اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راوی اربن پراجیکٹ اور حکومتی ناکامی||ظہور دھریجہ

اپوزیشن میں ہوتے ہوئے عمران خان کے اعلانات اور بر سر اقتدار آنے کے بعد اقدامات میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کل کے نواز شریف کے ناقد آج انکے مقلد بن چکے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنی ہی ٹیم پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ راوی اربن پراجیکٹ پر حکومت نے کیس صحیح طرح پیش نہیں کیا، اس پراجیکٹ کو سپریم کورٹ میں لے جا رہے ہیں ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے پراجیکٹ بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ کراچی جیسے مسائل پیدا ہوں گے۔وزیراعظم رکھ جھوک شیخوپورہ پہنچے، جہاں راوی ریور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام کی طرف سے بریفنگ کے بعد عمران خان کا کہنا تھا کہ یہاں ایک جدید شہر بنایا جا رہا ہے، ایک جنگل بھی بنا رہے ہیں، یہ 20 ارب ڈالر کا پراجیکٹ ہے، اس سے بیرونی سرمایہ کاری آئے گی اور روزگار کے مواقع ملیں گے۔
وزیر اعظم کی طرف سے اپنی ٹیم پر عدم اعتماد بذات خود حکومت کی کوتاہی کا اعتراف ہے ۔ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ جانے کی جو باتیں بتائی ہیں دراصل ہائیکورٹ کی طرف سے انہیں عوامل کے خلاف فیصلہ آیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم کے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے فیصلے میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت نے نام واٹر ڈویلپمنٹ کا لیا ہے جبکہ کام کمرشل ہو رہا ہے، فیصلے میں پلازے، شاپنگ مالز ، لگژری ہائی رائز بلڈنگوں کی تعمیر پر اعتراض کیا گیا ہے۔ جسٹس شاہد کریم کا فیصلہ اس بنیاد پر بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں انگریز زمانے کا قانون لینڈ ایکوائزیشن ایکٹ 1894ء کے سیکشن 4کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ سیکشن ملک کے بے بسوں ، لاچاروں اور لا وارثوں کی جائیدادیں ہڑپ کرتا آ رہا ہے ، یہ سیکشن کہتا ہے کہ پرائیویٹ زمین کا استعمال سرکار کر سکتی ہے ،زمین کے استعمال کا کوئی جواز‘ ضابطہ ہونا چاہئے ۔
کسی طرح کا کوئی ضابطہ نہ بنا کر انگریزوںنے ظلم کیا، کسی کی زمین حاصل کرنی ہے تو اس کا فریم ورک ہونا چاہئے، کوئی ضابطہ یا قاعدہ ہونا چاہئے، جسٹس شاہد کریم نے اپنے فیصلے میں ماحولیات کی بات بھی کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ غذائی قلت موجود ہے اور آگے مزید قلت کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔ جسٹس شاہد کریم کے فیصلے سے مجھے اپنا ملتان یاد آ رہا ہے جہاں ہنستے بستے لہلہاتے کھیت ، سونا اگلنے والی زمینیں اور لاکھوں ایکڑ پر مشتمل آم کے باغات ہائوسنگ سوسائٹیوں کی نذر ہو چکے ہیں، 1894ء کے قانون کے سیکشن 4کے حوالے سے بھی مجھے اپنا وسیب یاد آ رہا ہے جہاں روہی ، تھل ، دامان میں لاکھوں ایکڑ رقبے مقامی افراد کو محروم کر کے اسلام آباد کیپٹل متاثرین ، منگلا ڈیم متاثرین ، تربیلا ڈیم متاثرین ، اوکاڑہ چھائونی متاثرین ، پٹ فیڈر نہر متاثرین اور سندھ آباد کار متاثرین کو الاٹ کر دئیے گئے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر سال سرائیکی وسیب میں دریائی کٹائو سے ہزاروں ایکڑ زمینیں اور لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں، ان اصل متاثرین کو آج تک ملک کے کسی کونے میں ایک مرلہ تک نہیں ملا، وسیب کے کروڑوں لوگ بے زمین ہیں، ان کے پاس سر چھپانے کو چھت میسر نہیں، مکان بنانے کیلئے دو مرلے زمین بھی نہیں، ان حالات میں باہر سے بلا کر متاثرین کو لاکھوں ایکڑ رقبے الاٹ کرنا مقامی لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہونے کے ساتھ ظلم بھی ہے۔
وسیب کے لوگوں کو ان کا اپنا صوبہ نہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں بجا اور درست کہا ہے کہ ہر قانون کا طریقہ کار ہونا چاہئے، قانون کو اندھی لاٹھی نہیں بنانا چاہئے۔ عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ سندھ حکومت نے ان کو بنڈل جزیرے پر شہر قائم نہیں کرنے دیا، وزیر اعظم کی یہ بات کہ شہر پھیلتے گئے تو گیس ، بجلی اور صاف پانی کی سہولتیں فراہم نہیں کی جا سکیں گی دراصل نیا شہر بسانے کے خلاف جاتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بڑے شہروں کو بڑا کرنے کی نہیں بلکہ ملک کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں چھوٹے چھوٹے شہر اور صنعتی زون قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
مقامی آبادی ہائوسنگ سوسائٹیز کے نام پر ملتان کی وسعت کے خلاف ہے، سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں ملتان کو اس کے حصے سے زیادہ فنڈز ملے تو میں نے اس وقت بھی لکھا کہ ملتان کے ساتھ ملک کے پسماندہ علاقوں کو بھی برابر ترقی ملنی چاہئے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور کو مصنوعی طور پر بہت زیادہ بڑھایا گیاجس سے مسائل پیدا ہوئے۔ سرائیکی وسیب کی حق تلفیوں کا موازنہ صرف ایک مثال سے کیا جا سکتاہے کہ 1981 ء کی مردم شماری میں لاہور ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ آٹھ ہزار تھی جبکہ ملتان ڈویژن کی ایک کروڑ ستائیس لاکھ باسٹھ ہزار ، اسی طرح 1981 ء کی مردم شماری میں ضلع لاہور کی آبادی 35 لاکھ بارہ ہزار اور ضلع ملتان کی آبادی 40 لاکھ 68 ہزار تھی۔
اب لاہور کی آبادی پر غور کریں تو وہ کہاں سے کہاں چلی گئی ، مسائل ہی مسائل ہیں اور عمران خان کے نئے اقدام سے اہل لاہور کو ریلیف نہیں بلکہ تکلیف سے دو چار کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت تبدیلی کے نام پر بر سر اقتدار آئی ، تبدیلی کا سب سے بڑا نعرہ یہ تھا کہ پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جائے گی ، بڑے شہروں کوبڑھنے سے روکا جائے گا۔ اقتدار سے پہلے عمران خان اپنے ہر خطاب میں اس بات کا شکوہ کیا کرتے تھے کہ صوبہ تو کیا ملک کے وسائل لاہور پر خرچ ہو رہے ہیں ، سرائیکی وسیب کے اجتماعات میں وزیراعظم اپنے جلسوں میں راجن پور اور لاہور کی فی کس آمدنی کے اعداد و شمار پیش کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ لاہور پر راجن پور کے مقابلے میں آٹھ گنا زائد فی کس کے حساب سے سالانہ خرچ کئے جا رہے ہیں ۔
اپوزیشن میں ہوتے ہوئے عمران خان کے اعلانات اور بر سر اقتدار آنے کے بعد اقدامات میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کل کے نواز شریف کے ناقد آج انکے مقلد بن چکے ہیں۔ عمران خان نے برسر اقتدار آنے سے پہلے وسیب کی محرومی کے خاتمہ کے نام پر ووٹ لئے، وسیب کو ترقی دینے کی بات کی ، صوبہ بنانے کا وعدہ کیا مگر ان کے اقدامات اس کے برعکس ہیں، عمران خان اپنی مدت پوری کر نے جا رہے ہیں ،وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کریں تاکہ وہ سرخرو ہو کر آئندہ الیکشن کے میدان میں اتریں۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: