مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا سانحہ مری کے ذمہ دار صرف حکومتی ادارے ہی ہیں؟||اکمل خان

مری اور گلیات کی سڑکیں سخت سردی اور برف باری میں بھی کھلی رہتی ہیں اور مقامی انتظامیہ مختلف جگہوں پر برف ہٹانے کے لئے بلڈوزر بھی تعینات کرتی ہے۔ مری سانحہ کے بچ جانے والے سیاحوں کے بیانات سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ سڑکوں سے برف ہٹانے کا عمل بروقت نا کر سکی۔

اکمل خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانحہ مری میں برف باری کے دوران پھنس جانے والے سیاحوں کی ہلاکت نے عوامی رائے کو دو زاویوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مجموعی طور پر عوام کی کثیر تعداد ریاستی آفات سے بچاؤ کے اداروں اور ضلعی انتظامیہ کو اس سانحے کا ذمہ دار ٹھہراتی دکھائی دیتی ہے تو کچھ افراد مری کے ہوٹل مالکان کی منافع خوری اور بے حسی کو اس سانحے کی وجہ گردانتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر صارفین کی طرف سے بائیکاٹ مری کی مہم بھی نظر آتی ہے تو دوسری جانب بہت سے افراد مری کی مقامی آبادی کی جانب سے برفباری میں پھنسے افراد کی مدد کی تعریف بھی کی جا رہی ہے۔ کوئی ریلیف کیمپ بنانے والوں کی کاوشوں کا سراہتا دکھائی دیتا ہے تو کوئی ہوٹل مالکان اور ضلعی انتظامیہ کو سزا کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کسی کو اور کچھ نہیں سوجھا تو سیاحوں کو مری کی بجائے سوات، کاغان، ہنزہ اور سکردو آنے کا کہہ رہا ہے۔ لیکن ایسے سانحوں کی بنیاد بننے والے تمام عوامل کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت ادارے اور مالکان ہی ہیں یا کچھ لاپرواہی یا غلطی سیاحوں سے بھی ہوتی ہے؟

سردی میں ٹھٹھرتے سیاح لمحہ لمحہ جب سرد موت کی جانب بڑھ رہے تھے تو کیا صرف ریاستی اداروں کی بد انتظامی اور ہوٹل مالکان کی بے حسی ہی اس کی وجہ تھی یا کچھ اور عوامل بھی تھے جو سیاحوں کے اس ہنگامی حالت میں بچاؤ کی راہ میں حائل تھے۔ ان ہلاکت انگیز عوامل کی نشاندہی اور اس سے بچاؤ کی تدابیر صرف انتظامی نوعیت کی ہیں یا ان کا اطلاق ایک عام سیاح کے ان غلط رویوں پر بھی ہوتا ہے جو سانحہ مری جیسے واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔

کیا برف باری اور درجہ حرارت کا گرنا ہی سانحہ مری کی وجہ بنا؟

محکمہ موسمیات کے مطابق مری کے علاقہ میں 3 جنوری سے 8 جنوری کے دوران 32 انچ تک برف باری ہوئی اور درجہ حرارت منفی 1 ڈگری تک گر گیا۔ جب کہ انہی ایام میں ملک کے دوسرے بالائی علاقوں سوات، ناران، بالائی دیر اور چترال میں درجہ حرارت منفی 8 ڈگری تک گر گیا تھا۔ سوات کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق سوات کے بالائی علاقوں میں 4 فٹ سے زائد برفباری ہوئی۔

شاہراؤں کی بندش اور ٹریفک کا ہجوم

مری اور گلیات کی سڑکیں سخت سردی اور برف باری میں بھی کھلی رہتی ہیں اور مقامی انتظامیہ مختلف جگہوں پر برف ہٹانے کے لئے بلڈوزر بھی تعینات کرتی ہے۔ مری سانحہ کے بچ جانے والے سیاحوں کے بیانات سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ سڑکوں سے برف ہٹانے کا عمل بروقت نا کر سکی۔

اس برفباری کے نتیجے میں سوات اور ملک کے دوسرے حصوں میں ذرائع آمد و رفت متاثر ہوئے۔ بحرین سے کالام تک 40 کلومیٹر کا راستہ عام دنوں میں ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے برفباری کی وجہ سے جگہ جگہ ٹریفک کے رکنے کی وجہ سے یہی فاصلہ سیاحوں نے 4 سے 5 گھنٹے میں طے کیا۔ تو ایسی کیا وجہ تھی کہ ان علاقوں میں اس صورت حال کے باوجود مری جیسی افسوسناک صورت حال کیوں پیدا نہ ہوئی؟

N۔ 95 شاہراہ جو کہ بحرین کو کالام سے ملاتی ہے وہاں کیا حکمت عملی اپنائی گئی جس کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں موجود سیاح رات سے پہلے محفوظ علاقوں تک پہنچ گئے۔ نیشنل ہائی وے کا عملہ اس شاہراہ کے مختلف حصوں میں تیزی سے پڑتی برف کو ہٹانے کا کام کر رہا تھا وہیں مقامی ڈرائیور اور آبادی سیاحوں کی کاروں کو اپنی جیپوں کو ساتھ باندھ کر پھنس جانے والی جگہوں سے ہٹانے میں مصروف رہے۔ 4 X 4 گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد میسر ہونے کی وجہ سے اس شاہراہ پر ٹریفک کے رش کی وہ صورت نا بنی کہ سیاحوں کو رات گاڑی میں گزارنا پڑے۔

پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے سیاح عموماً مری کی سڑکوں کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور اپنی گاڑیوں پر سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں چلنے والی یہ گاڑیاں برف سے ڈھکی ہوئی سڑکوں اور منفی درجہ حرارت میں پھسلنے کی وجہ سے پھنس گئیں تو ٹریفک کا رش پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ کالام بحرین شاہراہ کی طرح یہاں پر اس تعداد میں جیپیں میسر نہیں تھی کہ سیاحوں کی گاڑیوں کو وہاں سے نکالا جا سکے۔ اور جگہ جگہ پر برفباری کی وجہ سے ہونے والی پھسلن اور ٹریفک کے اژدہام نے بہت سے افراد کو شہری آبادی سے دور پھنسا دیا جس کا المناک نتیجہ اگلے روز سامنے آیا۔

مری سانحے کے دوران مقامی افراد نے اپنی پہنچ میں پھنسے سیاحوں کی مدد کی حتی الوسع کوشش کی لیکن کیوں کہ بہت سے سیاح سڑک پر آبادیوں سے دور گاڑیوں میں پھنس چکے تھے تو ان کے لئے رات کی تاریکی میں ان تک مدد پہنچانا ممکن نا رہا۔

برف باری کے دوران ڈرائیونگ میں لاپرواہی

ملک بھر سے برف باری دیکھنے آنے والے سیاحوں کی کثیر تعداد کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ برف باری کے دوران ڈرائیونگ کرتے ہوئے ان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور نا ہی وہ ان مسائل سے بچنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پڑتی برف کے خوبصورت مناظر میں کھو کر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی گاڑی کے ریڈی ایٹر میں پانی جم بھی سکتا ہے اور ان کی گاڑی کی کمزور بیٹری اگر جواب دے گئی تو وہ آبادی سے دور ایسی جگہ پھنس جائیں گے جہاں سے انہیں رات کے وقت محفوظ مقام تک پہنچانا بھی ناممکن ہو جائے گا۔

سانحہ مری میں ہلاک ہونے والے سیاحوں کے استعمال میں جو گاڑیاں تھی وہ موسم اور برفباری کی شدت اور اس سے پیدا ہونے والے ہنگامی حالات کے لئے غیر موزوں تھیں۔ کسی بھی گاڑی کے ٹائروں پر چین نہیں تھے جو برف کی وجہ سے ہونے والے پھسلن میں مددگار ہوں۔ سیاحوں کی اکثریت کا برف سے ڈھکی سڑک پر گاڑی چلانے کا تجربہ نا ہونے کی وجہ سے بھی روڈ بلاک ہوجاتی ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق کلڈنہ سے جھیکا گلی تک برف باری کے شروع ہوتی ہی ہر موڑ پر سیاحوں نے اپنی گاڑیاں بے ہنگم طریقے سے پارک کر کے برفباری کا لطف اٹھانا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے ٹریفک کا دباؤ بڑھتا گیا اور ایک وقت آیا کہ واپسی کا راستہ ہی ممکن نا رہا۔ ٹریفک کے پھنس جانے پر عمومی رویے کے مطابق ہر کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ پہلے وہ نکل جائے اور برفیلی سڑکوں پر ڈرائیونگ کی ناتجربہ کاری ایسی صورت حال پیدا کر دیتی ہے کہ سیاح نا آگے کے رہے نا پیچھے کے۔

سیاحوں کی جانب سے پلاننگ کا فقدان

ملک بھر سے زیادہ تر سیاح بغیر پلاننگ کے مری اور دوسرے مقامات کا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ انہیں سرد موسم میں ان مقامات پرکن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برف باری کے دوران ہوٹلوں میں رش ہونے کی وجہ سے کمروں کے کرائے جب پہنچ سے باہر ہو جاتے ہیں تو سیاحوں کو مجبوراً یا تو اپنی گاڑیوں میں رات گزارنے کی کوشش کرتے ہیں یا واپسی کا رخ کرتے ہیں جو شام کہ بعد سڑکوں پر جمنے والے کورے کی وجہ سے ناممکن ہو جاتا ہے ۔ علاقے کی سڑکوں سے عدم واقفیت بھی سیاحوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیتی ہے۔

بہت سے سیاح ناکافی گرم کپڑوں میں برف باری کا لطف اٹھانے پہنچ جاتے ہیں کیوں کہ وہ ذہنی طور پر سردی کو اپنے علاقوں کے حوالے سے ہی جانتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں سردی سے بچاؤ کے لئے ایک آدھ گرم موٹی چادر سے گزارا چل جاتا ہے لیکن برف باری اور پہاڑوں کے سردی سے بچنے کے لئے مختلف تہوں میں گرم کپڑے پہننا پڑتے ہیں جس کا اندازہ نا ہونے کے وجہ سے سیاحوں کو تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گردن، سر، سینے، ہاتھ اور پاؤں کو گرم اونی کپڑوں سے ڈھکے بغیر برف میں نکلنا بیماری کو دعوت دینا ہے جس کو برفباری کے دوران نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ خواتین زرق برق لباس پہن کر سردی سے بچاؤ کو یا تو پس پشت ڈال دیتی ہیں یا پھر انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے میدانی علاقوں میں سردی ہوتی ہے ویسے ہی ہے۔ گرتی برف میں زیادہ دیر گزارنے سے کپڑے جب گیلے ہوتے ہیں تو ان کا جلدی خشک ہونا ممکن نہیں رہتا اور یہ گیلے کپڑے بھی کئی سیاحوں کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں لیکن برف باری سے لطف اندوز ہونے کا جنون ان سب مسائل پر حاوی آ جاتا ہے۔

سیاحوں کی ایک بڑی تعداد برف باری سے لطف اندوز ہونے کے چکر میں سردی کی مناسبت سے جوتے کا انتخاب ہی نہیں کرتی۔ چپل، سینڈل، نوروزی، ہیل والے جوتے غرض جو ہاتھ آیا پہن کر برفباری کا لطف اٹھانے نکل پڑتے ہیں۔ اکثر سیاحوں کے جوتے واٹر پروف نا ہونے کی وجہ سے برف میں ناکارہ ہو جاتے ہیں اور پاؤں گیلا ہو جاتا ہے جس کہ وجہ سے برف میں دو قدم چلنا بھی کوسوں چلنے سے مشکل ہوتا ہے۔ جب ساتھ خواتین اور بچے ہوں تو اس وقت یہی صورت حال اور مشکل ہو جاتی ہے، ۔ سیاحوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ معمولی قیمت کا ایک سلیکون کوور ان کے عام جوتے کو واٹر پروف کر سکتا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ محفوظ مقام تک پہنچ جائیں۔

اشیائے خور و نوش کی عدم دستیابی

حالیہ برف باری میں پھنس جانے والے زیادہ تر افراد کو اشیاء خور و نوش کی عدم دستیابی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ میدانی علاقوں میں ہر پانچ دس کلومیٹر بعد آبادی اور کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کو وہ ہنگامی صورت حال کے تناظر میں سوچتے ہی نہیں۔ جب کہ برف باری کے دوران بغیر کھانے پینے کی اشیاء کے سفر کو خودکشی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ پینے کے پانی تک کی عدم دستیابی ہنگامی حالت میں سیاحوں کے بچاؤ کو اور مشکل بنا دیتی ہے۔

ہنگامی حالات سے بچاؤ کے طریقوں سے عدم واقفیت

برفباری سے پیدا شدہ ان ہنگامی حالات سے بچاؤ کے طریقوں سے عدم واقفیت بھی سیاحوں کی مشکلات میں اضافہ کر گئی۔ ملک بھر میں ہنگامی امداد کی تربیت کا کوئی نظام ہی موجود نہیں کہ ایک عام آدمی ایسے حالات میں اپنا اور اپنے ساتھ والوں کو بچا و کر سکے۔ صرف کھڑی گاڑی میں ہیٹر چلانے کے نقصانات سے ہی اگر سیاحوں کو آگاہی ہوتی تو شاید بہت سی قیمتی جانیں بچ جاتیں۔ برفباری کے دوران جسم کو گرم رکھنا، آگ جلانے کے لئے ایندھن اکٹھا کرنا یا کسی محفوظ پناہ گاہ کا ڈھونڈنا وہ بنیادی مہارتیں ہیں جن کے بغیر ہنگامی حالات میں بچاؤ نا ممکن ہو جاتا ہے ۔

ہم سیاحت کے حوالے سے اپنے عوامی رویوں کا اگر بغور جائزہ لیں تو ہمیں ادراک ہو گا کہ ہم بہت سی بنیادی غلطیاں کرتے ہیں جو بڑے سانحوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ حکومتی اداروں کی بد انتظامی، ہوٹل مالکان کی کمرشل بے حسی، سیاحوں کی لاپرواہی اور ہنگامی حالت میں بچاؤ کے طریقوں سے عدم واقفیت ہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے سانحہ مری رونما ہوا اور یہ وہ عوامل ہیں جن کو مدنظر رکھ کر نا صرف ہم خود بلکہ اپنے اردگرد موجود افراد کی زندگیوں کو بچا سکتے ہیں۔

%d bloggers like this: