جویریہ اسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بابا سعودیہ شفٹ ہوے تھے تو میں لگ بھگ ڈیڑھ سال کی تھی یعنی ان بچوں میں جو عمرے کے دوران اپنے بابا کے کندھے پر یا پھر اپنی اماں کی آغوش میں ہوتے ہیں۔ بابا اپنی پدرانہ شفقت میں اب بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اللہ نے بلایا ہی انہی یعنی بچوں کے طفیل ہے۔ مگر جب میں چھوٹی تھی تو سارا کریڈٹ مجھے دیتے تھے۔ خیر یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میرا شمار بھی ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے ننھے ننھے قدموں سے اللہ کے گھر کا بارہا طواف کا شرف حاصل کیا- میں نے وہاں بابا، مما بلکہ کئی لوگوں کو روتے دیکھا، مما جب مجھے دیکھتیں تو آنسو پونچھ کر تھوڑا سنبھل جاتی مگر آنکھوں کی سرخی اور چہرے کی اداسی بہرحال موجود رہا کرتی تھی۔ میں جب تھوڑی بڑی ہوئی تو سوال کیا کرتی تھی کہ مما لوگ یہاں آکر روتے کیوں ہیں؟ ان کو تو خوش ہونا چاہیے کہ برسوں سے حاضری کی جو دعا وہ مانگا کرتے تھے وہ قبول ہو گئی تو وہ جواب دیتیں کہ ہم یہاں رو کر اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں تو میرے ذہن میں اگلا سوال یہ آتا کہ نہ جانے مما نے کونسے گناہ کئے ہیں کہ معاف ہی نہیں ہورہے کہ ہر بار آکر روے چلے جاتی ہیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ سوال میں ان سے کبھی پوچھ نہیں پائی اور یہ سوال ان سوالوں میں سے تھا جس کا جواب تھوڑا بڑے ہو کر ہمیں خود بخود ہی مل جاتا ہے۔
میں نے اپنی بہن کی پینسل اس سے پوچھے بغیر لے لی، وہ غصے میں آکر مجھ سے وہ پینسل چھیننے لگی تو میں نے اسے ایک تھپڑ لگا دیا، وہ روتے روتے مما کے پاس چلی گئی اور میری شکایت لگانے لگی۔ ہم جب مکہ جانے کیلئے تیار ہو رہے ہوتے ہیں تو مما ہمیں آہستہ آہستہ سمجھانے لگتی ہیں کہ اپنے اپنے رانگ ڈیڈز wrong deeds کی فہرست بنا لو تاکہ ان کی معافی مانگ کر اپنے اعمال نامے کو پھر سے بہتر کر سکو اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جنتی محل کے حقدار بن سکو، میں نے اپنی لسٹ میں اپنی بہن کی پینسل والا معاملہ رکھا اور مما سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگی کہ یہ مسئلہ شاید حرم شریف میں حل نہ ہو پائے کہ وہاں حقوق اللہ کی بابت معاملات نمٹائے جاتے ہیں، حقوق العباد تو وہاں جانے سے پہلے پورے کرنے ہوتے ہیں۔
مجھے یہ بات تھوڑی مشکل لگی کہ بھئی یہ کیا بات ہوئی کہ اب میں اپنی چھوٹی بہن سے معافی بھی مانگوں اور اس کو ویسی ہی نئی پینسل بھی لے کر دوں، اس طرح تو میری ناک کٹ جائے گی۔ حرم شریف میں جاکر اللہ پاک سے معافی مانگنا تو بہت آسان ہے، نہ وہ مجھے نظر آتے ہیں اور نہ جو بات میں ان سے کروں وہ کسی اور کو پتہ چلتی ہے۔ معاملہ کافی گھمبیر تھا میرے لیے، میں نے سوچا کہ مما سے ہی بات کرتی ہوں۔ میں نے اعتراف کر لیا کہ مما یہ میری انا کا مسئلہ ہے تو آسان نہیں ہے چھوٹی بہن سے معافی مانگنا، ہاں البتہ میں اپنی نئی پینسل اسے دے دوں گی۔ مما کچھ دیر سوچنے کے بعد بولیں :
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کا وقت آیا تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے گروہِ مسلمین! میں تمہیں اللہ کی قسم اور تم پر اپنےحق کا واسِطہ دے کر کہتا ہوں: میری طرف سے کسی پر کوئی ظلم ہو گیا ہو تو کھڑا ہو جائے اور قِیامت میں بدلہ لینے کے بجائے مجھ سے یہیں بدلہ لے لے۔ ایک بھی کھڑا نہ ہوا، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوبارہ یہی قسم دی پھر بھی کوئی کھڑا نہ ہوا توتیسری بار قسم دیتے ہوئےاس بات کو دہرایا کہ میری طرف سے کسی پر کوئی ظلم ہوگیا ہو تو کھڑا ہوجائے اور قِیامت میں بدلہ لینے کے بجائے مجھ سے یہیں بدلہ لے لے۔ چنانچہ عُکَاشَہ نامی ایک ضعیفُ العُمرصَحابی کھڑے ہوئے اور لوگوں کو ہٹاتے ہوئے آقا کریم علیہ السَّلام کے سامنے جا پہنچے اور عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ نے باربار قسم نہ دی ہوتی تو میری مجال ہی نہیں تھی کہ میں کسی چیز کے بدلے کے لئے آپ کے سامنےآتا۔ میں آپ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا اس میں اللہ کریم نے اپنے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدد کی اور ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جب ہم واپس آرہے تھے تو میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے برابر آگئی، میں اپنی اونٹنی سے اُتر کر آپ کے قریب ہوا تاکہ آپ کےقدم مُبارَک پر بوسہ دوں، مگر آپ نےچھڑی بُلند کی اور میرے پہلو پر ماری، میں نہیں جانتا کہ آپ نے ایسا جان بوجھ کر کیا یا آپ کا ارادہ اونٹنی کو مارنے کا تھا؟
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اللہ پاک کے جلال سے پناہ میں لیتا ہوں کہ اللہ کا رسول تمہیں جان بوجھ کر مارے، پھر فرمایا: اے بلال! فاطمہ کے گھر جاؤ اور وہی پتلی چھڑی لے آؤ۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے ہاتھ سر پر رکھے مسجِد سے نکلے اور یہ کہتے جاتے:یہ اللہ کے رسول ہیں جو خود اپنا قصاص دے رہے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا: اے رسولُُ اللہ کی صاحبزادی! مجھے وہ پتلی چھڑی دے دیجئے۔ شہزادیِ کونین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا: بلال! نہ ہی آج یومِ عرفہ ہے اور نہ ہی کوئی غزوہ! پھر میرے باباجان چھڑی کا کیا کریں گے؟عرض کی: کیا آپ کو معلوم نہیں آج آپ کے باباجان کیاکر رہے رہیں! بے شک حُضُور نبیِّ رَحْمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دین پہنچا دیا ہے، دنیا کو چھوڑ رہے ہیں اور آج اپنی طرف سے بدلہ دے رہے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بےقرار ہو کر فرمایا: اے بلال! آخِر ایسا کون ہے جس نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بدلہ لینا گوارا کر لیا؟ اے بلال! اگر یہ بات ہے تو حسن اور حسین کو کہو اس شخص کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور وہ ان سے بدلہ لے لے۔
حضرتِ بلال مسجِد پہنچے اور وہ چھڑی حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پیش کر دی، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بلال سے لے کر عُکَاشَہ کے حوالے کر دی، یہ دیکھ کر حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور کہا: اے عُکَاشَہ! لَو ہم تمہارے سامنے ہیں جو بدلہ لینا ہے ہم سے لے لو مگر پیارے آقاسے بدلہ نہ لو۔ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! ہٹ جاؤ، اے عُمَر! تم بھی ہٹ جاؤ یقیناً اللہ پاک تم دونوں کے مقام ومرتبے کو خوب جانتا ہے۔ اتنے میں حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے عکاشہ! میرے سامنے میری زندَگی میں تم کریم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ چھڑی مارو مجھے یہ ہرگز برداشت نہیں، یہ رہی میری پیٹھ اور یہ رہا میرا پیٹ اپنے ہاتھ سے مجھے سو کوڑے مارلو اور مجھ سے انتِقام لے لو لیکن پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بدلہ نہ لینا،حُضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اےعلی! اپنی جگہ بیٹھ جاؤ بے شک اللہ کریم تمہارے مرتبے اور نیّت کو خوب جانتا ہے۔
اتنے میں نوجوانانِ جنّت کے سردار، فاطمہ زہرا کے گلشن کے پھول حضرتِ سیِّدُناامام حسن و امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہما کھڑے ہوئے اور کہا: عکاشہ!کیاآپ نہیں جانتے ہم رسول ُاللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےنواسے ہیں اورہم سے بدلہ لینا گویا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سےبدلہ لینا ہےلہٰذا آپ ہم سےبدلہ لے لیں۔ پیارےآقاصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا: اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! بیٹھ جاؤ بے شک اللہ پاک تمہارے مقام کو خوب جانتا ہے۔ پھر عکاشہ سے فرمایا: اے عکاشہ! اگر تم چھڑی مارنا چاہتے ہو تو مارو۔حضرتِ عکاشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی: جس وقت آپ نے مجھے مارا تھا اس وقت میرے پیٹ پر کپڑا نہیں تھا۔چنانچِہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے مُبارَک پیٹ سے کپڑا ہٹا دیا، یہ دیکھ کر مسلمانوں کی چیخیں نکل گئیں اور کہنے لگے: عکاشہ کو دیکھتے ہو یہ رسول ُاللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مُبارَک پیٹ پر چھڑی مارے گا؟ جب حضرتِ عکاشہ نے مبارک پیٹ کی سفیدی کو دیکھا تو فوراً حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے چمٹ گئے اور پیٹ مبارک کا بوسہ لیتے ہوئے عرض گزار ہوئے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! بھلا کون ہے جو آپ سے بدلہ لینے کا سوچ سکے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چاہو تو بدلہ لے لو ، چاہو تو معاف کردو۔ حضرتِ سیِّدُنا عکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نےعرض کی: میں نےآپ کومعاف کیا یہ اُمّید کرتے ہوئے کہ اللہ کریم بَروزِقِیامت مجھےمعاف فرمائےگا۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشادفرمایا:جوشخص میرے جنّت کے رفیق کو دیکھنا چاہے وہ اس بوڑھے کو دیکھ لے۔ لوگ کھڑے ہوئے اور حضرتِ سیِّدُنا عکاشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پیشانی چوم کر یہ کہتے جاتے: تمہیں مبُارَک ہو! تمہیں مبارک ہو! تم توبُلند دَرَجات اورحضورنبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہم نشینی کے شرف کوپہنچ گئے۔(حلیۃ الاولیاء,،ج4،ص67)
مما نے جب یہ واقعہ سنایا تو میں اپنی بہن سے معافی مانگنے اور وہ مجھے تھپڑ مار کر بدلہ لینے کی بجائے مجھے معاف کرنے کیلئے راضی ہو گئی، ہاں مگر میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ لوگ حرم شریف میں جا کر کیوں روتے ہیں کہ جب ہم سے کچھ غلط ہو جاتا ہے، پھر ہم اس کی تلافی بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس شخص سے معافی بھی مانگ لیتے ہیں، تو اس سب میں وہ تکلیف جو ہم نے کسی کو پہچائ ہوتی ہے وہ ہوا میں کہیں معلق کھڑی ہوتی ہے، بس اسی کو تحلیل کرنے کیلئے ہم حرم شریف میں رب کے حضور اشکبار ہوتے ہیں کہ اس کے دربار میں پریشان اور اشکبار چہرے مقبولیت کی منازل اپنی اپنی نیت کے مطابق طے کرتے چلے جاتے ہیں-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر