مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماہی گیر کا بیٹا لیڈر||شاہد رند

مولانا ہدایت الرحمان اگر اپنے کارڈز پر عوام کے مطالبات کی سیاست پر کھڑے رہے تو بلوچستان اور مکران کی سیاست میں بہت کچھ بدل سکتے ہیں اسکے لئے انہیں اپنے لائحہ عمل پر غور کرنا ہوگا۔

شاہدرند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عوام کسی ایسے انسان کو تلاش کرتے ہیں جوعوام کی آواز کو ارباب اختیار کے سامنے بغیر لگی لپٹی پیش کرتا ہے تو اس شخص کو عوام لیڈر بنادیتی ہے۔ میری دانست میں مولانا ہدایت الرحمان وائس آف وائس لیس بن چکے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مولانا کو اپنی سیاست میں لچک پیدا کرنی ہوگی کیونکہ سیاست میں معاملات کو چلانے کیلئے کچھ لچک دکھانی ہوتی ہے۔ احتجاج کے اسباب پر بات نہ کی جائے تو ناانصافی ہوگی۔ گزشتہ تین دھائیوں سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کو دبئی اور سنگاپور بنانے کے خواب بلوچستان اور پاکستان کے عوام کو دکھائے جارہے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو کوڑا دان کی نظر کرتے ہوئے اپنی نئی پالیسی کیساتھ آگے چلنے کا فیصلہ کیا۔ جس وقت گوادر پورٹ کے قیام کا فیصلہ ہوا اس سے قبل اس شہر گوادر کے قریب مقامی افراد کو بسانے کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ اگر موجودہ شہر کو باہر کہیں بسایا جاتا اور پورٹ کے ارد گرد کے علاقے کو کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تو اس سے پورٹ کی سکیورٹی اور آپریشنز میں نہ مقامی افراد کو مسئلہ ہوتا نہ پورٹ کے کام میں خلل پڑتا۔ یہاں تک کہ گوادر کے مکینوںکے واحد زریعہ معاش ماہی گیری کی سہولیات پر بھی کام نہیں کیا گیا۔گوادر پورٹ تو مکمل ہوگئی لیکن ماہی گیروں کیلئے گوادر ہاربر کے متبادل کوئی جیٹی آج تک تعمیر نہیں ہوئی۔ دو متبادل جیٹیوں کا کام آج بھی جاری ہے نہ جانے یہ کب مکمل ہو۔ماہی گیروں کو دو مختلف مقامات یعنی سربندر اور پیشکان منتقل کیا جائے۔ موجودہ ہاربر مستقبل میں پورٹ کا حصہ ہوگی گوادر کے ساحل پر آباد ماہی گیر بہت بڑے پیمانے پر ماہی گیری نہیں کرتے یہ چھوٹے ماہی گیر کہلاتے ہیں۔ جو یا تو صبح شکار پر جاتے ہیں تو شام کو لوٹ آتے ہیں کیونکہ آج سے دو دھائیاں قبل گوادر میں نہ تو کوئی فش پراسیسنگ پلانٹ تھا نہ گوادر پورٹ موجود تھی کہ وہ بڑے پیمانے پر ماہی گیری کرتے۔ انکے شکار کا علاقہ ساحل کے قریب ہوتا تھا ان دو دھائیوں میں بلوچستان کے محکمہ فشریز نے سب سے پہلے ان ماہی گیروں کا استحصال شروع کیا جب رشوت لیکر بڑے فشنگ ٹرالرز کو بارہ ناٹیکل میل کے اندر جاکر شکار کی اجازت دینا شروع کی ابتداء میں ماہی گیر خاموش رہے لیکن فشنگ ٹرالرز نے ماہی گیروں کی شکار کی جگہ پر غیر ممنوعہ جالوں سے گزشتہ دو دھائیوں میں سمندر میں موجود مچھلیوں کی بریڈنگ گرائونڈ کو تہہ و بالا کردیا۔ جس کے نتیجے میں ماہی گیروں کا کاروبار تباہ ہوا آج سے تقریباً آٹھ سال قبل راقم کو گوادر ہاربر کے دورے میں انکشاف ہوا تھا کہ اگر اس وقت ہاربر پر ایک سو کشتیاں موجود ہیں تو ان میں پینتیس سے چالیس کشتیاں ماہی گیری کے کام سے منسلک ہیں دیگر کشتیاں ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ کررہی ہیں۔ چونکہ محکمہ فشریز کے افسران سے لیکر زرغون روڈ پر بیٹھے ایوان اقتدار کے وزراء کو ساٹھ کروڑ بھتہ فشنگ ٹرالرز سے مل رہا تھا ۔ اس ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ کے تانے بانے بھی گوادر ضلعی انتظامیہ سے لیکر پھر زرغون روڈ پر موجود ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں تک ملتے تھے۔ کسی نے کیا نوٹس لینا تھا۔ کسی کو ماہی گیروں کی کیا پرواہ تھی۔ اسہی اثناء میں پورٹ کی تعمیر اور تکمیل بھی ہورہی تھی ابتداء میں کوئی بھونچال نہیں آیا لیکن جب چین نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے پائلٹ پراجیکٹ سی پیک کا اعلان کیا تو پھر صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی اس وقت بلوچستان میں ایک قوم پرست حکومت قائم تھی حیران کن طور پر اس حکومت نے یا تو سی پیک میں دلچسپی نہیں لی یا اپنی مرکزی حکومت کی اتحادی ن لیگ کو خوش کرنے کیلئے گوادر سمیت بلوچستان کیلئے سی پیک کے پہلے مرحلے میں ایک پاور پراجیکٹ کے علاوہ کچھ نہیں لیا۔ لاہور میں اورنج ٹرین سی پیک کا حصہ تھی لیکن اس سی پیک میں گوادر میں موجود ماہی گیروں کیلئے کچھ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پینے کے پانی کا بھی کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ جب یہ سب کچھ نہیں ہوا تو جو صورتحال آج سامنے آئی ہے اسے ایک نہ ایک دن سامنے آنا ہی تھا۔ ماضی کی حکومتوں نے جو کیا سو کیا گوادر سے منتخب موجودہ ایم پی اے جو کم از کم تین پارلیمانی ادوار سے منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں ابتداء میں ق لیگ کا حصہ تھے بعد ساحل وسائل کا نعرہ لگانے والی جماعت کا حصہ بنے آج کل وہ ہیں تو اپوزیشن بینچوں پرلیکن بلوچستان میں انہیں غیر اعلانیہ ڈپٹی چیف منسٹر کا درجہ حاصل ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ گوادر کے الیکٹیبل ہیں اور رہیں گے۔ گوادر کی عوام کی اکثریت ماضی میں قوم پرست سیاست کے قریب رہی ہے۔ ساحل اور وسائل کے نعرے پر انہیں ووٹ ملتے رہینگے۔ انکی سیٹ محفوظ ہے لیکن وہ بھول گئے کہ عوام کی دلچسپی ان کی سیاست میں نہیں اپنے مسائل میں ہے۔ جب عوام کے مسائل پر کسی نے بولا تو عوام یہ بھول کر کہ اسکی سیاسی وابستگی کیا ہے وہ مذہب پرست ہے قوم پرست ہے یا مفاد پرست ہے۔ اس سب سے قطع نظر عوام اپنی بات کرنے والے رہنماء کے پیچھے چل پڑے۔ جسکے نتیجے میں مکران کے ساحل پر اٹھتا سیاسی طوفان بہت سے سیاسی حلقوں میں موضوع بحث ہے اس بار بلوچستان میں ہدایت الرحمان نے یہ ثابت کردیا کہ ہمت اور کوشش سے کوئی ماہی گیر کوئی چرواہا کوئی دہکان کوئی کسان لیڈر بن سکتا ہے۔ جس سے بلوچستان کی الیکٹیبل سیاست اور ساحل وسائل کے دعویدار پریشان ضرور ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔ مولانا کے تمام مطالبات کی فہرست لمبی ہے لیکن اگر مولانا کی فہرست میں موجود عوام کے مطالبات میں سیکیورٹی چیک پوسٹوں میں واضح کمی کردی گئی ہے اور ماہی گیروں کو ریلیف دیا جاتا ہے فشنگ ٹرالرز کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ گوادر کو چند بنیادی چیزیں پینے کے صاف پانی صحت اور تعلیم کی سہولیات دیجاتی ہیں تو مولانا ہدایت الرحمان کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر جانے کے بجائے کچھ لچک دکھانی چاہئے۔ پارلیمانی سیاست میں انتخابات کی تیاری شروع ہوچکی ہے مولانا ہدایت الرحمان اگر اپنے کارڈز پر عوام کے مطالبات کی سیاست پر کھڑے رہے تو بلوچستان اور مکران کی سیاست میں بہت کچھ بدل سکتے ہیں اسکے لئے انہیں اپنے لائحہ عمل پر غور کرنا ہوگا۔

 

یہ بھی پڑھیے:

بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند

گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند

پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ڈیلی آزادی کوئٹہ

%d bloggers like this: