انور خان سیٹھاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈکٹیٹروں اور انکی پیداواروں کا پرانا وطیرہ ہے کہ خود کا پھیلایا ہوا گند ہونے والی ملکی تباہی بیچے گئے ملکی اثاثوں اور توڑے گئے ملک کے موجب الزام دوسروں بالخصوص پیپلزپارٹی کو ٹھہراتے ہیں اور اس گھناونے اور مکروہ دھندے اور سازشی سسٹم میں میڈیا اور اسٹیبلشمنٹی پیداواریں (نام نہاد سیاسی جماعتیں) ہی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار بنیں اور یہی قوتیں آج بھی وہی روایتی کردار ادا کررہی ہیں۔
نیازی کو لاد کر لانے کے بعد جس طرح ملکی تباہی ہوئی اس سے گزشتہ تمام ڈکٹیٹروں اور انکی پیداواروں کے ادوار کی تاریخیں شرمندہ ہو گئیں مہنگائی بیروزگاری لاقانونیت مافیا راج بیتہاشہ کرپشن سیاسی عدم استحکام امن و امان کی بدترین صورتحال قومی سلامتی کو درپیش خطرات عالمی تنہائی دوست ممالک سے دوریاں دہشت گردوں کو این آر او دینے کے حیلے بہانے نوجوانوں میں عدم برداشت کو پروان چڑھایا گیا نوجوانوں کو بداخلاقی کی درسگاہ بنایا گیا یہ سب سلیکٹرز کے لاڈلے نیازی کی کارستانیاں ہیں جو کہ ایک پری پلان کی گئیں پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کیلئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ آلہ کار بنی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ نے نیازی کو بیس سال پاکستان سے باہر اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بیس سال پاکستان کے اندر پال پوس کر پروان چڑھایا اور بالآخر اپنے مذموم مقاصد و اہداف حاصل کرنے کیلئے اقتدار میں لایا گیا۔
آج نیازی کو پاور میں لائے ہوئے ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن میڈیا کو پہلے دن سے یہی احکامات ہیں کہ مثبت رپورٹنگ ہی کرنی ہے کوا کالا ہو یا سفید قوم کو ویسے دکھانا ہے جو سلیکٹرز چاہیں گے عدلیہ کو حکم دیا گیا کہ کیس وہی سننے ہیں جس میں نیازی صادق و امین اور ملک ترقی کرتا نظر آئے ججز وہی لائے جائیں جو سلیکٹرز کے احکامات پر دل و جان سے اور باادب طریقے سے فیصلے دیں المختصر سارے کے سارے سسٹم سیٹ کرکے نیازی کو لایا گیا اور مکمل سپورٹ دی گئی لیکن نیازی وہی ثابت ہوا جسکا انکشاف صدر زرداری الیکشن 2018 سے پہلے کئی بار کر چکے تھے کہ ملک چلانا ان نااہلوں کے بس کی بات نہیں۔
آج تمام بحرانوں کو بالائے طاق رکھ کر تمام مسائل کو اجاگر کرنے اور ملک کو لاحق شدید خطرات سے آنکھیں چرا کر اسٹیبلشمنٹ روایتی انداز میں نیازی کے پھیلائے گئے گند کا ملبہ پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت پر ڈالنے کیلئے عدلیہ کا سہارا میڈیا کی خدمات جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم جیسے دہشت گرد ونگز کے ذریعے کراچی کے معاملات کو ایشو بنا کر اور سندھ فتح کرنے کے خواب کو لیکر میدان میں ہے پیپلزپارٹی کا میڈیا ٹرائل کوئی نئی بات نہیں اسٹیبلشمنٹ اور انکی پیداواریں اپنی نااہل چھپانے کیلئے سارے سسٹم کا رخ پیپلزپارٹی کی طرف موڑ دیتے ہیں اور اب بھی وہی ہورہا ہے سندھ حکومت کے بنائے گئے بلدیاتی قوانین کو ایشو بنا کر طوفان بدتمیزی برپا ہے۔
اگر یہاں دیگر صوبوں کا ذکر کریں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہی جاری کردہ پورٹ کے مطابق سال 2021 کے چھے ماہ میں صرف سینٹرل پنجاب کے اندر (جہاں ہر آنے والی سلیکٹڈ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے انبار لگائے پورے پاکستان کے بجٹ کاٹ کاٹ کر اور ہڑپ کرکے لاہور و گردونواح میں لگائے جہاں تعلیمی نظام اتنا مضبوط کیا گیا کہ پورے پاکستان میں سینٹرل پنجاب کے ہی افسران بھجے جاتے ہیں جہاں وہ عوامی خدمات انجام دینے کی بجائے مالکوں کی وفاداری کرتے ہیں) سات ہزار کے قریب خواتین کے اغواء زیادتی اور قتل ہونے کے کیسز رپورٹ ہوئے لیکن مین سٹریم میڈیا نے صرف ایک عدد بریکنگ نیوز یا ایک عدد ہیڈلائن دینے تک بھی جرآت نہیں کی۔
قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا ایک کیس اوپن ہوا جو زینب کی شکل میں ابھرا باقی ہزاروں کیسز میڈیا کو رپورٹ کرنے کیلئے حکم امتناع جاری کیا گیا اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور میڈیا ایمانداری سے صرف قصور میں ہونے والے واقعات رپورٹ کرے تو سینکڑوں ماہانہ کیسز رپورٹ ہونگے دوسرے الفاظوں میں بچوں سے ذیادتی کرنے والے جنسی درندوں کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے سپورٹ کررہے ہیں۔
اگر وسیب کی بات کی جائے تو وسیب میں قتل و غارتگری کے سینکڑوں کیس روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں امن اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں وسیب میں بوسن گینگ ہو لادی گینگ ہو انڑ گینگ یا چاہے چھوٹو گینگ انہیں سپورٹ ادارے کرتے ہیں کیونکہ جب بھی ناخوشگوار واقعات سوشل میڈیا کے ذریعے مین سٹریم میڈیا پر آئے اور انکی انکوائریاں کی گئیں تو انکی رپورٹس آج تک منظر عام پر نہ لائیں گئیں اور پاکستان میں یہی اکثر و بیشتر دیکھا گیا چاہے سقوط ڈھاکہ پر بننے والے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ ہو چاہے سانحہ یکم مئی ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ ہو یا چاہے کوئی بھی ایسی رپورٹس جس میں ادارے ملوث ہوں منظر عام پر نہیں لائیں جاتیں اور اسی تناظر میں وسیب کے پرتشدد ونگز پر بننے والے کمیشن کمیٹیاں اور جے آئی ٹیز کی رپورٹ پبلک نہیں کی جاتیں لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی ادارہ جرآت کرکے اس پر بات کرے یا میڈیا حقائق قوم تک پہنچائے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پنجاب سے بھی بدترین صورتحال ہے لیکن کوئی نوٹس لینے والا نہیں کوئی بات کرنے والا نہیں اور ان صوبوں میں نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ایک طویل وقت اور ایک اعلیٰ ظرف اور بااختیار قیادت کی ضرورت ہے جو کہ انکے حقوق دیں اور متنفر رویے دفن کرائیں ورنہ سلیکٹرز تو چاہتے یہی ہیں کہ پاکستان میں روزانہ سقوط ڈھاکہ جیسے حادثے ہوتے رہیں اور انکی ڈالرز کے عوض دکانداری چلتی رہے۔
سندھ حکومت لاتعداد مسائل کا مقابلہ مختصر وسائل کے ساتھ کررہی ہے صحت کے شعبے میں سندھ حکومت کا شاہکار این آئی سی وی ڈی قوم کے سامنے ہے ڈبلیو ایچ او بھی جس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتا اور چاروں صوبوں سمیت گلگت و کشمیر کے عوام تعریفوں کے پل باندھے ہوئے ہیں روزگار کے حوالے سے حال ہی میں ایشیائی ترقیاتی بینک سندھ کے حوالے سے رپورٹ شائع کر چکی ہے کھیل کے حوالے سے چاہے پی ایس ایل کی دبئی میں پریشانیاں ہوں یا پاکستان میں سندھ حکومت نے کلیدی کردار ادا کیا انٹرنیشنل کرکٹ ٹیموں کی پاکستان آمد ہو یا انڈر 19 کے معاملات وفاقی حکومت کے کام سندھ حکومت نے کیئے جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ سندھ کا شکریہ ادا کرتا رہتا ہے المختصر سندھ حکومت ہر شعبے میں خدمات انجام دینے میں سب سے پہلے اور سب سے آگے ہے۔
کراچی کے میئر رہے ہی جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ہیں کراچی کو نو گو ایریا بھی انہوں نے بنائے رکھا ایم کیو ایم ہر جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کا حصہ رہی اہم عہدوں اور اہم وفاقی و صوبائی وزارتوں پر براجمان رہی کراچی کے کمانڈر اور ڈی جی انکے مرحون منت ہوتے تھے ایم کیو ایم اور جماعتیوں نے کراچی کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنایا روزانہ سینکڑوں بوری بند لاشیں ملتی تھیں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے لسانیت سے بالاتر ہو کر کراچی کی خدمت کی اور کررہی ہے دہشت گردی میں ڈوبے کراچی کو امن کا گہوارہ بنایا کراچی کی روشنیاں بحال کیں کراچی کے مسائل کو اپنے محدود وسائل سے حل کیا موجودہ ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب رات دن کراچی کے محب وطن شہریوں کی خدمت میں مصروف ہیں اور یہی غیر جمہوری قوتوں کو کراچی کے دشمنوں کو کراچی کی ترقی کراچی کا امن کراچی کی خوشحالی برداشت نہیں ہورہی بلدیاتی قوانین کو کالا قانون کہنے والے در حقیقت دل کے کالے اور کراچی کے عوام انکے منہ کالے بھی کر چکی یہ دہشت گرد اور کراچی دشمن عناصر اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے اور سازش کا حصہ بنتے ہوئے بغض پیپلزپارٹی میں اپنے بلوں سے باہر نکل آئے ہیں۔
زرداری صاحب کا اعلان کہ ہم لاہور و اسلام آباد میں بیٹھ رہے ہیں انکی بنیادی جڑیں ہلا گیا کہ جس طرح پیپلزپارٹی نے کشمیر و گلگت کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ اور اسکی باقیات کی نیدیں حرام کیں اور پاکستان بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں انہیں حواس باختہ کیا اب آئندہ عام انتخابات میں بھی اسی جوش و جذبے اور حکمت عملی کے ساتھ غیر جمہوری قوتوں سے روایتی انداز میں نمٹا جائے گا اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پیپلزپارٹی کے تمام مخالفین نے سندھ حکومت کے بنائے گئے بلدیاتی قوانین کو لیکر شور شرابہ شروع کر دیا اور یہ انکا بلوں سے باہر نکلنا بہت بڑا میسج ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے کس طرح انکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔
سلیکٹرز جو مرضی کریں پیپلزپارٹی انہیں NRO دینے والی نہیں نیازی کو لانے سے جو تباہی ہوئی اسکا حساب ہوگا بلدیاتی قوانین بارے شور شرابہ کرنے والوں کو کراچی کی غیور عوام مسترد کر چکے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کراچی میں کلین سوئپ کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
مسائل کا حل صرف پیپلزپارٹی ۔۔۔انور خان سیٹھاری
پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید
پاکستان کی تباہی میں عدلیہ کا کردار ۔۔۔انور خان سیٹھاری
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ