مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مال روڈ لاہور پر بڑا ڈاکا||رؤف کلاسرا

سمجھ نہیں آرہی کابینہ اجلاس نہ کرنے والا وزیراعظم ٹھیک تھا یا وہ وزیراعظم جو ہر ہفتے کرتا ہے ہے؟ آپ ہی کچھ راہنمائی کر دیں۔ خیر آپ کچھ بھی کہتے رہیں مال روڈ لاہور پر ایک بڑا ڈاکا پڑنا تھا وہ پڑ گیا۔ قوم ایک دفعہ پھر لٹی گئی ہے اور اس دفعہ ہینڈسم وزیراعظم کے دور میں ان کے حیران کن فیصلے سے ہی لٹی ہے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم نواز شریف کی ایک بات تو اچھی ہے کہ وہ وزیراعظم بننے کے لیے ہر قسمی پاپڑ بیلتے ہیں، رولا ڈالتے ہیں، جمہوریت کے نعرے مارتے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے ڈیلوں سے لے کر جیلوں تک سب کچھ کر گزرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ سے وزیراعظم کا ووٹ لے کر وہ پھر کبھی پارلیمنٹ کا رخ نہیں کرتے۔ ان کا سفری بیگ تیار ہوتا ہےاور وہ ابن بطوطہ اور مارکو پولو کی روایت پر چلتے ہوئے دنیا کے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ پھر نہ انہیں پارلیمنٹ یاد رہتی ہے نہ جمہوریت ۔ پچھلے دور حکومت میں نواز شریف صاحب چار سو دن تک ملک سے باہر رہے، سو سے زیادہ بیرون ملک دورے کیے، بائیس دورے لندن کے تھے جہاں خاندان رہتا ہے، سوا ڈیرہ ارب روپے ان دوروں پر خرچ ہوئے اور وطن واپسی پر سینکڑوں تحائف ان کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ایک دن سینٹر کلثوم پروین نے سینٹ میں سوال پوچھ لیا کہ بتایا جائے کہ ان دوروں میں نواز شریف اور ان کےد رباریوں کو کتنے تحائف ملے تو وزیراعظم ہاوس جسے فواد حسن فواد صاحب چلاتے تھےانہوں نے ایک نیا قانون ایجاد کیا جس کے تحت نواز شریف کو ملنے والے سب تحائف کو قومی راز ڈیکلیر کر کے ان کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا گیا۔
اس روایت کا سہارا اب عمران خان نے لے کر اپنے تحائف بتانے سے انکار کردیا ہے کہ نواز شریف نے نہیں بتائے تو میں کیوں بتائوں۔
یہ ہمارے بیورورکریٹس جب حکمرانوں کو سرو کرنے پر آئیں تو ایسے ایسے قانون گھڑ لیتے ہیں کہ آپ لوگ حیران ہو جائیں اور اپنی تشریح کرتے ہیں کہ اسی قانون کے تحت آپ کا کام ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔ برسوں سے ان تحائف کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش ہورہی تھیں جس میں باقاعدہ بتایا جاتا تھا کہ وزیراعظم، وزیروں یا ان کے ساتھ جانے والے وفد ارکان کو کس ملک سے کون سا تحفہ ملا، اس کی مالیت کیا تھی اور وہ تحفہ ان موصوف نے دس فیصد ادائیگی کر کے خود رکھ لیا تھا یا سب کچھ توشہ خانہ میں جمع کرا دیا تھا۔
اب کی دفعہ کچھ نیا کیا گیا اور فواد حسن فواد نے وزیراعظم ہاوس سے ان تحائف کی تفصیلات دینے سے روکا اور کابینہ ڈویزن نے ان تحائف کو بھی قومی راز ڈیکلر کر دیا۔
نواز شریف نے حکومت اسحاق ڈار کو ٹھیکے پر دی ہوئی تھی اور خود دنیا کا سفر کرتے تھے۔چھ چھ ماہ کابینہ اجلاس نہیں ہوتے تھے اور جو ہوتے تھے اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کیا بحث ہوتی ہوگی اور کیا فیصلے ہوتے ہوں گے۔ ایک فیصلہ تو مزے کا تھا ایک چینی کمپنی ساتھ این ایچ اے کے چیرمین شاہد تارڑ نے ڈیرہ دو ارب ڈالرز کا ایم او یو سائن کیا اور بعد میں انکشاف ہوا کہ چینی کمپنی کی طرف سے سیف الرحمن نے ان کا نمائندہ بن کر اس ایم او یو پر دستخط کیے۔ مطلب شریف خاندان خود کو ہی یہ ٹھیکہ دے رہا تھا اور چینی محض فرنٹ مین کے طور پر استمعال ہورہے تھے۔ سیف الرحمن کی بیٹی کی شادی ابھی مریم نواز کے صاحبزادے جیند صفدر سے ہوئی ہے۔ جی ہاں وہی شادی جو ایک شاہی خاندان کی طرح ایک ہفتہ بھر منائی گی۔
اب آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ یہ کنڑیکٹ کس کو اور کیوں دیا جارہا تھا۔ شریف خاندان نے ایک سمجھداری کی کہ انہوں نے ان دوستوں میں اپنے رشتے کیے جو ان کے کاروباری رازوں کے امین ہیں چاہے وہ اسحاق ڈار ہوں یا سیف الرحمن۔
خیر بات کہاں سے جہاں نکل گئی تو میں سوچ رہا ہوں نواز شریف کا ماڈل آف گورنس درست تھا جس کے تحت وہ مارکو پولو بن کر دنیا کی سیر کرتے تھے اور کابینہ اجلاس ہوں یا پارلیمنٹ ان سے چھ چھ ماہ تک دور رہتے تھے یا پھر عمران خان ماڈل ٹھیک ہے جو ساڑھے تین سالوں سے مسلسل ہر ہفتے کابینہ اجلاس بلاتے ہیں اور وہاں اہم بحث اور فیصلے کیے جاتے ہیں؟
لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی جو اب یہ مسلسل اجلاس ہورہے ہیں اس میں کس قسم کی بحث اور فیصلے ہورہے ہیں؟
چند فیصلوں کو پڑھ اور سن کر میں ششدر رہ گیا ہوں کہ کیا چل رہا ہے۔
لاہور کے ایک سرکاری انٹرنیشل سروس ہوٹل کی فروخت کا معاملہ کابینہ میں نج کاری کمشن لے کر گیا تو اس کی قیمت پڑھ کر وزیراعظم عمران خان تپ گئے اور بولے یہ کئی منزلہ ہوٹل تو جم خانہ لاہور کے سامنے مال روڈ پر واقع ہے اور وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ یہ کتنی مہنگی زمین ہے اور اسے کوڑریوں کے دام بیچا جارہا ہے۔اس اجلاس میں کابینہ سیکرٹری احمد نواز سیکھرا نے بھی رولا ڈالا کہ وہ بھی لاہور میں پلے بھرے اور یہیں جم خانہ کرکٹ گراونڈ میں کرکٹ کھیلی اور یہ لاہور کا سب سے مہنگا اور پوش ایریا ہے بھلا پندرہ کینال پر واقع کمرشل لینڈ کے اس ہوٹل کی قیمت اتنی کم کیسے ہوسکتی ہے؟
اس پندرہ کینال ہوٹل کی قیمت صرف ایک ارب نوے کروڑ لگائی گئی تھی ۔ اتنے میں تو ایک کینال کمرشل پلاٹ بھی نہیں آتا۔
عمران خان نے فوری طور پر نج کاری کمشن کو روک دیا کہ اس ہوٹل کو ابھی نہیں بیچیں۔اتنی دیر میں سینٹ کی کمیٹی نے بھی وزیراعظم کو خط لکھا کہ اس ہوٹل کی فروخت میں بڑے بڑے گھپلے کیے جارہے تھے اور آپ اس پورے عمل کو روکیں۔ اس ہوٹل کی کچھ برس جو قیمت لگائی گئی تھی وہ موجودہ قیمت سے بہت زیادہ تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ پراپرٹی کی قیمت بڑھتی ہے نہ کہ گھٹتی ہے جیسے اس کیس میں ہورہا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے لاہور مال روڈ پر واقع سرکاری ہوٹل کی پراپرٹی اتنی کم ہوگئی تھی کہ پندرہ کینال کمرشل لینڈ کی قیمت صرف ایک ارب نوے لاکھ روپے لگائی گئی تھی۔
سب کا خیال تھا اب عمران خان کے ہوتے ہوئے یہ دن دہاڑے ڈاکا نہیں پڑ سکتا تھا اور اب یہ ڈیل نہیں ہوگی۔ لیکن کمالات ہیں زمانے کے کہ جناب صرف دو ہفتوں بعد جب کابینہ کا اجلاس ہوا تو عمران خان صاحب نے اسی قیمت پر ہی اس پارٹی کو وہ ہوٹل فروخت کرنے کی حیران کن منظوری دی جس پر وہ پہلے اجلاس میں سینکڑوں اعتراضات کرچکے تھے۔ وہ پارٹی اسلام آباد میں ایک ہاوسنگ سوسائٹی کی مالک ہے۔ اب باقی کے اندازے آپ خود لگا لیں کہ جس ہوٹل کی فروخت عمران خان نے ایک ہفتے پہلے روکی تھی وہ خود ہی بغیر بحث و مباحثہ کے اسی قیمت پر فروخت کرنے کا فیصلہ کر دیا۔
پاکستان جیسے ملکوں میں کاروباری لوگ سب سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی اربوں کی ڈیل میں کام ایسے نہیں ہوتے۔ بڑے لوگوں کی چونچ گیلی کرانی پڑتی ہے، حکمرانوں کے رشہ داروں، فرنٹ مین اور قریبی دوستوں کی خدمات لینی پڑتی ہیں اور اس پورے عمل میں وہی مافیا کی زبان میں سب کی چونچ گیلی کرانی پڑتی ہے اور پھر جا کر سب کچھ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سب کو پتہ ہوتا ہے کہ کوئی ڈیل پھس گئی ہے تو اسے کیسے کلیر کرانا ہے اور اس طرح لاہور ہوٹل کی ڈیل کلئر کرائی گئی ہے۔ اب اس پوری ڈیل میں کس نے کیا کچھ کمایا وہ الگ ایشو ہے۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کا شاہد تارڑ کے زریعے سیف الرحمن کو دو ارب ڈالرز کے موٹر وے پر ایم او یو سائن کرنے کا فیصلہ ہو یا پھر عمران خان کا لاہور کے پندرہ کینال پر واقع ہوٹل کی کوڑیوں کے مول فروخت پر پہلے رولا ڈال کر اسے روکنا اور پھر حیران کن انداز میں اسے کلیر کر دینے میں کیا فرق ہے؟ یقینا آپ کا جواب ہوگا کہ کنڑیکٹ کی مالیت اورہوٹل کی فروخت میں پیسوں کا فرق ہے۔ ایک اور فرق بھی ہے کہ ایک وزیراعظم چھ چھ ماہ کابینہ اجلاس نہیں کرتا تھا اور جب کرتا تو خاندان کو کنڑیکٹ نوازتا اور یہاں وزیراعظم ہر ہفتے اجلاس کرتا ہے اور خود پہلے اس ہر اعتراض اٹھاتا ہے لیکن پھر اگلے ہفتے ہی اسی پارٹی کو ہوٹل کوڑیوں کے مول بیچ دیتا ہے۔
سمجھ نہیں آرہی کابینہ اجلاس نہ کرنے والا وزیراعظم ٹھیک تھا یا وہ وزیراعظم جو ہر ہفتے کرتا ہے ہے؟ آپ ہی کچھ راہنمائی کر دیں۔ خیر آپ کچھ بھی کہتے رہیں مال روڈ لاہور پر ایک بڑا ڈاکا پڑنا تھا وہ پڑ گیا۔ قوم ایک دفعہ پھر لٹی گئی ہے اور اس دفعہ ہینڈسم وزیراعظم کے دور میں ان کے حیران کن فیصلے سے ہی لٹی ہے۔
میں نے بھی سوچا سانپ تو نکل گیا لکیر ہی پیٹ لوں۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: