سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹیاں کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ہاں ان اہم ترین یونیورسٹیوں کو تعلیم و تحقیق کی بجائے میرٹ اور اقربا پروری کی پامال کا گڑھ بناکر رکھ دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز کی زیادہ تر یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یونیورسٹیوں کی زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے تو اس کا بڑا صاف سیدھا جواب یہی نکلتا ہے کہ ان اداروں کے بہترین نتائج نہ دینے کی ایک بڑی وجہ سیاسی بنیادوں پر وائس چانسلرز کی تعیناتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب میرٹ کی پامالی کو فروغ دے کر اپنے چاہنے والوں کو وائس چانسلر جیسے اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے گا تو اس کے بعد یونیورسٹیوں کی ترقی اور کامیابی کی توقع کرنا عبث ہوگا۔ سیاسی بنیاد پر تعینات ہونے والے وائس چانسلرز ادارے کی ترقی سے زیادہ اپنے ’’آقائوں‘‘ کو چونکہ خوش کرنے میں زیادہ وقت گزار دیتے ہیں اسی لئے تو آج ہماری یونیورسٹیاں حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئی ہیں۔ وہ ادارے جو کبھی یونیورسٹیوں کے کمائو پوت ہوا کرتے تھے آج مالی مشکل کا شکار ہیں۔
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تحقیق کا شعبہ تو انتہائی زوال پذیری کا شکار ہے مگر اداروں کے سربراہان کو ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اگر یہاں پنجاب اور جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں کو دیئے جانے والے بجٹ کا موازنہ کیا جائے تو انتہائی دکھ ہوتاہے کہ جیسے صوبائی حکومت کے نزدیک جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں میں تو کوئی کام ہی نہیں ہورہا۔اس لئے انہیں فنڈز دے کر کیا کرنا۔ دراصل یہ ہمارے اپنے علاقے کی یونیورسٹیوں کے سربراہان کا ہی قصور ہے کہ وہ حکومت سے اپنے اداروں کی ترقی کے لئے فنڈز طلب نہیں کرتے۔ میں خود سرائیکی ایریا ریسرچ سنٹر بی زیڈ یو کی زبوں حالی کا کئی مرتبہ نوحہ لکھ چکی ہوں یہی نہیں بلکہ اس شعبے کو کیسے ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جاسکتا ہے اس بارے بھی وائس چانسلر کی توجہ مبذول کرواچکی ہوں مگر چونکہ ان اداروں کے سربراہان کے نزدیک راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے اسی لئے تو آج تک کسی کو توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ ان اداروں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرے حالانکہ صرف بی زیڈ یو میں ہی کئی ایسے شعبے ہیں کہ جن کی طرف اگر تھوڑی سی توجہ کرلی جائے تو خسارےمیں چلنے والی یونیورسٹی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ ادھر یونیورسٹیوں میں یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ یونیورسٹیوں میں بھرتیاں تو سالہا سال نہیں ہوتیں لیکن کنٹریکٹ پر تعیناتیاں وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں اور یوں یونیورسٹیوں میں تعیناتی یا تو بااثر لوگوں کی ہوتی ہے یا پھر یونین کے لوگوں کی اور ان کا بھی زیادہ تر ریٹ ہی لگتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے دور میں چونکہ وائس چانسلرز کی تعیناتیاں سیاسی بنیادوں پر ہونے کا رواج زور پکڑ گیا اسی لئے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب ان اہم عہدوں پر تعینات لوگ اداروں کی ترقی سے زیادہ اپنے آقائوں کوخوش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
اگرچہ موجودہ حکومت نے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لئے سرچ کمیٹی بنانے کا اچھا قدم اٹھایا جس میں ایسے سینئر اساتذہ اور انتظامی تجربہ رکھنے والے افراد ہیں جن پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ یقیناً سرچ کمیٹی میں موجود لوگوں پر بڑا دبائو آتا ہوگا لیکن بہرحال یہ کمیٹی ابھی تک تو بہتر کام کررہی ہے۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ کسی بھی یونیورسٹی کا وائس چانسلر اس کا Face اور ویژن ہوتاہے اس لئے میرٹ صرف عمر اور سنیارٹی سے منسوب نہیں ہونا چاہیے۔ میرٹ کے ساتھ نئے تقاضوں سے ہم آہنگ لوگوں کو اس اہم ذمہ داری پر تعینات کرنا چاہیے۔
وائس چانسلر شپ ایک انتہائی اہم ترین عہدہ ہوتاہے اس لئے ایسے افراد کی تعیناتی کی جانی چاہیے جو ریسرچ کے ساتھ جدید طریقہ علوم سے بھی واقفیت رکھتے ہوں اور اگر بہت سے سینئر اساتذہ جن کی خدمات سے فائدہ اٹھاکر انہیں آگے لایا جانا بے حد ضروری ہے تو ایسے لوگوں پر مشتمل لوگوں کی ایک ٹیم بناکر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پاکستان کے لئے یہ بات بڑا اعزاز ہے کہ ہمارے Nust یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ریسرچ کے شعبہ میں دوسرے نمبر پر آئے ہیں۔اگر یہاں پر جنوبی پنجاب میں قائم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نوازشریف یونیورسٹی کے وائس چانسلر رائو آصف عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں جبکہ بی زیڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر منصور اکبر منڈی بھی اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر جامعہ کو بہتر بنانے کے لئے تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں لیکن اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہرمحبوب اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں اور ہر روز اپنے ناول پراجیکٹس متعارف کروارہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ یہ پروفیسر ڈاکٹرانجینئر اطہر محبوب کی جامعہ سے وابستگی کا ہی ثبوت ہے کہ اب اس یونیورسٹی میں طلبا کی تعداد میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے جو لوگوں کا ادارے پر اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس عمدہ کارکردگی کا سہرا یقیناً اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو دیا جاتا ہے تاہم میں ان سطور کے ذریعے ڈاکٹر اطہر محبوب سے گزارش کروں گی کہ وہ یونیورسٹی کے سرائیکی ریسرچ شعبے کی ترقی بارے بھی کچھ سوچیں تو یہ ان کا اس خطے پر بڑا احسان عظیم ہوگا کیونکہ اس خطے کے کلچر اور تہذیب و تمدن کی زرخیزی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تھوڑی سی نظرکرم سرائیکی شعبے کی ترقی پر بھی ڈالیں تاکہ ان کو اس خطے کے باسی ان کے جانے کے بعد بھی اچھے الفاظ میں یاد کرسکیں۔ اس سلسلے میں بطور طالب علم ان سے بھرپور تعاون کا یقین دلاتی ہوں۔
اب اگر یہاں رحیم یار خان یونیورسٹی جوکہ کچھ عرصہ قبل ہی قائم ہوئی ہے اس کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی۔ اگرچہ یہاں پر 14ہزار سے زائد طالب علم زیرتعلیم ہیں لیکن ابھی اس حوالے سے بہت کچھ ہونا باقی ہے مگر اس کو کیا کہا جائے کہ رحیم یارخان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے خلاف مقالہ چرانے کا کیس سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں ہے۔ یاد رہے کہ آسٹریلیا یونیورسٹی میں زیرتعلیم پاکستانی نے مبینہ طور پر وائس چانسلر پر اپنا مقالہ چرانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس الزام کے بعد کسی اور کو وائس چانسلر تعینات کیا جاتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ معاملے کو جان بوجھ کر سست روی کا شکار رکھا جارہا ہے جس سے ادارے کی بڑی بدنامی ہورہی ہے ایسے میں ضروری ہے کہ ایچ ای سی اس بارے حرکت میں آئے اور صورتحال کو واضح کرے کیونکہ اگر آسٹریلیا کے طالب علم کا مبینہ دعویٰ درست ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ہونی اچہیے تاکہ کسی دوسرے کو آئندہ ایسی جرات نہ ہوسکے۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی جامعات کو تحقیقی شعبے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور ایچ ای سی کوطلبا کو اس حوالے سے فنڈنگ مہیا کرنی چاہیے تاکہ ریسرچ اور تحقیق کا شعبہ بھی ترقی کرسکے۔ ادھر حال ہی میں قائم ہونے والی ایمرسن یونیورسٹی کا ذکر نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی کہ یہاں پر محدود وسائل کے باوجود وائس چانسلر ڈاکٹر نوید چوہدری جس دلجمعی اور محنت کے ساتھ اس یونیورسٹی کا ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے وہ لائق تحسین ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لئے مشعل راہ ہے جس کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ اب اس یونیورسٹی میں داخلے اور تعیناتیاں بھی جلد ہی شروع ہوجائیں گی۔ دوسری طرف وویمن یونیورسٹی ملتان کی وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی بھی تمام تر مشکلات کا حوصلے کے ساتھ مقابلہ کررہی ہیں۔ میری ان سطور کے ذریعے چانسلر پنجاب یونیورسٹی گورنر پنجاب چوہدری سرور کو وقتاً فوقتاً یونیورسٹیوں کے وزٹ کرنے چاہئیں اور وائس چانسلرز سے یونیورسٹیوں کی کارکردگی بارے ایک بریفنگ ضرور لینی چاہیے جس سے بہت سے مسائل سامنے آئیں گے اور ان کے ساتھ ہی حل بھی ڈھونڈے جائیں گےلیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں سے سیاست کو بھی خیرباد کہا جائے تبھی جاکر یونیورسٹیوں میں تعلیم و تحقیق کا ماحول فروغ پائے گاجو پاکستان کی ترقی کا ضامن ہوگا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ