اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’گھوڑا، رات اور صحرا مجھ سے واقف ہیں‘||حسنین جمال

صحرا ہے، گرمی ہے اور گھوڑا ہے کہ جو انتھک بھاگا چلا جا رہا ہے۔ دشمن نے قسم کھائی تھی کہ ایک آدمی کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا۔ اس فرار اور تعاقب میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ اس گھوڑے کا سٹیمنا کم نہیں ہوتا تھا اور مخالفوں کے گھوڑے ایک ایک کر کے ہانپنے لگے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑائی دو چیزوں سے مل کے پوری ہوتی ہے، دشمن کو مار ڈالنا یا خود مر جانا۔ دونوں لڑنے والی پارٹیوں کی اپنی سچائیاں ہوتی ہیں جن کے نام پر کٹ مرنے کو وہ ہمیشہ تیار رہتی ہیں۔

معمولی لڑائی قبیلوں کی جنگ میں کب بدل جائے، ہزاروں برس پہلے عرب جانتے تھے اور نہ آج نئی دنیا میں رہنے والے جانتے ہیں۔

دشمن کو ختم کرنے اور اپنی جان بچا کر بھاگنے میں ہتھیاروں سے بھی زیادہ اہم کردار اس وقت گھوڑے کا ہوتا تھا۔

ایک مرتبہ لڑائی کچھ ایسی چھڑی کہ عربوں کا ایک گروہ برے طریقے سے دشمن قبیلے کے محاصرے میں آ گیا۔ چاروں طرف دشمن اور ان کے گھوڑے اور بیچ میں پھنسے ہوئے یہ چند آدمی۔

اس پورے گروہ میں صرف ایک آدمی بچا۔ اس کا گھوڑا اتنا تیز رفتار تھا کہ وہ دشمن کی صفوں میں سے تقریباً اڑتا ہوا نکلا اور تیزی سے ایک نقطہ بنتا دکھائی دیا۔

صحرا ہے، ریت کے پہاڑ ہیں، گرمی ہے اور گھوڑا ہے کہ جو انتھک بھاگا چلا جا رہا ہے۔ دشمن نے قسم کھائی تھی کہ ایک آدمی کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا۔ اس فرار اور تعاقب میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ اس گھوڑے کا سٹیمنا کم نہیں ہوتا تھا اور مخالفوں کے گھوڑے ایک ایک کر کے ہانپنے لگے۔

آپ یقین کریں گے آگے کیا ہوا؟ دشمنوں کو اس ایک گھوڑے کی تیزرفتاری ایسی پسند آئی کہ انہوں نے دور سے قسمیں دے کر اس بھاگنے والے کو جان بخشی کا یقین دلایا اور کہا کہ ’رک جا تاکہ ہم اس گھوڑے کی پیشانی چوم سکیں۔‘

گھڑسوار رکا، وہ لوگ قریب آئے، گھوڑے کو پیار کیا اور اسے کہا ’پہلے اپنے گھوڑے کے پیر دھو پھر خود پانی پی۔‘ یعنی گھوڑے کی وجہ سے تیری جاں بخشی کر دی، اب تو جا اور اس کی قدر کر۔

یہ عربی گھوڑا تھا اور یہ سلوک دو عرب جانی دشمنوں کا آپس میں تھا۔

گھوڑے کی اتنی قدر اس وجہ سے بھی تھی کہ اونٹوں کی طرح گھوڑا ہر جگہ پالا نہیں جا سکتا تھا۔ گھوڑے کو تازہ چارا درکار ہوتا ہے اور وہ سہولت چند علاقوں تک محدود تھی۔ عراق، شام اور موجودہ سعودی عرب کے گھوڑے سب سے زیادہ قیمتی اور عمدہ سمجھے جاتے تھے۔

گھوڑوں کا شجرہ (پیڈی گری) محفوظ رکھنے کے لیے جب کوئی اچھی نسل کا گھوڑا پیدا ہوتا تو باقاعدہ گواہ جمع کیے جاتے، ان کے سامنے پیدائش کی تاریخ، ماں کا نام اور خاندان ایک کاغذ پر لکھے جاتے، اس شجرے پہ گواہوں کی مہریں لگنے کے بعد اسے تانبے کی ڈبیا میں بند کر کے بچے کی گردن میں لٹکا دیا جاتا۔ گھوڑوں کے نام کیسے ہوتے تھے، چند مثالیں دیکھیے؛ ورد، صموت، جون، عصا، خطار، اسکاب، نعامہ ۔۔۔ اپنی اولاد جیسے عزیز گھوڑوں کا نام بھی اسی دلچسپی سے رکھا جاتا تھا۔

گھوڑوں کی باقاعدہ ریس بھی ہوا کرتی تھی۔ ریس کے گھوڑے بڑی محنت سے پالے جاتے، نسلی گھوڑوں پر نشانیاں لگاتے کہ وہ دور سے پہچانے جائیں۔ ریس کا اصول یہ تھا کہ اگر دس گھوڑے ہیں تو پہلے سات جیت والوں میں شمار ہوتے اور آخری تین ہارنے والے سمجھے جاتے۔ ہارنے والوں یا جنگ میں ناکام واپسی پر گھوڑے نحوست کے حامل بھی سمجھے جاتے، انہیں ایک ’منحوس گھوڑے راحس‘ کی اولاد سمجھا جاتا تھا۔

آپ دیکھیں، جو متنبی تھا، وہ ایک جگہ اپنا تعارف کیسے کرواتا ہے؛

 گھوڑا، رات اور صحرا مجھ سے واقف ہیں
اور تلوار اور نیزے اور کاغذ اور قلم مجھے بخوبی جانتے ہیں

متنبی سے پہلے اور بعد میں اس موضوع پہ بہت کچھ کہا گیا لیکن کیسی سادگی سے وہ اپنی ساری صفت بیان کر گیا۔ کیا شاہانہ انداز ہے! میں وہ ہوں کہ جسے گھوڑا، رات، صحرا، تلوار، کاغذ اور قلم جانتے ہیں۔ تو گھڑسواری جو ہے بنیادی طور پر وہ قابل فخر سمجھی جاتی تھی اور اچھے گھوڑے کا مالک ہونا ایسا ہی تھا جیسے آج آپ کے پاس کوئی مرسیڈیز یا بی ایم ڈبلیو ہو۔

متنبی کا زمانہ اب سے کوئی سولہ سترہ سو برس پہلے کا تھا۔ آج دن تک عرب کلچر میں گھوڑے کی عین وہی اہمیت ہے جو ہمارے یہاں پگڑی کی ہے۔ آج کل میں دیکھیں تو سعودی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادہ خالد الفیصل نے ایک نظم کہی جو ’ڈاٹرز آف دی ونڈ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ترجمہ دیکھیے؛

ہوا کی بیٹیوں میں سے
جو میری ملکیت ہے
وہ ایک اڑتی ہوئی شاہ بلوط گھوڑی ہے
جب وہ پرواز کرتی ہے تو
صحرا میں ہرن کے جیسے لگتی ہے
کوئی بھی سوار بس اس جیسی گھوڑی کی خواہش کر سکتا ہے
اس کی خوبصورتی اس کی نزاکت اور وقار میں ہے
میں نے اس کے ہم عمر گھوڑوں میں ایسی خوبصورتی کبھی نہیں دیکھی
یہ خدا ہے جس نے اسے ایسی صفات سے ممتاز کیا
خوبصورت آنکھوں والی میری گھوڑی کسی بھی آدمی کے پاس نہیں جائے گی
وہ اپنے مالک کے سوا کسی کے لیے نہیں رکتی
وہ جب گھومتی پھرتی ہے تو میں خدا کی تعریف کرتا ہوں
میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس کی لگام سے نوازا گیا
وہ گویا ڈھول کی تھاپ پر ٹہلتی ہے
گھوڑوں سے محبت کرنے والے تمام دلوں کو وہ حسد میں ڈال دیتی ہے
اس کی ایال ان خوبصورت آنکھوں پر لٹکتی ہے
دوپہر کے سورج میں وہ ان آنکھوں پر اپنا سایہ کر دیتی ہے
اسے بیان کرنا بادل کو بیان کرنے جیسا ہے
ہر ایک آنکھ اس میں حسن کا الگ پہلو دیکھے گی
یا جیسے کسی خیال کو اس وقت ذہن سے گزرتے ہوئے بیان کرنے کی کوشش کرنا
جب ذہن اس سوچ کے بارے میں مکمل سچائی تک نہیں پہنچ سکتا ہو
زندگی میں ہر انسان کے اپنے مشاغل ہوتے ہیں
درحقیقت یہ شوق انسان پر مکمل مسلط ہو جاتا ہے

عنترہ بن شداد کی شاعری دلیری اور شہسواری کے لیے ضرب المثل تھی۔ سبع معلقات میں سے ایک معلقہ ان کا بھی تھا۔ ان کے چند اشعار کا ترجمہ دیکھیے کہ جس سے گھوڑے کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

جب کوئی نوجوان قابل مذمت زندگی پر مطمئن ہو​
دوشیزاؤں کی طرح پردے میں رہنا شروع کر دے​
اور موت کے شیر پر حملہ نہ کر سکے
گھوڑوں کے سینوں کو نیزوں سے چھلنی نہ کرے

آنے والے مہمانوں کی خاطر نہ کرے​
اور تلواروں کی پیاس زرہ پوش جنگجوؤں سے نہ بجھائے​
اور دیوانہ وار ضربوں کے ذریعے رتبہ حاصل نہ کرے​
اور آزمائشوں میں صبر نہ دکھائے​
تو موت کی خبر دینے والیوں سے کہو کہ جب وہ اس کی خبر لائیں
تو نوحہ کرنے والیوں کی آواز بلند نہ ہونے پائے​
تمہارا رونا صرف اور صرف جنگل کے شیر پر ہو​
جو گھمسان کی جنگوں میں دلیری دکھانے والا ہوتا ہے
مجھے جنگ میں چھوڑو کہ میں عزت کی موت چاہتا ہوں​
عزت کی موت میرے لیے زندگی سے بہتر ہے​

عربی شاعری کے بارے میں عام آدمی کا تاثر یہی ہے کہ اس میں صحرا ہو گا یا اونٹ، ایسا نہیں ہے۔ میدان اس قدر وسیع تھا کہ اگر نثر میں بھی کوئی خوبصورت بات کر دی جاتی تو اسے بھی شاعری ہی میں گنا جاتا تھا چاہے وہ قافیے ردیف سے آزاد ہو۔ قدیم عربی شاعری میں وہ تمام جذبات آپ کو وافر ملتے ہیں جو ہماری اردو غزل یا فارسی شاعری میں تھے بلکہ جدید عرب شاعروں نے تو دنیا کا ہر موضوع برتا ہے۔ آپ صرف چند موضوعات دیکھیں؛

1: شہرآشوب (کسی بستی یا مقام کے اجڑ جانے کا مرثیہ، عموماً وہ جگہ جہاں شاعر کی محبوبہ نے کبھی قیام کیا ہوتا تھا۔)
2: بہادری
3: نوحہ (مرثیہ یا المیہ شاعری)
4: جنگ
5: شجاعت
6: قصائد (عموماً حکمرانوں کی تعریف)
7: موسیقیت
8: بددعا
9: ہجو (بے عزتی پر مبنی شاعری)
10: وجدان
11: فطرت
12: فلسفہ
13: محبت
14: فراق (جدائی)
15: رات
16: مدح (تعریف)
17: صحرا
18: تلوار
20: اونٹ
21: فخر (قبیلوں کا ذاتی فخر)
22: خمریات (شراب)
23: تعلی (شاعرانہ مزاج سے کسی تشبیہہ کو اعلیٰ ترین مقام پر پہنچا دینا)

ان کے علاوہ کئی اور موضوع ہیں، عربی میں ایک بات مشہور ہے کہ ’الشعر دیوان العرب‘ یعنی عربوں کی شاعری ہی ان کی تاریخ ہے۔ آپ عربی شاعری سے تھوڑی سی بھی دلچسپی رکھتے ہیں تو عربوں کی زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہے جو ان کی شاعری میں آپ کو دکھائی نہ دے اور یہ سب موضوع گنوانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ان پہ باری باری کچھ نہ کچھ بات کی جائے۔

عربوں میں گھڑسواری کی اہمیت کا اندازہ آپ بشامہ بن حزن کے ان شعروں سے لگائیں کہ جن میں شجرے کا ذکر ہے تب بھی شہہ سواری پہ بات آ کے تھمتی ہے؛

ہم ہنشل کے پوتے ہیں
اور اس پر فخر کرتے ہیں
اور ہمارا دادا ہم پر فخر کرتا ہے
عزت اور برتری کے گھوڑے جب دوڑائے جائیں
سب سے آگے بڑھنے والوں میں
بنی ہنشل کے گھوڑے ہی تم پاؤ گے
لڑائی کے دنوں میں ہم اپنی جانیں
سستی کر دیتے ہیں
لیکن زمانہ امن میں
وہ انمول ہوں گی
ہزاروں میں ہمارا ایک موجود ہو
اور پوچھا جائےگا کہ
کون ہے شہسوار؟
تو اس کی خود پر ہی پر نگاہ پڑے گی

احمد تراث پاکستان میں عربی ادب جاننے والے نمایاں لوگوں میں ہیں۔ جامعۃ المدینہ سے فارغ التحصیل ہیں اور اسی ادارے کی ایک برانچ میں پڑھاتے ہیں۔ جدید عراقی، شامی اور مکمل عربی ادب پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ انہیں یہ مضمون پیش کیا تو ازراہ عنایت انہوں نے امرؤالقیس کے چند اشعار کا ترجمہ مجھے بھیجا جو اسی موضوع پر ہیں۔

لکھتے ہیں ’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گھوڑے کا عنوان ہو اور اس موقع پر امرؤالقیس کا گھوڑا یاد نہ آئے۔ عربی شاعری کے اس سرخیل نے اپنے گھوڑے کی تعریف کس خوبی سے بیان کی ہے، فقط چند اشعار کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے؛

میں صبح سویرے
جب کہ پرندے ابھی گھونسلوں میں ہوتے ہیں
نکل کھڑا ہوتا ہوں
ایک کم بالوں والے گھوڑے کے ساتھ
جو جنگلی جانوروں کو بھاگنے سے
روک دینے والا طاقتور ہے
تیزی سے حملہ کرنے والا
بیک وقت پیش قدمی کرنے والا اور
پیٹھ پھیرنے والا ہے
چٹان کے ایسے پتھر کی طرح
جس کو سیلاب نے
اوپر سے نیچے گرایا ہو
سرخ و سیاہ رنگت والا
جس کی کمر کے وسط سے
زین یوں پھسل جاتی ہے
جیسے چکنا پتھر ڈھلوان سے پھسل جائے
چھریرے بدن کے باوصف
جوشیلا ایسا
کہ جب سینے میں گرمی کے جوش مارنے سے
آواز نکلتی ہے
تو یوں لگتا ہے
جیسے ہنڈیا ابل رہی ہے
جب دوسری گھوڑیاں
تھکن کے مارے
پتھریلی زمین پر قدم مار مار کر
گرد اڑانے لگتی ہیں
یہ اس وقت بھی تیز رفتار ہوتا ہے
ہلکے پھلکے لڑکے بالوں کو تو
اپنی پشت سے پھسلا ہی دیتا ہے
اور مضبوط و بھاری جوان کو بھی
کپڑے سمیٹنے کا موقع نہیں دیتا
ایسا تیز رو ہے
جیسے بچے کی پھرکی
جس کو وہ دونوں ہاتھوں سے
مضبوط دھاگے کے ساتھ
گھمائے جاتا ہو
جب گھر کے پاس کھڑا ہوا ہو
تو اس کی پشت کا بالائی حصہ یوں لگتا ہے
جیسے دلہن کے لیے
خوشبو پیسنے والا پتھر ہو

قصہ مختصر یہ کہ ہزاروں ایسے شعر مزید موجود ہوں گے، ان سے اچھی مثالیں عربی شاعری میں بھری ہوں گی لیکن مقصد یہ تھا کہ ایک خزانہ جسے ہم باقی تعلیم کی وجہ سے نہیں چھو پاتے، اگر وہاں تک آپ کی نظر اس بہانے چلی جائے تو کیا ہی موجیں ہوں۔


ریفرنس 

تمدن عرب
عربی شاعری – اردو محفل
دا ہارس ان اریبک لٹریچر
عربوں کی شاعری

یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: