نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طیب اردگان ہسپتال اور بطور مریض میرے مشاہدات||رضوان ظفر گورمانی

اب اک نیا امتحان شروع ہو گیا چونکہ یہ اک نایاب بیماری تھی اس لیے اکثر ڈاکٹرز حضرات اس سے واقف ہی نہیں تھے۔میں خوش قسمت ہوں کہ ترکی ہسپتال مظفرگڑھ کے اس ریڈیالوجسٹ کا معترف بھی جو اس بیماری سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ انہوں نے ٹھیک تشخیص بھی کی۔اگر یہ تشخیص نہ ہوتی تو علامات کی بنیاد پہ مجھے آنتوں کی کلینیکل ڈائگناس کر کے چھ ماہ ٹی بی کی ادویات پہ ڈال سکتے تھے۔

رضوان ظفر گورمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

خبر ہے کہ امریکہ میں اک پچاس سالہ شخص میں خنزیر کا دل کامیابی ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔ٹرانسپلانٹ کرنے والی ٹیم میں اک پاکستانی نژاد ڈاکٹر بھی شامل تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ میڈیکل سائنس بہت ترقی کرتی جا رہی ہے لیکن رئیر ڈیزیز والوں کا کیا حال ہوتا ہے اس کا اندازہ مجھے اب ہوا۔نایاب بیماریاں وہ ہوتی ہیں جو لاکھوں لوگوں میں کسی اک آدھ کو ہوتی ہے کیونکہ اس کے مریض زیادہ نہیں ہوتے تو اس کی ریسرچ علاج و معلومات وغیرہ کا فقدان ہوتا ہے۔چائنہ میں اک نایاب بیماری کی وجہ سے اک شخص نے بیس سال بغیر ریڑھ کی ہڈی کے چہرہ گھٹنوں پہ رکھ کے گزارے۔معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کو دیکھ لیں آخری عمر میں بات کرنے کے لیے کمپیوٹر کا سہارا لیتے تھے۔

کچھ عرصہ قبل راقم میں بھی Congenital Paratonial Encapsulation نامی آنتوں کی اک رئیر ڈیزیز کی تشخیص ہوئی۔ویسے تو یہ بیماری پیدائشی ہوتی ہے لیکن اس کی علامات پچیس سال کی عمر کے بعد کہیں ظاہر ہوتی ہیں۔ڈیڑھ سال قبل جب مجھے مسئلہ ہوا تو میں نے اسے عام سی بیماری سمجھا اور معدے کی عام سی میڈیسن لینے کے بعد ٹھیک بھی ہو گیا۔لیکن ٹھیک اک سال بعد پھر وہی مسئلہ ہوا اس کےچھ ماہ بعد پھر ہوا۔تب میں گھبرا گیا ڈاکٹر عباس برمانی صاحب ہمارے ادیب دوست ہیں ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا آپ کو دوسری بار میں سی ٹی سکین کرانا چاہیے تھا خیر اب آپ جلد سی ٹی کرائیں اور رپورٹ مجھے بھیجیں۔ابھی سی ٹی سکین کا پروگرام بنا ہی رہا تھا کہ طبیعت اک بار پھر بگڑ گئی اور مجھے رجب طیب اردگان ہسپتال ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔وہاں جانے کی وجہ تو یہ تھی کہ ایمرجنسی میں میرے بے تکلف دوست ڈاکٹر ثناءاللہ مکی تعینات ہیں لیکن وہاں جا کر احساس ہوا کہ یہ تو سٹیٹ آف دی آرٹ ہاسپٹل ہے۔خیر وہاں میرے ٹیسٹ ہوئے سی ٹی سکین کیا گیا اور رپورٹ میں ڈاکٹر صاحب نے اس بیماری کی تشخیص کی۔
اب اک نیا امتحان شروع ہو گیا چونکہ یہ اک نایاب بیماری تھی اس لیے اکثر ڈاکٹرز حضرات اس سے واقف ہی نہیں تھے۔میں خوش قسمت ہوں کہ ترکی ہسپتال مظفرگڑھ کے اس ریڈیالوجسٹ کا معترف بھی جو اس بیماری سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ انہوں نے ٹھیک تشخیص بھی کی۔اگر یہ تشخیص نہ ہوتی تو علامات کی بنیاد پہ مجھے آنتوں کی کلینیکل ڈائگناس کر کے چھ ماہ ٹی بی کی ادویات پہ ڈال سکتے تھے۔
درجنوں ڈاکٹرز سے مشورہ کیا کسی کو اس کا علم نہیں تھا یہاں اک بار پھر معروف ادیب و سفرنامہ نگار دوست ڈاکٹر عباس برمانی صاحب کام آئے جو ادب کے ساتھ ساتھ میڈیکل جرنل کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں انہوں نے مجھے اس بیماری کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ اس کا علاج صرف اور صرف سرجری ہے۔
سرجری کا نام آیا تو میرے ذہن میں سب سے پہلے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر آصف گورمانی کا خیال آیا قبیلے والا تعلق اپنی جگہ لیکن ان کی قابلیت پہ کوئی دوسری رائے نہیں۔انہوں نے گیسٹروانٹالوجسٹ کو چیک کرایا ٹیسٹ وغیرہ کرائے اور مجھے یقین دلایا کہ آپ کو آنتوں کی ٹی بی ہرگز نہیں اس لیے کسی کے کہنے پہ بھی ادویات شروع نہیں کرنی۔اب چونکہ واحد حل مکمل پیٹ کو کھول کر اوپن سرجری جسے عرف عام میں لیپراٹومی کہتے ہیں بچتا تھا تو اس کے لیے ذہنی طور پہ تیار ہو رہا تھا کہ ملتان سے ڈاکٹر رابعہ نسا صاحبہ کا عیادت کے لیے فون آ گیا۔ڈاکٹر رابعہ نسا کی فیملی میں ڈاکٹرز ہی ڈاکٹرز ہیں ڈاکٹر زرینہ اشرف ڈاکٹر رامش فاطمہ تو 2016 میں بھی میڈیکلی میرے لیے فرشتوں کا کردار ادا کر چکے ہیں اب کی بار ڈاکٹر رابعہ نسا میرے لیے فرشتہ ثابت ہوئیں انہوں نے مجھے کہا کہ آپ لیپراٹومی سے پہلے اک بار واپس ترکی ہاسپٹل جائیں اور لیپروسکوپک سرجن ڈاکٹر عرفان جاوید کو رپورٹس دکھائیں۔میں وقت لے کر ڈاکٹر عرفان جاوید کو ملا ڈاکٹر عرفان جاوید نہ صرف اس بیماری سے آگاہ تھے بلکہ انہوں نے مجھے امید دلائی کہ اگر ممکن ہوا تو لیپروسکوپی سے ہی اس کا حل نکل آئے گا چند ٹیسٹ لکھے وہ ٹیسٹ کرائے رپورٹ آئی ہی تھی کہ اک بار پھر طبیعت بگڑ گئی۔بھلا ہو ڈاکٹر عرفان جاوید اور ان کی ٹیم میں شامل ڈاکٹر رمضان دستی ڈاکٹر علی رضا ڈاکٹر حنان ڈاکٹر ارسلان ڈاکٹر لبنیٰ ڈاکٹر حرا و دیگر کا جنہوں نے سرجری اور پوسٹ آپریٹو کئیر میں اپنا کردار ادا کیا گو لیپرو سکوپک سرجری ممکن نہیں ہو سکی اور لیپراٹومی ہی کرنا پڑی لیکن ہر اک مرحلے پہ ڈاکٹرز کی ٹیم نے مثبت کردار ادا کیا۔اس نایاب بیماری میں سفید رنگ کے فائبر جیسے دھاگوں کا اک جال سا بنا ہوا تھا جس نے میری آنتوں کو جکڑا ہوا تھا۔مزید تفصیلات تو بائپوسی کی رپورٹ آنے پہ ہی پتا چلے گی۔اب کامیاب سرجری کے بعد ریکوری فیز میں ہوں جو چند دن ترکی ہاسپٹل میں گزارے اس کے حوالے سے اپنے تاثرات اگلی تحریر میں شئیر کروں گا تب تک کے لیے دعاؤں کی درخواست۔

یہ بھی پڑھیں:

ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

رضوان ظفر گورمانی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author