اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار||ظہور دھریجہ

جب یہ سطور لکھ رہا ہوں ایک دوست نے مجھے کہا کہ کیا وسیب مسئلہ حل ہو گیا کہ اب کشمیر کا مسئلہ حل کرانے چلے ہو، میں کہتا ہوں کہ دنیا کے ہر مظلوم کا مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے اور وسیب کا مسئلہ ہے، وسیب کے مسئلہ کو بھی توحکمرانوں نے کشمیر کا مسئلہ بنا دیا ہے ، کشمیریوں پر مظالم کا ذمہ دار ایک دشمن ملک ہے ۔

گزشتہ روز یوم کشمیر پاکستان کے علاوہ آزاد کشمیر، مقبوضہ جموں کشمیر میں منایا گیا، ملک بھر میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ریلیاں نکالی گئیں، اس کے ساتھ پوری دنیا میں جہاں جہاں کشمیری موجود ہیں وہاں وہاں یوم کشمیر منایا گیا۔

یہ حقیقت ہے کہ کشمیری حق خود ارادیت کے لئے عرصہ 74 سال سے جدو جہد کر رہے ہیں ، لاکھوں کشمیری شہید و زخمی ہو گئے مگر ان کو آزادی نہیں ملی جوکہ ان کا پیدائشی حق ہے ، کشمیر کے پس منظر پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست جس کا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے، 1947ء کے بعد ریاست جموں کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

اس وقت بھارت 39102 مربع میل پر قابض ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر کہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت سری نگر ہے۔ بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو کہ 25 ہزار مربع میل رقبہ پر پھیلا ہو اہے ا س کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے جس میں سے 25 لاکھ آزاد کشمیر میں ہے۔

1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے،ہندو راجہ نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنائے رکھا،تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا، اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہو گیا۔

سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949ء کو جنگ بندی ہوئی۔ سلامتی کونسل نے 1948ء میں منظور شدہ دو قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کروانے کیلئے کہا، بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کر لیا مگر بعد ازاں اس سے منحرف ہو گیا۔ پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقہ میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کر دی۔

کشمیر کا تنازعہ اب تک جاری ہے،پاکستان مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کیلئے کوشاں جبکہ بھارت ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹیں پیدا کرتا آ رہا ہے، جسے عالمی برادری کو حل کرانا چاہئے۔ جموں اور کشمیر کا علاقہ پہاڑوں اور خوبصورت وادیوں پر مشتمل ہے، یہ جنت نظیر وادی سیاحوں کی کشش کا باعث ہے، مسئلہ کشمیر دراصل انگریز وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن اور سیکولر ازم کی علمبردار انڈین نیشنل کانگریس کی ملی بھگت کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس منافقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ریاست جو نا گڑھ کے مسلمان نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا،مائونٹ بیٹن اور نہرو نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جونا گڑھ کی آبادی میں ہندو اکثریت ہے۔

سیکولر کانگریس نے مذہبی بنیاد پر جونا گڑھ کو اپنے قبضے میں لیا، جب جموں و کشمیر کے ہندو راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ کیا تو مسلم لیگ نے کہا کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جموں و کشمیر مسلم کانفرنس پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر چکی ہے لیکن مسلم لیگ کا موقف تسلیم نہ کیا گیا، اگر ہمارے حکمران جونا گڑھ اور کشمیر کے مسئلے پر قائداعظمؒ محمد علی جناح اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک وائٹ پیپر کی صورت میں شائع کر کے دنیا بھر کے اہم لوگوں کو بھیج دیں تو لارڈ مائونٹ بیٹن اور نہر وکی منافقت سب کے سامنے آ جائے گی۔

آزاد کشمیر کی سیاست بھی انہی ’’ روایتی حربوں‘‘ سے مزین ہے جس کا اظہار گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی سیاست میں کار فرما نظر آتا ہے۔ مسئلہ کشمیر یہاں بھی ’’ سیاستدانوں‘‘ کا مطمع نظر نہیں، بہ بحیثیت قوم ’’کشمیر ڈے‘‘ پر اقوام متحدہ کے مبصر کے پاس صرف یادداشت پیش کرنے کے قائل ہیں حتیٰ کہ الیکشن کمپیئن میں بھی یہ شاذو نادر نظر آتا ہے ، قائد کشمیر بلکہ قائدین کشمیر عالمی سطح پر یا اخباری تراشوں میں بیانات کی حد تک کشمیر کا نام تو لیتے ہیں، بھارتی مظالم و بربریت پر واویلا تو کرتے دِکھائی دیتے ہیں مگر آزاد کشمیر کی پوری عوام کو مسئلہ کشمیر کا شعورو ادراک دینے میں تاحال ناکام رہے ہیں۔

قائد اعظم نے شیخ عبداللہ سے کہا تھا کہ میرا کانگریس سے تمام عمر واسطہ رہا ہے،میں ان کی ذہنیت جانتا ہوں یہ تمہیں دھوکہ دیں گے،شیخ عبداللہ نے قائداعظمؒ سے کہا کہ جس طرح کانگریس ہندوستان میں مسلمانوں کو دھوکہ دے رہی ہے میں کشمیر میں ہندوئوں کو دھوکہ دے رہا ہوں۔ 17 جون 1944ء کو قائداعظم نے سرینگر کی جامع مسجد سے متصل مسلم پارک میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ عبداللہ کی منافقت کو بے نقاب کر دیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کشمیر کی تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کشمیر امن کی وادی تھی اور یہ وادی اُس وقت بد امنی کا شکار ہوئی جب 1818ء میں سکھوں نے اس پر حملہ کر کے اسے اپنے ماتحت کر لیا،پھر ایک پوری تاریخ ہے کہ جنت نظیر وادی مختلف سکھ حکمرانوں کے ماتحت آتی رہی ، آخری سکھ حکمران نے مسلم اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کیا جس کے باعث آج تک یہ خطہ ظلم و بربریت کا شکار چلا آ رہا ہے۔

جب یہ سطور لکھ رہا ہوں ایک دوست نے مجھے کہا کہ کیا وسیب مسئلہ حل ہو گیا کہ اب کشمیر کا مسئلہ حل کرانے چلے ہو، میں کہتا ہوں کہ دنیا کے ہر مظلوم کا مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے اور وسیب کا مسئلہ ہے، وسیب کے مسئلہ کو بھی توحکمرانوں نے کشمیر کا مسئلہ بنا دیا ہے ، کشمیریوں پر مظالم کا ذمہ دار ایک دشمن ملک ہے ۔

پاکستانی حکمرانوں سے درخواست ہے کہ وہ یوم کشمیر مناتے وقت ظالموں کے مجسمے بنانے کی بجائے حقیقی معنوں میں کشمیر کے علمبردار بنیں اور آج کے ظالموں کی بات کرنے کے ساتھ تاریخی طور پر ان ظالموں کا بھی تذکرہ کریں جہاں سے کشمیریوں پر ظلم شروع ہوا۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: