مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سادہ لوگ ، چھوٹی چھوٹی باتیں||حیدر جاوید سید

کاش کبھی لائن میں لگ کر انہوں نے کھاد لی ہوتی تو زمینی حقائق سے آگاہ ہوتے۔ البتہ ان دو بڑے خاندانی وزراء کی اس بات نے ہمارے وزیراعظم کے اس موقف کو ایک بار پھر چار چاند لگادیئے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے کئی گھنٹوں سے لائبریری میں بیٹھا اخبارات دیکھ رہا ہوں، روزانہ کا معمول یہی ہے۔ پہلے صبح کی چائے اور کچھ دیر بعد کافی کا کپ، دیگر کام حسب معمول۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ لکھا کیا جائے۔ فقیر راحموں کے پاس دوتین موضوعات ہیں ان سے دامن بچاکرآگے بڑھنے میں فائدہ ہے۔ یہ پھڈے باز بندہ ہے ہمارا ہمزاد اس سے بچنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو سوچنا پڑے گا۔
ارے ٹھہریئے، نیپرا نے بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 4روپے 33پیسے اضافے کے لئے درخواست دی ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر یہ بوجھ صارفین کے لئے نومبر کے بلوں کا ہے۔ آپ نے بس گھبرانا بالکل نہیں۔
ویسے کچھ گھابر وابر لیں بھی تو فرق نہیں پڑے گا۔ ’’بالائی آمدنی‘‘ کی بندش کی وجہ سے حکومت اور ریاست مشکلات سے دوچار ہیں۔ امریکی بھی روٹھے روٹھے ہیں، چینی بات سننے کو تیار نہیں۔
داسو ڈیم والے سانحہ میں جاں بحق ہوئے چینی انجینئروں کے معاوضے کا تنازع ہے۔ ارباب اختیار کہتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ بالکل درست کہتے ہیں۔ بات بالکل نہیں مسئلہ ہے اور گھمبیر بھی۔
ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری نے کل پھر کہا ہے کہ ’’حکومت گرانا اپوزیشن کے بس میں نہیں ہے‘‘ دو دن قبل قبلہ شیخ رشید نے بتایا تھا ’’اُن کا ہاتھ ابھی تک ہمارے سر پر ہے‘‘۔ہاتھ سے یاد آیا وہ ایک تحقیقاتی صحافی گزشتہ شب ایک ٹیلی ویژن پہ کہہ رہا تھا
’’پیپلزپارٹی چاہتی ہے ہاتھ ہمارے سر پر آجائے اور (ن) لیگ چاہتی ہے ہاتھ اپنی اصل جگہ پر چلا جائے اور غیرجانبدارانہ الیکشن ہوں‘‘۔
دیکھا کیا کمال کا تحقیقاتی صحافی ہے جسے یہ تک معلوم نہیں کہ اس کے ’’ہم ذات‘‘ سابق وزیراعظم نے پچھلے ہفتے راولپنڈی میں ایک عدد ڈنر پھڑکایا اور محبوب جماعت کے سربراہ نے اُسی ہفتے کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد میں دو ملاقاتیں پھڑکائیں۔
ایک سروے رپورٹ آئی ہے اس کے مطابق پاکستان میں لوگ اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے بہت مطمئن ہیں ان مطمئن لوگوں میں سے زیادہ تر خیبرپختونخوا میں مقیم ہیں۔
اچھا ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی وفاقی کابینہ نے منظوری دیدی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ حکومت اسے پارلیمان میں لاتی ہے یا نہیں۔ امید تو نہیں ہے کہ اسے پارلیمان میں لایا جائے کیونکہ بہت سارے تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پچھلی حکومتوں کے مقابلہ میں اس حکومت کو سوال کچھ زیادہ ہی ناپسند ہیں۔ ویسے یہ ہر حکمران جماعت کا المیہ ہے۔ اقتدار سے پہلے کے دنوں میں سوال نہ پوچھنے پر ناراض ہوتے ہیں اس کے رہنما اور اقتدار کے برسوں میں سوال پوچھنے پر ناراض۔ بندہ جائے تو جائے کدھر’
اسرائیل نے تین دنوں کے دوران شام کی بندرگاہ پر دوسرا فضائی حملہ کیا ہے۔ دونوں حملوں کی وجہ سے بندرگاہ کا کارگو سسٹم مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں اس کی مبارک کسے دینی ہے۔ امریکہ کو اسرائیل کو یا عرب اتحاد کو آپ فقیر راحموں کی باتوں پر پریشان نہ ہوا کریں۔ اسے عادت ہے عجیب و غریب باتیں کرنے کی۔ اب دیکھیں نا اگر اسرائیل نے اس اطلاع پر شامی بندرگاہ پر حملہ کیا ہے کہ شام کے ذریعے لبنان کی حزب اللہ کو جدید اسلحہ فراہ کیا جارہا ہے تو اس تنازع میں سر پھنسانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی شام ہمارے ہاں سے بہت دور ہے دو ملک تو کم از کم راستے میں پڑتے ہیں، ایران اور ترکی۔
ہم اپنی ہی نبیڑلیں تو بہتر ہے۔
قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ایاز صادق کہتے ہیں ’’نوازشریف کی جلد واپسی کے بیان پر قائم ہوں، یہ پارٹی کی نہیں میری ذاتی رائے ہے‘‘۔
نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے (ن) لیگ جماعتی سطح پر وضاحت کرچکی کہ فی الوقت ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ادھر قومی سلامتی پالیسی کو سینیٹر رٗضا ربانی نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اب ہمارے اس دوست کو کوئی جاکر سمجھائے کہ ربانی صاحب مستقبل میں قومی سلامتی کمیٹی اس ملک کا سب سے مقدس اور اعلیٰ ترین فورم ہوگا۔
پارلیمان کے خرچوں مرچوں کی غریب قوم مستحق نہیں ہوسکتی۔ اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے کی ’’شعوری‘‘ کوششیں ہورہی ہیں۔ اب اگر ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کو یہ چھوٹی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی تو ان کے لئے دعائے خیر کی درخواست کی جانی چاہیے۔
ویسے بھی کیا ضرورت ہے اس پارلیمنٹ کی اس سے بہتر ہے ملک کے چند اعلیٰ دماغ مل بیٹھ کر 22کروڑ عوام کی رہنمائی کریں۔ ارے معاف کیجئے گا غلطی سے عوام لکھا گیا، 22کروڑ رعایا جس کا کام اطاعت کے سوا کچھ نہیں۔
حب الوطنی مشکوک ہوجائے گی ورنہ آپ کو یہ ضرور بتایا کہ یہ جو پچھلے تین برسوں سے عسکری محکموں کے سابقین کو سول اداروں میں اہم منصب عطا ہورہے ہیں یہ مستقبل کے انتظام کا ابتدائیہ ہے۔ اچھاہے نا محب وطن اور دیانتدار لوگ اوپر سے نیچے تک امور مملکت کی دیکھ بھال کے ساتھ اسے چلائیں گے ’’کرپشن‘‘ بھی نہیں ہوگی، ملک ترقی کرے گا۔ اس نگوڑی جمہوریت میں رکھا کیا ہے۔
معاف کیجئے گا فقیر راحموں کی باتوں میں آکر تھوڑا سا بہک گیا تھا۔
کاشتکاروں کو مبارک ہو دنیا میں بوریا کھاد کی بوری 11ہزار روپے میں ملتی ہے اور پاکستان میں صرف 1800روپے کی۔ کھاد فیکٹریوں کے پاس 65ہزار میٹرک ٹن یوریا موجود ہے، کل 31دسمبر تک کھاد کی پیداوار 16لاکھ بوری تک پہنچ جائے گی۔ اچھا یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ دووفاقی وزراء مخدوم خسرو بختیار اور سید فخر امام نے کہا ہے۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی بڑی ہوتی ہیں۔
کاش کبھی لائن میں لگ کر انہوں نے کھاد لی ہوتی تو زمینی حقائق سے آگاہ ہوتے۔ البتہ ان دو بڑے خاندانی وزراء کی اس بات نے ہمارے وزیراعظم کے اس موقف کو ایک بار پھر چار چاند لگادیئے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔
اب دیکھیں نا دنیا میں یوریا کھاد کی بوری 11ہزار روپے کی ہے پاکستان میں 1800روپے کی چلیں اگر 26سو روپے کی بھی مل رہی ہے تو فرق دیکھیں کتنا ہے۔ 8400رپے کا فرق ہے اس پر ناشکرا پن یہ کوئی اچھا بات تو نہیں۔
یہ جو فقیر راحموں قسم کے لوگ مہنگائی مہنگائی کا شور مچاتے رہتے ہیں ان کے مسائل مختلف ہیں۔ کچھ کے سگریٹ مہنگے ہیں، ارے بھائی کس نے کہا ہے کہ سگریٹ نوشی کرو یہ تو سرطان کو دعوت دینے والی بات ہے۔
صحت اور پیسے کا کھلا نقصان، آخر سگریٹ نوشی ترک کیوں نہیں کردیتے؟ کچھ ان میں سے اپوزیشن کی جماعتوں سے ملے ہوئے ہیں۔
ادھر دنیا میں اومی کرون نامی کورونا پھیل رہا ہے صرف ایک دن میں فرانس میں ایک لاکھ 79 ہزار اور برطانیہ میں ایک لاکھ 23افراد اس سے متاثر ہوئے۔ پڑوسی ملک بھارت کے دارالحکومت دہلی میں کرفیو نافذ کردیا گیا یہاں ہمیں مہنگائی کے ٹرک کے پیچھے دوڑایا جارہا ہے۔
کیا ہوا اگر ا یک سال میں پٹرول 41روپے۔ ڈیزل 37روپے لٹر، گھی 54 کوکنگ آئل 51روپے مہنگا ہوا ہے پاکستان پھر بھی سستا ملک ہے ابھی چند سطور اوپر کھاد کی قیمت بتائی تو ہے۔ چلیں کالم کو سمیٹتے ہیں۔
وفاقی وزیر مملکت علی محمد خان کل کہہ رہے تھے ہم اگلا الیکشن جیت کر پاکستان کو سپر طاقت بنادیں گے صرف 2دن میں۔
آپ کو یاد ہوگا مراد سعید کہتے تھے عمران خان آئے گا بیرون ملک پڑا ہوا 200ارب ڈالر دوسرے دن لے آئے گا۔ ایک سو ارب ڈالر قرضے والوں کے منہ پر مارے گا ایک سو ارب ڈالر سے ترقی ہوگی۔ پھر ایک وہ اسد عمر (ان دنوں آپ وزیر خزانہ تھے) نے کہا ’’200ارب ڈالر والی بات تو بس سیاسی تھی‘‘۔ ہم اور آپ بھی کیا سادہ لوگ ہیں کتنی جلدی کچھ باتوں پر ایمان لے آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: