مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

” کوہ خیسور تیرے ویران قلعے ” ( پہلی قسط )||رمیض حبیب

میں اس تحریر کی پہلی قسط میں بل اوٹ کے قلعہ, مندر, تالاب اور اس سے جوڑی داستان کا ذکر کرنا پسند کروں گا کیونکہ راجہ بل اپنے بھائیوں میں سب سے بڑا تھا.

 رمیض حبیب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

آج اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اگر کسی بلند و بالا تعمیر کے بارے میں بتایا جائے تو یقیناً ہمیں کوئی حیرانگی نہیں ہو گی. بلکہ ہمارے لئے یہ معمول کی بات ہو گی.

کیونکہ ٹیکنالوجی نے آج اس کو بہت آسان بنا دیا ہے. لیکن ہمیں یہ کہا جائے کہ یہ بلند و بالا تعمیر اور اس پر بنے نقش و نگار پانچ سے سات سو سال پرانے ہیں تو یقیناً ہم حیران اور کہنے والے پر شک ضرور
کریں گے.

خیسور کی پہاڑی کے ان دو ویران قلعوں کی داستان بھی کچھ یوں ہے. جس کو دو ہندو راجپوت بھائی راجاؤں بل اور ٹل نے اپنے وقتوں میں تعمیر کروائے تھے. یہ ویران قلعے آج بھی ان ہی راجاؤں کے نام سے منسوب چلے آ رہے ہیں. ان قلعوں کے اندر موجود مندر قدیم ہندو شاہی طرز پر بنائے گئے مندروں کے باقیات کے آثار آج بھی نمایاں ہیں.

قلعہ بل اوٹ خیسور کے پہاڑیوں کی بلندی سے نیچے سڑک سے ہر گزرنے والے ہر مسافر, چاہے وہ عام ہو یا کوئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار ہو, اپنی جھلک دکھا کر انہیں اپنی ویرانگی اور بے بسی کا احساس دلاتا رہتا ہے . کہ شاہد کسی ہمدرد کی نظر کرم مجھ پر پڑ جائے اور میرے اچھے دن شروع ہو جائیں.

حکومتی ماہرین آثار قدیمہ نے بل اوٹ کا تعلق نہ صرف ہندو شاہی خاندان سے جوڑا ہے بلکہ قلعے کے اندر بنائے گئے پہلے مندر کو ساتویں صدی عیسوی میں جبکہ آخری مندر کی تعمیر دسویں صدی بتائی ہے.

یہ دونوں قلعے بل اوٹ, ٹل اوٹ ڈیرہ اسماعیل خان اور سرائیکی وسیب کا عظیم تاریخی ورثہ ہیں .

3 جولائی 1837 کا ایک واقعہ ہے جو مشہور انگریز سیاح مسٹر برنز ( Burns )نے اپنی کتاب
” The Cabool”

میں تحریر کیا کہ ہماری کشتیوں کا بیڑا جب ڈیرہ اسماعیل خان سے شہر کالا باغ کی طرف روانہ ہوا. بلوٹ کے قریب تک تو ہمیں دریا کے کنارے تک کھجور کے درختوں کے جھنڈ ہی جھنڈ نظر آ رہے تھے. دن کی شدید گرمی کے ساتھ ساتھ جب بلوٹ پہنچنے لگے تو دریا کے مغربی کنارے پر پہاڑی کی چوٹی ہمیں قلعہ کافر کوٹ کے آثار نظر آئے.

آگے لکھتے ہیں کہ جب کشتیوں کو لنگر انداز کر کے ہم قلعہ دیکھنے کے لئے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھے تو وہاں کے آثار سے یہ اندازہ ہونے لگا کہ کسی زمانے میں دریا پر کڑی نگرانی رکھنے کے لئے یہ عظیم قلعہ تعمیر کیا گیا ہو گا. قلعے کے اندر اور باہر ہندو طرز تعمیر کے چند مندر بنے ہوئے ہیں جن کی سفیدی زمانے کے اثرات سے سیاہی مائل ہو گئی ہے. یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی دریائے سندھ خیسور کی پہاڑی کو چوم چوم کر گزرا کرتا تھا.

اسطرح کا ذکر انگریز دور کے لکھے گزیٹیئر 84 – 1883 میں بھی ملتا ہے کہ دامان میں سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث کوہ خیسور پر تعمیر کردہ دو قلعے ہیں جنہیں دریائے سندھ کے کنارے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے. انہیں بل اوٹ اور ٹل اوٹ کے قلعے کہا جاتا ہے _

میں اس تحریر کی پہلی قسط میں بل اوٹ کے قلعہ, مندر, تالاب اور اس سے جوڑی داستان کا ذکر کرنا پسند کروں گا کیونکہ راجہ بل اپنے بھائیوں میں سب سے بڑا تھا.

” قلعہ بل اوٹ ”

( جنوبی کافر کوٹ )

ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے کوئی 56 کلو میٹر کی دوری پر یہ قلعہ واقع ہے. قلعہ بل اوٹ سطح سمندر سے کوئی 800 تا 1000 فٹ بلندی پر تعمیر کیا گیا. جسکا کل رقبہ 400 کنال سے زائد ہے یقیناً یہ کافی بڑی فوجی چھاؤنی رہا ہو گا.

اس قلعے کے حکمران کا نام راجہ بل تھا جو راجپوت فیملی سے تعلق رکھتا تھا. بل راجہ کی ریاست کی حدود مغرب میں درہ گومل سے نہ صرف جا ٹکراتی تھی بلکہ جنوب میں داجل کو جا چھوتی.

راجہ بل نے دشمن حملہ آوروں سے بچانے کے لئے فوجی مقاصد کو سامنے رکھ کر قلعے کی تعمیر کروائی. راجہ بل کی ریاست کا صدر مقام بھی یہی قلعہ تھا.

جب میں اور میرے دوست قلعے کے مندروں سے نیچے اتر کر پتھروں کے ڈھیروں کو پھلانگ کر آئے تو وہاں ایک تنگ سی گلی ہمیں نظر آئی جو مشرقی سمت میں ہمیں محل نما کمرے کی طرف لے آئی مجھے وہ راجہ بل کا رہائشی کمرہ معلوم ہوتا تھا. اس کمرے کی اونچائی تقریباً 50 فٹ کے لگ بھگ ہے اور اسکی اندرونی پیمائش تقریباً 10×10 فٹ ہے

جسکی بنیاد میں تقریباً ڈھائی فٹ لمبے اور ڈیڑھ فٹ اونچے زردی مائل سخت پتھر کی تراشیدہ سلیں لگی ہوئی ہیں. یہ بیرونی بناوٹ میں مندروں سے بہت بڑا ہے. محل نما اس کمرے کی کنندہ کاری اپنے وقت کا شاہکار نظر آتی ہے.

رمیض حبیب کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: