اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی رات کو سونے نہیں دیتی||ظہور دھریجہ

جب بھی مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور ہوگا تو زرعی حوالے سے یہ بات سامنے آئے گی کہ نا مناسب کھادوں، زہریلی زرعی ادویات کا استعمال ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے ملک میں مہنگائی کی وجہ سے راتوں کو نیند نہیں آتی۔ شہباز شریف کو قومی مجرم، اپوزیشن کے احتساب کو جہاد سمجھتا ہوں۔ آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ پروگرام میں براہ راست عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا اپوزیشن سے مفاہمت نہیں ہو گی۔ کوئی این آر او نہیں دینا، یہ مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم کو مہنگائی کا احساس ہے اور انہوں نے غریبوں کی مشکلات کی بھی بات کی ہے مگر اس کا واضح حل بتانے کی بجائے انہوں نے عوام کو پٹرول مہنگا ہونے کی خبر دے کر چونکا دیا۔
وزیر اعظم کو ایک خاتون نے کہا مہنگائی دگنا ہو گئی، اجازت دیں تو ہم گھبرا لیں؟ خاتون نے یہ بھی کہا تھا کہ پچھلے سال اسی پروگرام میں آپ نے کہا تھا کہ مہنگائی پر جلد قابو پا لیں گے۔ اس پر وزیرا عظم کا صرف اتنا کہنا کہ شاید آپ کو صحیح صورتحال بتائی نہیں جاتی مگر سوال یہ ہے کہ صحیح صورتحال کون بتائے گا؟ کیا اپوزیشن والے حکومتی اقدامات کا دفاع کریں گے؟ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ اپوزیشن کا احتساب جہاد ہے۔ مجرموں سے مفاہمت، غداری اگلی باری بھی ہماری۔ اس کے ساتھ ان کا یہ کہنا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں، درست نہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ والے مالی اور اخلاقی جرائم کے ساتھ ساتھ قتل، ڈاکہ اور دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ اس طرح کے بیانات سے دہرے معیار سامنے آتے ہیں۔ وزیر اعظم جب عوام سے فون پر بات کر رہے تھے تو وزیر دفاع پرویز خٹک یہ بیان دے رہے تھے کہ ملک میں دہشت گردی کی تازہ لہر افغانستان کے حالات کی وجہ سے آئی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کب تک افغانستان کا ہمسایہ ہونے کی سزا ملتی رہے گی؟ پاکستان کی طرف سے افغانستان سے اچھائی کا جواب شر کی صورت میں ملتا رہے گا؟ وزیر اعظم کی ہمدردیاں اپنی جگہ مگر قوم کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔
وزیر اعظم کے بیان کے جواب میں (ن) لیگ کی طرف سے یہ جواب کہ اقتدار سے نکالنے پر خطرناک ہونے کی دھمکیاں گیدڑ بھپکیاں ہیں۔ عمران خان سامان اٹھائیں اور چلتے بنیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی مدت تو پوری ہو رہی ہے وہ تو چلے جائیں گے مگر اپوزیشن والوں نے کون سا تیر مارا ہے؟ (ن) لیگ کے سنیٹر رانا محمود الحسن نے پچھلے دنوں سینٹ میں دو صوبوں کا بل پیش کیا۔ اس کی مخالفت (ن) لیگ کے ہی سنیٹر مشاہد حسین نے یہ کہہ کر کی کہ یہ نیا پنڈورا بکس کھولنے والی بات ہے حالانکہ مشاہد حسین (ق) لیگ میں تھے تو ان کا نظریہ مختلف تھا۔ مشاہد حسین کا تعلق ہمارے شہر خان پور سے بھی ہے کہ ان کے بزرگوں کو وہاں رقبے الاٹ ہوئے۔ ان کے والد صوبے کے حامی تھے۔
مشاہد حسین نے وسیب کی محرومی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے مگر افسوس کہ وسیب کے جاگیرداروں کی طرح وہ بھی لاہور میں رہ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ (ن) لیگ نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت اسمبلی میں صوبے کا بل لائے ہم حمایت کریں گے لیکن اب رانا ثناء اللہ کا بیان آیا ہے کہ ہم حمایت نہیں کریں گے۔ یہ سب غیر سیاسی عمل ہے اور قول و فعل کا تضاد ہے۔
قول و فعل کے اس تضاد نے ہی مسائل پیدا کئے ہیں۔ دوسری طرف پی پی والے کسانوں کی حمایت میں ٹریکٹر ٹرالی مارچ شروع کئے ہوئے ہیں۔ کسانوں کی حمایت اچھی بات ہے مگر کسان دوسرے صوبوں کی طرح سندھ میں بھی اسی طرح کے مسائل کے شکار ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وسیب زرعی ریجن ہے اور سب سے زیادہ کپاس سرائیکی وسیب میں کاشت کی جاتی ہے اور کپاس کا کچھ حصہ سندھ میں بھی کاشت ہوتا ہے ۔
کپاس کے ہونے والے نقصان کا اندازہ کھربوں میں ہے ، حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہوگی کہ کپاس کے نقصان سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی بہت زیادہ نقصان کا خدشہ ہے کہ کپڑے کی مصنوعات اور خام کپاس کی برآمد نہ ہونے سے بھی قومی خزانے کو نقصان کا سامنا ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک عرصے سے ملک بھر میں سبزیوں کی پیداوار وافر ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور عوام اس صورت حال سے انتہائی پریشان ہیں۔آٹا اور چینی مافیا نے تو جو کھیل کھیلا اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا ہی پڑ رہا ہے لیکن کیا اب یہ سمجھا جائے کہ سبزی مافیا بھی دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہا ہے اور حکومت صرف بیانات کی حد تک کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
جب بھی مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور ہوگا تو زرعی حوالے سے یہ بات سامنے آئے گی کہ نا مناسب کھادوں، زہریلی زرعی ادویات کا استعمال ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔ محکمہ زراعت پر ہمارا کسان اعتبار نہیں کرتا اور کرے بھی کیوں؟ رواں سال کی مثال ہمارے سامنے ہے گندم کی وافر پیداوار ہوئی اور تخمینہ سے چھ لاکھ ٹن زیادہ گندم کی پیداوار ہوئی لیکن کسانوں کو اونے پونے فصل بیچنا پڑی۔ کھاد کے بحران سے گندم کی پیداوار متاثر ہوئی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گندم افغانستان کو بھی بھیجی گئی ہے جس کے باعث آنے والے وقتوں میں آٹے کے بحران کا بھی خدشہ ہے۔
آٹے کا بحران پیدا کرنے میں حکومت کے افسران کی ملی بھگت سے فلور ملز مالکان کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو پاکستان میں خوراک کی کوئی کمی نہیں، مجھے یاد ہے کہ 2010ء میں سیلاب آیا ، وسیب کے 10 اضلاع متاثر ہوئے ، اس سیلاب میں سرکاری گوداموں میں پڑی لاکھوں ٹن گندم ضائع ہوئی اور جب سیلاب کا پانی خشک ہوا تو اس کے تعفن سے بیماریاں پھیلیں اور حکومت نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے خراب ہونے والی گندم کے گودام صاف کرائے ۔ ظلم یہ ہے کہ حکومت نے گندم ضائع کر دی غریبوں کو نہ دی۔ اس جرم کا کون حساب دیگا؟ آج کا سوال یہ ہے کہ وسیب میں گندم کے گودام بھرے ہوئے ہیں مگر غریبوں کے پیٹ خالی ہیں ؟ ۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: