حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم نواز اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی مبینہ آڈیو میں ا ستعمال ہوئے الفاظ پر طوفان برپا ہے۔ حکومتی ترجمان تو آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا ٹرولرز نے بھی میدان گرم کررکھا ہے۔
آڈیو میں جن افراد کے بارے میں نامناسب الفاظ تھے وہ اسے اپنی "حقانیت ” کا ثبوت بناکر پیش کررہے ہیں۔ اس ساری کھیچل میں ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی وہ یہ کہ اس میں ’’غلط‘‘ کیا ہے۔ یہاں ایک سیاسی مذہبی جماعت بتادیجئے جو تنقید کرنے والوں کی آراء کا احترام کرتی ہو۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، میں یہ عرض کررہا ہوں کہ تنقید کرنے والوں کا یہاں احترام کون کرتا ہے؟ پہلے ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ تنقید اور تحقیر میں فرق کیا ہے ثانیاً یہ کہ کیا کسی ایک جماعت کے حق میں بولتے لکھتے وقت تاریخ اور حال کو مسخ کرنا تنقید ہے یا میڈیا منیجری؟
مثال کے طور پر پچھلے کچھ عرصہ سے سابق جہادی صحافی لنگر لنگوٹ کس کر سندھ میں لسانی فسادات کروانے کے لئے آگ بھرے کالم لکھ رہا ہے۔ کیا اس نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کے کجوں پر کچھ تحریر کیا یا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں حکمران جماعت کی شکست کے بعد میئرز اور تحصیل سربراہوں کے اختیارات میں کمی کرکے انہیں کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کے ماتحت کرنے پر آواز بلند کی۔
معاف کیجئے گا سبھی ایسے ہیں۔ یہ غیرجانبداری وغیرہ فضول باتیں ہیں۔
مریم نواز اور پرویز رشید کی گفتگو (آڈیو والی) مناسب ہرگز نہیں مگر کیا پچھلے ساڑھے تین برسوں میں جن صحافیوں اور اینکروں کو روزگار سے محروم کروایا گیا وہ مناسب ’’عمل‘‘ تھا؟ کچھ قصور ہمارے صحافی دوستوں اور جماندرو سینئر تجزیہ نگاروں کا بھی ہے۔
وہ بھی تو اپنے اپنے آقا اور رازق کو خوش کرنے کے لئے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔ حفیظ اللہ نیازی، عمران خان کے قریبی عزیز ہیں دو واسطوں سے ایسے رشتوں میں بندھے ہوئے جو محتاط گفتگو کے متقاضی ہیں لیکن وہ بے رحم تنقید کرکے خوش ہوتے ہیں۔
بار ٹینڈر کے منصب سے اٹھ کر براہ راست سینئر تجزیہ کار بننے والے یا ایک ادارے کی مہربانی سے بذریعہ نیوز ایجنسی صحافت میں قدم رنجہ فرمانے والے سابق جہادی حاضر صحافی آپ ان دونوں کی گفتگو سن لیجئے کالم پڑھ لیجئے، دونوں کے حقیقی پس منظر اور حاضر مقام دنیاوی کو دیکھ لیجئے پھر وہ نسخہ بتادیجئے جو یہ مقام عطا کرتا ہو۔
مریم نواز اور پرویز رشید کی گفتگو سے تحریک انصاف کے حکومتی و جماعتی ترجمانوں اور سوشل میڈیا ٹرولرز کو کیا تکلیف ہے وہ تو خود سارا دن اور رات کا کافی حصہ مخالفین کو ننگی گالیاں دیتے ہیں (ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس دیکھ لیجئے) یقیناً یہ گفتگو نامناسب ہے مخالفین کی آراء کا احترام کیا جانا چاہیے مگر کون کرے؟
سیاسی عمل رہا کہاں ہے کہ روایات مستحکم ہوں، خاندانی وفاداریوں سے بنے ماحول میں دوسرے کا بادشاہ "ننگا” ہوتا ہے اپنا تو سادھوسنت۔
وہ لوگ جو ایجنسیوں کی فراہم کردہ دستاویزات پر تحقیقاتی صحافت کے پھریرے لہراتے کشتوں کے پشتے لگاتے چلے آئے ہیں انہیں بالکل شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔
اس ملک میں کون سا ادارہ پسندوناپسند سے محفوظ ہے کہاں میرٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ سوال اور انگلیاں سبھی کی طرف اٹھی ہوئی ہیں۔ عدم برداشت کا ماحول کس نے بنایا۔
یہاں حاجی ثناء اللہ (رانا ثناء اللہ نہ سمجھ لیجئے گا) کوئی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حالیہ آڈیو سے حکومت مرضی کا مطلب نکال رہی ہے اور متعلقہ میڈیا ہائوسز مرضی کادونوں کے "پائوں تلے بٹیرا” آگیا ہے۔
ایک بار پھر ساعت بھر کے لئے سانس لیجئے، یہ بتایئے کہ جب ایک مخبوط الحواس شخص ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کہے کہ ’’اس ملک میں جو بھی جمہوریت کی بات کرے اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کردیں‘‘۔ ٹی وی انتظامیہ اور پیمرا دونوں دم سادھے رہیں تو پھر جواب کیا ہوگا؟
معاف کیجئے گا کسی سیاسی جماعت، خاندان یا طرز سیاست پر تنقید جرم و کفر نہیں ہے۔ غلط یہ ہے کہ آپ آدھا سچ بولیں یہ آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
عمر چیمہ کی یہ منطق درست نہیں کہ تحائف دینے کی روایت مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے ڈالی تھی۔ مرحوم نواب صاحب سیاست اور صحافت کے ساتھ دوسرے شعبوں میں موجود ذاتی تعلق داروں کو آموں کے موسم میں آموں کی پیٹیاں بھجوایا کرتے تھے۔ موسمی پھل بھجوانا اور "تحفے” بھجوانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔
کیا تحریک انصاف نے اپنے 126دن کے دھرنے اور بعد کے عرصہ میں (ن) لیگ اور دوسری جماعتوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا مہم نہیں چلائی۔
ہاں یہ درست ہے کہ (ن) لیگ اپنے ہمدرد صحافیوں پر ہمیشہ مہربان رہی سفیر بنانا، مشیر بنانا، اداروں کا سربراہ لگانا، دوسری مراعات سے نوازنا، سیاست اصل میں اب لابنگ ہے۔ خاص مہارت سے میڈیا منیجری،
اس کی دو زندہ مثالیں ہیں، تحریک انصاف کے 126دن کے دھرنے کی نان سٹاپ کوریج کو کس نے سپانسر کیا تھا؟
ٹی وی اور اخبارات کے مالکان ہی نہیں اہم عہدوں پر بیٹھے سارے لوگ جانتے ہیں حکم کہاں سے آتا تھا۔
کیا اُس وقت کسی نے کہا کہ اس نان سٹاپ لائیو کوریج پر اداروں کو مجبور کرنے والے مستقبل کے لئے کانٹے بورہے ہیں؟
جناب نوازشریف کی بیماری کی نان سٹاپ لائیو کوریج کیا تھی۔ یہ سپانسرڈ نہیں تھی؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مالکان یا کسی اور کی خوشنودی کے لئے استعمال ہونے والوں کو رونا نہیں چاہیے۔
اس ملک میں کرپشن کیا صرف سیاستدانوں نے کی اور سارے سیاستدان کرپٹ ہیں؟ باقی اداروں میں سب اچھا ہے۔ پھر کیوں صرف سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈے سے ایسا سماں باندھا گیا کہ سیاست برائی کی جڑ ہے۔
یہ برائی تو ان نیک و پارسا اداروں میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے جن پر بات کرنے میں ’’پَر‘‘ جلتے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابی نتائج کے بعد وہ عزت اور ذلت والی ٹیوٹ پر کتنے دوستوں نے سوال اٹھایا کہ ٹیوٹ کرنے والے کو یہ حق یا فرض کیسے مل گیا؟
(ن) لیگ، مریم یا پرویز رشید کی وکالت مقصود نہیں لیکن بٙھد اڑاتے وقت ذرا اپنے اپنے گریبان میں جھانک لیجئے۔
ہاں ایک بات اور یہ مخالفین کے خلاف غلیظ پروپیگنڈے کی بدعت جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوئی تھی (ن) لیگ کو ورثے میں ملی۔ تحریک انصاف کی بنیاد پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی نفرت پر رکھی گئی۔ (ن) لیگ پیپلزپارٹی اور بھٹوز کی نفرت پر بنی یہی تلخ حقیقت ہے۔
صحافی غیر جانبدارا نہیں ہوتے پسندوناپسند ہوتی ہے۔ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ اعتدال کا دامن تھامے رہنا ضروری ہے۔ چلیں یہ بتادیجئے کس نے کہا تھا ’’ہم اپنے خلاف بولنے والوں کی زبانیں کھینچ لیں گے‘‘؟
بلاول بھٹو نے چند دن قبل ایک نامناسب بات کی۔ اب مریم اور پرویز رشید کی نامناسب گفتگو والی آڈیو آگئی لیکن کیا صرف ان دوباتوں کی وجہ سے ان لوگوں کو معاف کردیا جائے گا جو روزگار چھینتے ہیں ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتے ہیں۔ غداری کے فتوے اچھالتے ہیں؟
کیا ہمارے دوستوں (صحافیوں اور اینکرز) میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ سلمان تاثیر والے معاملے میں ہوئی گھٹیا صحافت اور اینکری پر کھلے دل سے معذرت کریں؟
مکرر عرض ہے جب آپ کی زبان اور الفاظ چیخ چیخ کر جانبداری اور میڈیا منیجری کا پردہ فاش کررہے ہوں تو پھر رونا دھونا بیکار ہے۔
نرم سے نرم الفاظ میں یوں کہ ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی تو بات کی ہے‘‘۔
آڈیو میں جن افراد کے بارے میں نامناسب الفاظ تھے وہ اسے اپنی "حقانیت ” کا ثبوت بناکر پیش کررہے ہیں۔ اس ساری کھیچل میں ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی وہ یہ کہ اس میں ’’غلط‘‘ کیا ہے۔ یہاں ایک سیاسی مذہبی جماعت بتادیجئے جو تنقید کرنے والوں کی آراء کا احترام کرتی ہو۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، میں یہ عرض کررہا ہوں کہ تنقید کرنے والوں کا یہاں احترام کون کرتا ہے؟ پہلے ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ تنقید اور تحقیر میں فرق کیا ہے ثانیاً یہ کہ کیا کسی ایک جماعت کے حق میں بولتے لکھتے وقت تاریخ اور حال کو مسخ کرنا تنقید ہے یا میڈیا منیجری؟
مثال کے طور پر پچھلے کچھ عرصہ سے سابق جہادی صحافی لنگر لنگوٹ کس کر سندھ میں لسانی فسادات کروانے کے لئے آگ بھرے کالم لکھ رہا ہے۔ کیا اس نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کے کجوں پر کچھ تحریر کیا یا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں حکمران جماعت کی شکست کے بعد میئرز اور تحصیل سربراہوں کے اختیارات میں کمی کرکے انہیں کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کے ماتحت کرنے پر آواز بلند کی۔
معاف کیجئے گا سبھی ایسے ہیں۔ یہ غیرجانبداری وغیرہ فضول باتیں ہیں۔
مریم نواز اور پرویز رشید کی گفتگو (آڈیو والی) مناسب ہرگز نہیں مگر کیا پچھلے ساڑھے تین برسوں میں جن صحافیوں اور اینکروں کو روزگار سے محروم کروایا گیا وہ مناسب ’’عمل‘‘ تھا؟ کچھ قصور ہمارے صحافی دوستوں اور جماندرو سینئر تجزیہ نگاروں کا بھی ہے۔
وہ بھی تو اپنے اپنے آقا اور رازق کو خوش کرنے کے لئے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔ حفیظ اللہ نیازی، عمران خان کے قریبی عزیز ہیں دو واسطوں سے ایسے رشتوں میں بندھے ہوئے جو محتاط گفتگو کے متقاضی ہیں لیکن وہ بے رحم تنقید کرکے خوش ہوتے ہیں۔
بار ٹینڈر کے منصب سے اٹھ کر براہ راست سینئر تجزیہ کار بننے والے یا ایک ادارے کی مہربانی سے بذریعہ نیوز ایجنسی صحافت میں قدم رنجہ فرمانے والے سابق جہادی حاضر صحافی آپ ان دونوں کی گفتگو سن لیجئے کالم پڑھ لیجئے، دونوں کے حقیقی پس منظر اور حاضر مقام دنیاوی کو دیکھ لیجئے پھر وہ نسخہ بتادیجئے جو یہ مقام عطا کرتا ہو۔
مریم نواز اور پرویز رشید کی گفتگو سے تحریک انصاف کے حکومتی و جماعتی ترجمانوں اور سوشل میڈیا ٹرولرز کو کیا تکلیف ہے وہ تو خود سارا دن اور رات کا کافی حصہ مخالفین کو ننگی گالیاں دیتے ہیں (ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس دیکھ لیجئے) یقیناً یہ گفتگو نامناسب ہے مخالفین کی آراء کا احترام کیا جانا چاہیے مگر کون کرے؟
سیاسی عمل رہا کہاں ہے کہ روایات مستحکم ہوں، خاندانی وفاداریوں سے بنے ماحول میں دوسرے کا بادشاہ "ننگا” ہوتا ہے اپنا تو سادھوسنت۔
وہ لوگ جو ایجنسیوں کی فراہم کردہ دستاویزات پر تحقیقاتی صحافت کے پھریرے لہراتے کشتوں کے پشتے لگاتے چلے آئے ہیں انہیں بالکل شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔
اس ملک میں کون سا ادارہ پسندوناپسند سے محفوظ ہے کہاں میرٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ سوال اور انگلیاں سبھی کی طرف اٹھی ہوئی ہیں۔ عدم برداشت کا ماحول کس نے بنایا۔
یہاں حاجی ثناء اللہ (رانا ثناء اللہ نہ سمجھ لیجئے گا) کوئی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حالیہ آڈیو سے حکومت مرضی کا مطلب نکال رہی ہے اور متعلقہ میڈیا ہائوسز مرضی کادونوں کے "پائوں تلے بٹیرا” آگیا ہے۔
ایک بار پھر ساعت بھر کے لئے سانس لیجئے، یہ بتایئے کہ جب ایک مخبوط الحواس شخص ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کہے کہ ’’اس ملک میں جو بھی جمہوریت کی بات کرے اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کردیں‘‘۔ ٹی وی انتظامیہ اور پیمرا دونوں دم سادھے رہیں تو پھر جواب کیا ہوگا؟
معاف کیجئے گا کسی سیاسی جماعت، خاندان یا طرز سیاست پر تنقید جرم و کفر نہیں ہے۔ غلط یہ ہے کہ آپ آدھا سچ بولیں یہ آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
عمر چیمہ کی یہ منطق درست نہیں کہ تحائف دینے کی روایت مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے ڈالی تھی۔ مرحوم نواب صاحب سیاست اور صحافت کے ساتھ دوسرے شعبوں میں موجود ذاتی تعلق داروں کو آموں کے موسم میں آموں کی پیٹیاں بھجوایا کرتے تھے۔ موسمی پھل بھجوانا اور "تحفے” بھجوانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔
کیا تحریک انصاف نے اپنے 126دن کے دھرنے اور بعد کے عرصہ میں (ن) لیگ اور دوسری جماعتوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا مہم نہیں چلائی۔
ہاں یہ درست ہے کہ (ن) لیگ اپنے ہمدرد صحافیوں پر ہمیشہ مہربان رہی سفیر بنانا، مشیر بنانا، اداروں کا سربراہ لگانا، دوسری مراعات سے نوازنا، سیاست اصل میں اب لابنگ ہے۔ خاص مہارت سے میڈیا منیجری،
اس کی دو زندہ مثالیں ہیں، تحریک انصاف کے 126دن کے دھرنے کی نان سٹاپ کوریج کو کس نے سپانسر کیا تھا؟
ٹی وی اور اخبارات کے مالکان ہی نہیں اہم عہدوں پر بیٹھے سارے لوگ جانتے ہیں حکم کہاں سے آتا تھا۔
کیا اُس وقت کسی نے کہا کہ اس نان سٹاپ لائیو کوریج پر اداروں کو مجبور کرنے والے مستقبل کے لئے کانٹے بورہے ہیں؟
جناب نوازشریف کی بیماری کی نان سٹاپ لائیو کوریج کیا تھی۔ یہ سپانسرڈ نہیں تھی؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مالکان یا کسی اور کی خوشنودی کے لئے استعمال ہونے والوں کو رونا نہیں چاہیے۔
اس ملک میں کرپشن کیا صرف سیاستدانوں نے کی اور سارے سیاستدان کرپٹ ہیں؟ باقی اداروں میں سب اچھا ہے۔ پھر کیوں صرف سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈے سے ایسا سماں باندھا گیا کہ سیاست برائی کی جڑ ہے۔
یہ برائی تو ان نیک و پارسا اداروں میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے جن پر بات کرنے میں ’’پَر‘‘ جلتے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابی نتائج کے بعد وہ عزت اور ذلت والی ٹیوٹ پر کتنے دوستوں نے سوال اٹھایا کہ ٹیوٹ کرنے والے کو یہ حق یا فرض کیسے مل گیا؟
(ن) لیگ، مریم یا پرویز رشید کی وکالت مقصود نہیں لیکن بٙھد اڑاتے وقت ذرا اپنے اپنے گریبان میں جھانک لیجئے۔
ہاں ایک بات اور یہ مخالفین کے خلاف غلیظ پروپیگنڈے کی بدعت جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوئی تھی (ن) لیگ کو ورثے میں ملی۔ تحریک انصاف کی بنیاد پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی نفرت پر رکھی گئی۔ (ن) لیگ پیپلزپارٹی اور بھٹوز کی نفرت پر بنی یہی تلخ حقیقت ہے۔
صحافی غیر جانبدارا نہیں ہوتے پسندوناپسند ہوتی ہے۔ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ اعتدال کا دامن تھامے رہنا ضروری ہے۔ چلیں یہ بتادیجئے کس نے کہا تھا ’’ہم اپنے خلاف بولنے والوں کی زبانیں کھینچ لیں گے‘‘؟
بلاول بھٹو نے چند دن قبل ایک نامناسب بات کی۔ اب مریم اور پرویز رشید کی نامناسب گفتگو والی آڈیو آگئی لیکن کیا صرف ان دوباتوں کی وجہ سے ان لوگوں کو معاف کردیا جائے گا جو روزگار چھینتے ہیں ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتے ہیں۔ غداری کے فتوے اچھالتے ہیں؟
کیا ہمارے دوستوں (صحافیوں اور اینکرز) میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ سلمان تاثیر والے معاملے میں ہوئی گھٹیا صحافت اور اینکری پر کھلے دل سے معذرت کریں؟
مکرر عرض ہے جب آپ کی زبان اور الفاظ چیخ چیخ کر جانبداری اور میڈیا منیجری کا پردہ فاش کررہے ہوں تو پھر رونا دھونا بیکار ہے۔
نرم سے نرم الفاظ میں یوں کہ ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی تو بات کی ہے‘‘۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ