مئی 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پروٹیکشن آف جرنلسٹس ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ

پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 “ کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کی رٹ پٹیشن کی

اسلام آباد :صحافی کی تعریف اور صحافیوں پر ضابطہ فوجداری سمیت دیگر قوانین کے اطلاق کے معاملے کے حوالے سےاسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے احکامات جاری کر دئیے ہیں کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل 2021 کے تحت جنرنلسٹس کی تعریف میں فوٹو گرافر کیمرہ مین, ایڈیٹر،سب ایڈیٹر اور پروڈیوسرز ودیگر بھی صحافی کی تعریف میں شامل ہیں_ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بادی النظر میں سیکشن 6 کی سب سیکشن 3 آئین میں دی گئی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے وزارت انسانی حقوق عدالت کو مطمئن کرے گی کہ آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 19 اے کے متصادم نہیں،جو چیز غیر ضروری ہے اس کو آپ ہٹا بھی سکتے ہیں ضروری نہیں کورٹ اس میں مداخلت کرے،درخواست گزار اور اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تناظر میں اس کو دیکھیں،جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کی طرف سے سینئر وکلا،عثمان وڑائچ آفتاب عالم اور عمر اعجاز گیلانی اور طارق سمور عدالت میں پیش ہوئے جبکہ سابق صدر پی ایف یو جے افضل بٹ ،صدر آر آئی یو جے عامر سجاد سید،جنرل سیکرٹری آر آئی یو جے طارق علی ورک و دیگر صحافی رہنما عدالت کے سامنے پیش ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون اس بارے میں مکمل طور پر واضع ہے کہ کون صحافی یےکیمرہ مین اور فوٹو گرافر کا کام رپورٹر سے بھی اہم ہےایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ موثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی فریڈم آف رائٹ ٹو انفارمیشن اور فریڈم آف ایکسپریشن صرف میڈیا کا مسئلہ نہیں جب تک تنقید نہیں ہو گی احتساب نہیں ہو سکتا پبلک آفس ہولڈر کا بہترین احتساب معلومات تک رسائی اور تنقید ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح عدلیہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو جوابدہ ہے اسی طرح خبر دینے والے کو بھی کام کے دوران پولیس کا خوف نہیں ہونا چاہیےقوانین کے غلط استعمال کے حوالے سے پی ایف یو جے کا شکوہ بے جاء نہیں ہےاس عدالت نے حکم دے رکھا ہے کہ ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں ہےجنرنلسٹس پروٹیکشن بل کی شق چھ میں لکھے الفاظ سے صحافیوں کے خلاف مقدمے کا لائسنس مل جائے گاپھر تو صحافی کوئی خبر نہیں دے سکیں گے_ پاکستان میں مقدمہ درج ہونے سے بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ بل سے صحافیوں کو تحفظ حاصل ہو گا لیکن متعلقہ سیکشن کی لینگویج میں شدید ابہام ہےشق نمبر چھ میں صحافیوں کو خبر دے کر پولیس کاروائی کی دھمکی محسوس ہو رہی ہےبادی النظر میں فوٹو گرافر، کیمرہ مین، پروڈیوسر، ایڈیٹرز صحافی کی تعریف میں شامل ہیں_ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ عدالت کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ بل میں ترامیم لائی جا رہی ہیں انسانی حقوق کے حکام نے یقین دہانی کروائی ہے کہ آئین کی شق انیس اور انیس اے پر مکمل عمل کیا جائے گاعدالت کو بادی النظر میں بل کی شق چھ بنیادی حقوق کے خلاف نظر آ رہی ہےعدالت نے وزارت انسانی حقوق سے ایک ماہ میں کمنٹس طلب کر لیے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے کام کو سراہتے ہیں صحافیوں پر قابل دست اندازی پولیس قوانین کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟پہلے ہی پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے کے خلاف استعمال ہو رہا ہےسیکشن 6 کی سب سیکشن 3 میں صحافیوں کے لیے ایک تھریٹ کی نشاندہی کی گئی،عدالت کو بتایا گیا ہے کہ پرائیویٹ ممبر بل میں کچھ ترامیم تجویز کی گئیں ہیں وزارت انسانی حقوق کے نمائندہ نے کہا کہ درخواست گزار کے خدشات کو دیکھ کر اس کا حل نکالے گی وزارت انسانی حقوق کے نمائندہ نے کہا اگر ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ میں ترمیم تجویز کی جائے گی عدالت کی وزارت اطلاعات اور وزارت انسانی حقوق نوٹس کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی گئی

%d bloggers like this: