برائے نام تعلق رہا۔ لیکن ان کی خبر پر اس قدر دکھ ہورہا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔
ہمیں دو وباؤں کا سامنا ہے۔ ایک کا نام کرونا ہے۔ دوسری کا نام ڈس انفارمیشن ہے۔ مجھے گمان ہے کہ دوسری وبا زیادہ مہلک ہے۔ اس نے زیادہ لوگوں کی جان لی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ