جون 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کی ٹریفک، چلی جارہی ہے اللہ کے سہارے!||سارہ شمشاد

ہماری حکومت چونکہ یہ سمجھتی ہے کہ عوام کے پاس ’’بہت ‘‘پیسے ہیں اسی لئے تو لوگ بڑی تعداد میں مری گئے یہی نہیں بلکہ سڑکوں پر گاڑیاں کی ریکارڈ تعداد بھی حکومتی موقف کو درست ثابت کرتی ہے اس لئے اگر عوام سمجھتے ہیں کہ بھئی ملتان کی سڑکیں کشادہ ہونی چاہئیں،
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملتان کی سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کا رش دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کوئی تو ہو جو ارباب اختیار کو بتائے کہ ملتان کی سڑکیں موجودہ آبادی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں لیکن ’’نقارخانے میں توتی کی آواز کون سنتا ہے‘‘ کے مصداق یہاں کوئی بھی عوام کے بارے میں بات کرنا چونکہ اپنی توہین سمجھتا ہے اسی لئے تو میرے ملتان شہر سے جڑے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں لیکن ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اسی لئے ایم ڈی اے کی ناقص کارکردگی کا جنازہ ذرا دھوم سے نکالنے کے لئے ایک علامتی جنازے کا بندوبست کیا جارہا ہے کہ جب افسران کے کانوں میں سیسہ ڈل گیا ہو اور بار بار ان کی توجہ مسائل کی طرف دلوائی جائے اس کے باوجود بھی کوئی اصلاح احوال کے لئے اقدامات ضروری نہ سمجھے جائیں تو پھر 3حرف بھیجنے کو ہی دل چاہتا ہے۔ آج میرے ملتان کے شہری جس تکلیف، کرب اور پریشانی کے دن گزار رہے ہیں یہ وہ یا پھران کا خدا ہی جانتا ہے کیونکہ ہمارے ارباب اختیار لئے تو نیرو چین کی بانسری ہی بجارہا ہے اس لئے کسی کو عوام سے جڑے عوامی نوعیت کے مسائل سے کچھ لینا دینا ہی نہیںہے۔ ملتان کی فقط دو سڑکیں ایک معصوم شاہ روڈ اور دوسرا خانیوال روڈ، آج ان دونوں سڑکوں کی صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اب چند منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونا معمول بن گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں قصور کس کا ہے۔
صاحب !یقینی طور پر ہمارے حکمرانوں کے نزدیک ہر مسئلے کے ذمہ دار چونکہ عوام ہی ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ بنا چوں چراں عوام ٹریفک جام رہنے اور سڑکوں کی خستہ حالی کی ذمہ داری کوتسلیم کرے کہ یہ انہی غلطی ہے کہ انہوں نے اپنی سہولت کے لئے موٹر کاراور موٹر سائیکل لے لئےہیں حالانکہ ہمارے علاقے کے ’’لارڈ گورنر‘‘ تو چاہتے تھے کہ ملتان کے شہری پیدل چلیں، اسی سوچ کے تحت ہی تو وہ ملتان کی سڑکوں کو چوڑا کرنے کا بھی نہیں سوچ رہے۔ آخر ہمارے گورنر کو عوام کی صحت اور جیب کا کس قدر ’’خیال‘‘ ہے کہ ایک تو پیدل چلنے سے انہیں شوگر، گیس اور دیگر عارضے لاحق نہیں ہوں گے جبکہ موٹرکاریں اور موٹرسائیکل نہ ہونے کی بنا پر ان کے پٹرول کی بھی بچت ہوجائے گی۔ ایسے میں اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے حکمرانوں کو عوام کی صحت اور جیب دونوں کا ہی بہت ’’خیال‘‘ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ دراصل یہی وہ نادر شاہی نسخہ تھا جس کو مدنظر رکھ کر ارباب اختیار نے ملتان کی سڑکیں تعمیر کیں اوراب اسی اصول پر عمل پیرا ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ سڑکوں کے سائز اور حجم کو نہیں بڑھائیں گے بلکہ وہ عوام کو مجبور کردیں گے کہ وہ آسائشوں کی زندگی چھوڑ کر سادگی کے اصول کو اپناتے ہوئے سادہ لائف سٹائل کو اپنائیں۔
ویسے ملتان کے عوام بھی کتنے بیوقوف اور ناشکرے ہیں کہ اللہ رب العزت نے انہیں اتنا ’’درددل‘‘ رکھنے والے حکمران اور انتظامیہ عطا کی لیکن بھئی ہم عوام بھی ڈھیت ثابت ہوئے ہیں اور ڈھیٹ پن کی چونکہ ہر سطح کو عبور کرنے کے لئے تیار ہیں اس لئے ہماری زبان پر شکریے کا ایک لفظ تک مقامی انتظامیہ کے لئے نہیں ہے۔ بس ہمیں تو صرف ایک ہی کام آتا ہے اور وہ اپنی ’’پیاری اور سیدھی راج دلاری‘‘ انتظامیہ کوکوسنا۔ جب کوئی ان بیوقوف شودی عوام کو سمجھائے کہ کہ انہیں چادر یعنی سڑکیں دیکھ کر اپنے پائوں پھیلانے چاہئیں اور اگر بوسن روڈ پر ٹریفک کا بلاک رہنا معمول ہے تو اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ عوام ہی ہیں جو اتنی بڑی بڑی گاڑیاں لے کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں بھلا بتائو کہ سڑک کی چوڑائی سے زیادہ چوڑی تو اب لوگوں کی گاڑیاں ہی ہیں ایسے میں اگر اب بھی وہ انتظامیہ اور اداروں کو برابھلا کہنا چاہتے ہیں تو پھر اللہ کی مرضی۔ پہلے کون سا کسی ادارے نے عوام کے کوسنوں کو اہمیت دی ہے جو اب دیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اب تو عوام کو ملتان کی سڑکوں پر ٹریفک جام کو’’ انجوائے‘‘ کرنے کے لئے ٹریفک وارڈنز بھی یہی کہتے ہیں کہ بھئی چلو کبھی ملتان کے باسی ایک دوسرے سے بھی سوشلائزیشن کرلیں یہ ہروقت اپنے گھروں میں قید رہتے ہیں کہ چلو اس طرح سڑکوں کی ’’تازہ‘‘ ہوا کھاکر وہ اپنے پھیپھڑوں کو بھی ’’صاف‘‘ آکسیجن مہیا کرلیتے ہیں اس لئے اگر بوسن روڈ پر سکولوں، کالجوں اور دفتری اوقات میں سڑک جام رہتی ہے تو بہتر ہے کہ عوام اپنی منزل پر جانے کے لئے کئی گھنٹے پہلے گھر سے نکلیں اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو بھئی جو شخص 70، 80لاکھ کی گاڑی لے سکتا ہے وہ جہازاور ہیلی کاپٹر لے ویسے بھی فواد چودھری کے بقول ہوائی جہاز کا سفر ’’بہت سستا‘‘ ہے اور یوں عوام کی مزید ’’بچت‘‘ ہوجائے گی۔ اس لئے میرے پیارے عوام برائے مہربانی آپ ملتان کی انتظامیہ، عوامی نمائندوں، اداروں کو برا بھلا کہنے کی بجائے اپنی ادائوں پر نظرثانی کریں کیونکہ اگر کوئی کچھ کرسکتا ہے تو وہ آپ عوام ہی ہیں جو خوداپنی حالت بدل سکتے ہیں۔ آخر ہمارے ارباب اختیار کوئی اتنے گرے پڑے تھوڑی ہیں کہ بھئی ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ عوامی مسئلے پر ایکشن میں آئیں۔ آخرا نہیں اور بھی دیگر ’’ضروری‘‘ کام کرنے ہوتے ہیں کہ ہر وقت عوام کی ہی تپسیا کریں۔
ہماری حکومت چونکہ یہ سمجھتی ہے کہ عوام کے پاس ’’بہت ‘‘پیسے ہیں اسی لئے تو لوگ بڑی تعداد میں مری گئے یہی نہیں بلکہ سڑکوں پر گاڑیاں کی ریکارڈ تعداد بھی حکومتی موقف کو درست ثابت کرتی ہے اس لئے اگر عوام سمجھتے ہیں کہ بھئی ملتان کی سڑکیں کشادہ ہونی چاہئیں، پلیوں کی جگہ پل ہونے چاہئیں تو بہتر ہوگا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھیں کیونکہ نہ تو ہمارے کسی ادارے کو عوام کی خدمت کرنی ہے اور نہ ہی وہ غالباً عوام کی خدمت کے لئے بنائے گئے ہیں کیونکہ اداروں کی کارکردگی کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ادارے عوام کی نہیں بلکہ اپنے آقائوں کی خدمت کے لئے بنے ہوئے ہیں اور رہے عوامی نمائندے تو جناب انہیں تو بھرپور پروٹوکول مل ہی جاتاہے اسی طرح جج صاحبان بھی اس سہولت سے خوب مستفید ہوتے ہیں اور رہے نگوڑے عوام تو پہلے کسے ان کی فکر ہے جو اب وہ کچھ عوام کے لئے کرنے بارےبھی سوچیں۔ اس لئے عوام کو ایم ڈی اے، واسا سمیت دیگر ’’عوام کی خدمت‘‘ کے نام پر بنے اداروں کا ایک مرتبہ ہی اجتماعی جنازہ پڑھ کر انہیں دفن کردینا چاہیے اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کےلئے انہیں چونٹیوں سے سبق سیکھنا چاہیے جو آہستہ آہستہ رینگ کر بھی اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتی ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر آئندہ کبھی غلطی سے ہماری انتظامیہ ملتان کی سڑکوں کو کشادہ کرنے، پلوں کو وسعت دینے اور ٹریفک کے بہائو کو کنٹرول کرنے بارے کچھ خیال دماغ میں بھی آجائے تو اسے جھٹک دینا چاہیے اور اسے شیطان کی ایک شرارت سمجھنا چاہیے کہ وہ اچھے بھلے لوگوںکو بھٹکانے کا سبب بن رہا ہے۔ ان سطور کے ذریعے ملتان کے عوام اپنی انتظامیہ سے گزارش کریں گے کہ وہ تعلیمی اداروں اور دفتری اوقات کی چھٹی کے وقت تو بالکل بھی گھروں سے نہ نکلیں بلکہ اپنے آپ کو کمروں میں بند کرلیں کہ کہیں ٹریفک کا دھواں ان کی طبیعت پر کوئی برا اثر نہ ڈال دے۔ اسی طرح بوسن روڈ پر تو صبح 7بجے سے رات 8بجے تک سفر سے حتی الامکان گریز کریں اور اگر پھر بھی خانیوال روڈ سے گزرنا ان صاحبان کی بے حد مجبوری بن جائے تو خدارا پروٹوکول کو ضرور سمجھ لیجئے گا یہ نہ ہو کہ آپ کو بھی ٹریفک جام میں کئی کئی گھنٹے کھڑا رہنا پڑے اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو آپ کے تو دیگر ’’انتہائی اہم اور حساس‘‘ نوعیت کے کام تاخیر کا شکار ہوجائیں گے۔ اگر پھر بھی چاروناچار انہیں معصوم شاہ روڈ سے گزرنا پڑجائے تو بیوروکریسی کی طرح ڈھیٹ بن جائے اور ایسے حیلے بہانے تلاش کریں کہ جیسے وہ اپنے عوام کو گولی کرواتے ہیں کہ انہیں اپنی ہی کچھ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کدھر ہیں اور یوں ان کی جان چھوٹ جائے لگی۔ ارے بھئی ہماری نازک مزاج انتظامیہ معصوم شاہ روڈ پر پڑے گڑھوں کے دھکے کہاں برداشت کرسکتی ہے اور اگر ان کی طبیعت خراب ہوگئی تو پھر ان کی جگہ عوام کی درگت اور معذرت کے ساتھ خدمت کون کرے گا۔ اسی طرح بجلی، گیس، ٹیلی فون کی لائنیں بچھانے کی بجائے کوشش کریں کہ عوام کو ایک دفعہ وہاں لٹادیں تو کافی مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے کہ Untouchables یونہی افسران بالا کو تنگ کرنے کے لئے چیختے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: