۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں طویل عرصے سے تعلیمی شعبے میں محض واجبی سرمایہ کاری نے ملک میں ایک شدید تعلیمی بحران پیدا کر دیا ہے۔ اس معمولی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان کے بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد سکولوں میں جانے سے محروم ہے۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ قائداعظم محمد علی جناح کو شروع سے تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی تعلیمی کانفرنس میں انہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’تعلیم ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘ یعنی اگر ہمیں عہد جدید میں وقار سے زندہ رہنا ہے تو تعلیم کو مرکزی حیثیت دینا ہو گی۔
قیام پاکستان کے بعد ہمیں جن اہم تعلیمی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے بڑا چیلنج بچوں کی سکولوں تک رسائی کا تھا۔ اس زمانے میں سکولوں کی تعداد آبادی کے لئے ناکافی تھی۔ یہ چیلنج جس سے شروع ہی سے سنجیدگی سے نمٹنا چاہیے تھا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہت سی حکومتیں اور تعلیمی پالیسیاں آئیں جن میں خوش نما وعدے کیے گئے۔ خواندگی کے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لئے اہداف مقرر کیے گئے مگر عملی طور پر اس کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی ان بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے جو سکول تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم اور ترقی کا باہمی رشتہ بے حد اہم ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق دراصل علم کا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو ہمیں تعلیم کی مد میں بجٹ میں خاطر خواہ اضافے اور توجہ کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی اداروں کے کردار کو موثر بنایا جا سکے۔ دوسرے الفاظ میں ترقی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھنے کے لئے معیاری تعلیم کا ساتھ انتہائی اہم ہے۔
پاکستانی قوم کے پاس نام نہاد لیڈر بہت ہیں مگر حقیقی لیڈرشپ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ جن افراد میں لیڈرشپ کی کوئی خصوصیت اور صفت نہیں پائی جاتی وہ بھی لیڈر بنے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج ہم ہر سطح پر انتشار کا شکار ہیں۔ لسانی، مذہبی، قومی اور علاقائی تعصب ہمارا مقدر بن چکا ہے۔ عوام ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی ہے۔ جھوٹے، فریب کار اور دھوکہ دینے والوں کے بنے ہوئے جالوں میں پھنس گئی ہے اور خیرو شر، نفع و نقصان کی پہچان سے عاری ہو چکی ہے۔
ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دینے والے ایوانوں میں براجمان ہیں۔ اللہ پاک نے پاکستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے مگر اس کے باوجود بھی پاکستانیوں کی فی کس آمدنی بہت کم ہے۔ ہماری بے بسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہماری بے حسی پر دنیا ہنستی ہے کبھی ہمیں بزدل جان کر فساد پر اکسایا جاتا ہے، کبھی ہمارے عقائد میں دراڑیں اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ان ہی عقائد کو مسلمہ جان کر اس کی دفاع کے لیے مذہبی مخالف لوگ تیار کیے جاتے ہیں اور ہمیں آپس میں لڑائے اور الجھائے رکھتے ہیں۔
ہمیں ایک دوسرے سے مخلص ہونے کی ضرورت ہے۔ اجتماعی استحکام، یگانگت، یکجہتی اور ترقی کے لیے ہمیں تمام انفرادی مفادات کو قوم اور ملکی مفادات کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں علاقائی، ذاتی اور نسلی تعصبات اور نفرتوں کو خیر باد کہنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم تعلیم یافتہ ہوں گے، اپنے حقوق سے واقف ہوں گے، ہمارے وسائل ہم پر خرچ ہوں گے اور کوئی ہمارا استحصال نہیں کر سکے گا۔ اور اسی شعور کے کارفرما ہونے سے ایک حقیقی، با کردار، صالح، دلیر، نڈر اور سچی لیڈر شپ بھی سامنے آئے گی جو ہماری امنگوں کی ترجمان ہو گی اور ہمارے دلوں کی آواز بنے گی۔
اس خواب کی تعبیر تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ جن ممالک نے تعلیم پر توجہ دی ہے، بجٹ میں تعلیم کے لئے خطیر رقم مختص کی، ان ممالک نے ترقی کی۔ بنگلہ دیشن، سری لنکا اور نیپال بھی شرح خواندگی میں پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں جو نہ صرف حکمرانوں کے لئے بلکہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے قیام پاکستان کے 73 سال گزرنے کے باوجود ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج نہیں کیا جا سکا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق قومی زبان اردو کو تمام سرکاری اداروں میں سرکاری زبان استعمال کرنا شروع کیا جانا تھا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
ترقی یافتہ ممالک نے اپنی مادری زبان میں ترقی کی ہے ہمیں ان ممالک کی طرح اپنے قومی زبان کو رائج کرنا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس انگریزی زبان کو ترجیح دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بڑھ گئی موجودہ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں اضافہ کرنے کی بجائے 15 ارب روپے کی کٹوتی کر دی جس کی وجہ سے یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہو گئیں۔ ملازمین اور دیگر اخراجات کے لئے جامعات قرضے لے رہی ہیں، فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی طرح اب جامعات بھی قرضوں پر چل رہی ہیں۔ جو تعلیم سکولوں میں دی جا رہی ہے اس کا معیار کیا ہے حالیہ کئی تحقیقاتی رپورٹس میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ بچوں کی اکثریت کا علمی معیار اس درجے سے کم ہے جس میں وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام معاشرے کی ضروریات اور عملی زندگی کے چیلنجز سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ اور نہ ہی بچوں کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کے لئے تیار کر رہا ہے۔
تعلیمی اداروں کے نصاب میں اکیسویں صدی میں کام آنے والی مہارتوں مثلاً کریٹیکل تھنکنگ ’کمیونیکیشن‘ Creativity اور Collaboration شامل نہیں ہیں۔ ہمارے سکولوں کی اکثریت طالب علموں میں سوچنے اور تجویز کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر رہی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ فرسودہ نظام ہے جس میں تخلیقی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ طالب علم کے سوالات اور اس کی سوچ پر قدغن لگا دی جاتی ہے جس میں اگر طالب علم کسی سوال کے جواب میں اپنی سوچ کا استعمال کرے تو اس کے نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔ یوں طالب علموں کو شروع ہی سے محض تقلید اور مکھی پر مکھی مارنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام یادداشت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اور طلبا کی پوری کوشش ہوتی ہے سوالات کے جوابات یاد کر لیے جائیں تاکہ امتحان میں اچھے گریڈ کا حصول یقینی بنایا جائے۔
عاقل ندیم اپنے آرٹیکل ”تعلیمی انحطاط کا مقابلہ کیسے کیا جائے“ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں عموماً بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کو اس کم توجہی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہماری ترجیحات میں صرف اور صرف دفاعی اخراجات ہی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں دفاعی ادارے اپنے بجٹ کا ایک اہم حصہ عسکری تعلیمی اداروں پر خرچ کرتے ہیں۔ دفعتا آپ کو سکیورٹی اداروں کے تحت ایک نیا سکول، کالج یا یونیورسٹی کھلنے کی نوید ملتی ہے۔
شاندار عمارات میں قائم کردہ یہ تعلیمی ادارے جدید ترین سہولیات سے مزین ہوتے ہے۔ ہر دفاعی ادارہ اپنے اپنے تھنک ٹینک بھی چلا رہا ہے۔ یقیناً ان تعلیمی اور تحقیقی اداروں پر نمایاں اخراجات ہوتے ہیں۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے تعلیم کے شعبے کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں اور اس پر اخراجات میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس اہم شعبے میں یہ دلچسپی اور جوش و جذبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ناپید ہے۔
2010 ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم صوبوں کے سپرد کر دی گئی۔ یہ ایک اہم فیصلہ تھا جو مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش کی نذر ہو گیا۔ آئین میں ایک اہم آرٹیکل 25۔ A کا اضافہ کیا گیا جس کے مطابق ریاست سولہ سال تک کے عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ ایک خوش آئند فیصلہ تھا لیکن اس کے عملی نفاذ کے لئے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا نمبر ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بہت بہت نیچے آ گیا ہے۔
یو این ڈی پی کی 2019 ء کی رپورٹ میں 189 ممالک کی ڈویلپمنٹ انڈیکس کی فہرست دی گئی ہے۔ اس فہرست میں پاکستان 152 ویں نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال پالیسی سازوں کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اس ساری صورتحال کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک حکومتیں تعلیم کے حوالے سے بلند بانگ دعوے تو کرتی رہیں لیکن ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ خوش نما پالیسیاں بنانے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اصل چیلنج ان پالیسیوں کا نفاذ ہے اور اس کے لئے ضروری ہے تعلیم کے حوالے سے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی بجٹ کا مقابلہ کیا جائے تو یہ انتہائی کم ہے۔ اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں کے مطابق پاکستان کو اپنی قومی پیداوار کا چار سے چھ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ لیکن ہم ڈھٹائی سے مجموعی قومی پیداوار کا صرف دو اعشاریہ آٹھ فیصد تعلیم جیسے اہم شعبے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ معمولی رقم نہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مزید تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے ناکافی ہے بلکہ مجموعی طور پر تعلیم کے معیار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
طاقت کا جدید تصور روایتی اسلحہ نہیں بلکہ وہ تعلیمی مہارتیں ہیں جو کسی قوم کے افراد میں پائی جاتی ہیں۔ آنے والا وقت یہ طے کرنے میں مدد دے گا کہ کیا ہم تعلیم کو ملکی ترقی کا اہم ہدف سمجھتے ہیں اور ہم بطور قوم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔
_
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر