مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک حاتم طائی تھے اور ایک زرینہ تائی ہیں۔ دونوں ایک طرح کے سخی داتا ہیں۔
تائی میں نے فقط قافیہ ملانے کے لیے لکھ دیا ہے ورنہ وہ میری ہم عمر ہیں۔ بہنوں جیسی ہیں۔ آپ انھیں ڈاکٹر زری اشرف کے نام سے جانتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ خاتون ڈاکٹر کا ترجمہ لیڈی ڈاکٹر ہی ہوتا ہے۔ نہیں۔ ہمارے ہاں لیڈی ڈاکٹر عموماً گائناکولوجسٹ کو کہا جاتا ہے۔ زری کتنی اچھی ڈاکٹر ہیں، میں کیسے بتاؤں؟ مجھے آج تک کسی لیڈی ڈاکٹر یعنی گائناکولوجسٹ سے علاج کرانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ خدا جانتا ہے کہ اس کی وجہ میرا صنفی تعصب نہیں۔
زری روٹری کلب کی رکن یا شاید عہدے دار بھی ہیں۔ غریب عوام کی خدمت کرتی ہیں۔ فری میڈیکل کیمپ لگاتی رہتی ہیں۔ وہ سب کام کرتی ہیں، اسکول کے بچے جن کا خواب دیکھتے ہیں۔ یعنی بڑے ہوکر ہم عوام کی خدمت کریں گے۔ بڑے ہوکر بیشتر لوگ ایسے خواب بھول جاتے ہیں۔ ڈاکٹر زری اشرف دوسروں کے لیے روشن مثال ہیں۔ ہمارے دوست اور بھائی خواجہ مظہر صدیقی اسکول کے بچوں کے موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ انھیں اپنی ہر تقریر میں ڈاکٹر صاحبہ کا ذکر کرنا چاہیے۔
ایک اور بات مجھے کرنی نہیں چاہیے لیکن تعریف کے زمرے میں ہے اس لیے لکھ دیتا ہوں۔ زری خود بھی بتاتی رہتی ہیں۔ ان کے شوہر بول اور سن نہیں سکتے۔ جیسا نامعقول اور گھٹیا ہمارا معاشرہ ہے، کسی کمی کے شکار شخص سے کوئی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتا۔ رشتہ ہو تو نبھانا نہیں چاہتا۔ زری نے جانتے بوجھتے شادی کی اور ایسی نبھائی کہ ان پر فخر کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر صاحبہ کی تعریف کے لیے اور بھی باتیں ہیں لیکن مجھے جو بات سب سے اہم لگتی ہے وہ ان کی بیٹیوں کی پرورش ہے۔ ماشا اللہ ان کے دو بیٹے بھی ہیں لیکن مردوں کے معاشرے میں بیٹے جینا سیکھ ہی جاتے ہیں۔ بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا، انھیں سماج کا درست شعور دینا اور بہادر بنانا بڑا کمال ہے۔
اگر پاکستان کی سب مائیں ڈاکٹر زری اشرف جیسی ہوجائیں اور ان کی بیٹیاں ڈاکٹر رامش فاطمہ اور لائبہ زینب کا روپ دھار لیں تو اس ملک کا مستقبل بدل جائے گا۔
زری کی ایک اور خوبی کتابوں سے محبت ہے۔ میں ملتان میں ان کے گھر جاکر رامش کی لائبریری دیکھ چکا ہوں۔ وہ زری ہی کی لائبریری ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو ادب سے محبت نہ سکھاتیں تو رامش اتنی کتابیں کیسے جمع کرتیں؟
گزشتہ دنوں بھائی ظہور ندیم پاکستان گئے تو زری نے پوچھا کہ یہاں سے کچھ چاہیے تو بتائیں۔ مجھے پہلے تو شرمندگی ہوئی کہ جب میں نے کچھ نہیں بھیجا تو کیسے کچھ مانگوں۔ لیکن پھر ڈھیٹ پن غالب آگیا۔
میں نے کہا کہ ملتان میں ادبی دنیا کے تین قطب رہتے ہیں، یعنی استاد الاساتذہ ڈاکٹر انوار احمد، ممتاز شاعر رضی الدین رضی اور میرے بڑے اور پیارے بھائی شاکر حسین شاکر۔ ان کی کتابیں میری لائبریری میں ہیں لیکن دستخط میرے پاس نہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے کمال کیا کہ ان تینوں سے کتابوں پر دستخط کروائے بلکہ سجاد جہانیہ صاحب سے بھی ان کی کتاب پر میرا نام لکھوالیا، اور بھائی ظہور ندیم کے حوالے کیا۔ وہ بھی عظیم شخصیت ہیں کہ علم کا اتنا بوجھ میری خاطر اٹھاکر سات ہزار میل دور لے آئے۔
ڈاکٹر انوار احمد صاحب، رضی صاحب، سجاد جہانیہ صاحب، شاکر بھائی، آپ کا بہت شکریہ۔ احسان مند ہوں۔
اور زری کا تو شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ ہی نہیں۔ پہلے بھی آپ کا قرضدار تھا اور مزید زیر بار ہوگیا ہوں۔ مجھے دعائیں وغیرہ کرنا نہیں آتیں لیکن آپ کے لیے دل سے دعا نکلی ہے کہ ہنستی مسکراتی رہیں، بچوں کی بہت سی خوشیاں دیکھیں اور زندہ باد رہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ