اکبر انصاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(کھدے بلے آلہ ) غالبا” 1994 کی بات ھے، نواب صلاح الدین عباسی کا زبردست حامی ھوا کرتا تھا، صادق گڑھ پیلس میں ان کی اسلام آباد سے آمد کا سن کر، حاضری کے لئے صادق گڑھ پنہچا، تو اور بھی کئی نوجوان آئے ھوئے تھے، نواب صاحب نے فرمایا کہ ” یار وہ کیا نام ھے، اس کھدے بلے والے کا، ھاں عمران خان، وہ چھوٹے میاں صاحب(،پرنس فلاح الدین ) کا جماعتی ھے قلعہ ڈیراور دیکھنے کا خواہش مند ھے کل آرھا ھے، جس نے کھدے بلے والے سے ملنا ھو یا فوٹو ووٹو بنوانا ھو, کل آجائے،، عمران خان ورلڈ کپ اٹھانے کی وجہ سے ھیرو تھا، مجھ سمیت کئی اور لوگوں نے ملنے کی خواھش کا اظہار کیا، دوسرے دن جب پنہچا، کافی نوجوان موجود تھے، اطلاع ملی کہ عمران خان پہچنے والا ھے، نواب صاحب حسب روایت اور حسب سابق نوجوانوں کو نوکریاں دلانے کی تسلیاں اور وعدے کر رھے تھے، خوش گوار ماحول بنائے ھوئے تھے، فوری طور پر کرسی منگوا کر مجھے ساتھ بٹھا لیا، تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ عمران خان آگیا ھے، پرنس فلاح الدین عباسی اسے لیکر نواب صاحب کے پاس لے آیا ،پرنس فلاح الدین ، نواب صاحب کو سرکار کہہ کر مخاطب ھوتے تھے ، آکر تعارف کرایا "سرکار عمران خان، ” عمران خان آگے بڑھا اور اپنآ دایاں ھاتھ بڑی اکڑ سے بڑھایا، نواب صاحب کا چہرہ سرخ ھوگیا بادل نخواستہ ھاتھ ملایا، اور غصہ سے آواز دی ، "ضرار (ملازم ) مہمانوں کی تواضع کرو ” اور کرسی پر بیٹھ گئیے ، عمران خان شرمندہ شرمندہ پرنس فلاح الدین کے ساتھ ساتھ مہمان خانے چلا گیا، نواب صاحب نے غصہ سے بھناتے ھوئے کہا ” اس کھدے بلے والے کو تمیز نہیں ھے کہ بہاولپور ریاست کے شاھی خاندان اور اسکے سربراہ سے کیسے ملا جاتا ھے” بد تہذیب، بے ھودہ اور لچر کے القابات دیتے ھوئے انتہائی غصہ کے عالم میں سب کو چھوڑ کر واپس اپنی رھائیش گاہ کے اندر چلے گئے، اور فوٹو شوٹس کے خواھش مند بھی نواب صاحب سے یک جہتی کرتے ھوئے واپس ھو لئیے، پھر تاریخ نے وہ دن بھی دکھایا، کہ مسلسل اپنے حلقہ انتخاب کو نظر انداز کرنے والا نواب، ایک آبادکار پٹواری کے بیٹے سے انتخاب ھار گیا، اور اس قدر اس کے برے سیاسی دن آئے کہ سیاست میں نہ صرف اس فاتح سیاسی حریف کے تابع ھو گئے بلکہ اپنے بیٹے پرنس بہاول خان عباسی کو اسکی شاگردی میں دے دیا، پھر مزید اور سیاسی برے دن آئے کہ اسی "کھدے بلے والے” کے گھر جاکر آپنی بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کو کھدے بلے والے کی پارٹی تحریک انصاف میں ضم کر دیا، اپنی عظمت اور شناخت، ترکی ٹوپی کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح اسکے پیچھے کھڑے ھوکر تصویر بنوائی، گلے میں پی ٹی آئی کا پرچم ڈالا، پھر بے توقیری اس طور ھوئی کہ کہ کھدے بلے والے کی پی ٹی آئی نے ٹکٹ بھی نہ دیا، اب ایک بار پھر زنگ آلود سیاسی ذھنوں کی مشاورت سے پی ٹی آئی کی ڈوبتی کشتی میں سوار ھونے کے لئیے پھر پی ٹی آئی میں پرنس بہاول خان عباسی کی شمولیت اور ڈسٹرکٹ چئیرمین کی ٹکٹ کےلئیے بھیک کی استدعا::، اس طور فیصلے میرا رب کراتا ھے، بہاولپور کے سرائیکیوں کو غلامی در غلامی میں دینے والوں، چیمہ جیسے بھیڑئئے کے ھاتھوں قوم کا استحصال کرانے والوں کا یہی سیاسی انجام ھے، چشم فلک نے ایک وہ دن دیکھا جب "کھدے بلے والے” کو، بد تمیز، بد تہذیب کہا گیا، چشم فلک نے اسی بد تمیز اور بد تہذیب، "کھدے بلے والے” کے در پر باپ بیٹے کو بے توقیر ھوتے اور ٹکٹ کی بھیک مانگتے دیکھا، مظلوم سرائیکی قوم کی آہ عرش تک پہنچ گئی ھے، بے شک اللہ جسے چاھے عزت دے، جسے چاھے ذلت دے،
اے وی پڑھو:
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ