مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

2021:ناول جنہوں نے متاثر کیا(3)||محمد عامر خاکوانی

کافکا بر لب ساحل کو نجم الدین احمد نے ترجمہ کیا اور اسے عکس پبلی کیشنز ،لاہور نے شائع کیا ہے۔ مجھے تو یہ ناول بہت پسند آیا۔ موراکامی کے ناولوں کی اپنی ایک انوکھی فضا ہے، وہ ایک خاص انداز کے میجک رئیلزم یا جادوئی حقیقت نگاری کا مظاہرہ بھی کرتا ہے، مگر یہ گارشیا مارکیز سے مختلف ہے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رواں سال فکشن پڑھنے کے حوالے سے میرے لئے اچھا رہا کہ اس میںکئی بڑے عمدہ ناول پڑھنے کو ملے، خاص کر عالمی ادب کے دو بڑے لکھاریوں کی تحریر سے لطف اٹھانے کا موقعہ ملا۔ ان میں سرفہرست ممتاز جاپانی ناول نگار ہاروکی موراکامی ہیں۔ عالمی ادب کے حوالے سے زیادہ تر چیزیں ہمیں محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب کی وجہ سے پتہ چلتی ہیں۔
اللہ ان کی زندگی، صحت اور صلاحیتوں میں برکت عطا فرمائے، وہ اردو فکشن پڑھنے والوں کے لئے نعمت خداوندی کی حیثیت رکھتے ہیں۔تارڑ صاحب ج کل کالم نہیں لکھ رہے تھے، ان کے کالموں ہی سے فسوں ساز ترک ادیب اورحان پاموک کا پتہ چلا اور جب پاموک کے اردو میں ترجمہ شدہ تین ناول (سرخ میرا نام، جہاں برف گرتی ہے ،خانہ معصومیت)پڑھے تو دنگ رہ گیا۔ اورحان پاموک کے ناولوں کا ٹرانس برسوں رہتا ہے۔ یہ سب جمہوری پبلی کیشنز لاہور نے چھاپے ہیں۔ تارڑ صاحب ہی کے کالموں سے حوزے ساراگوما ،ہاروکی موراکامی اور اسماعیل کادارے کا پتہ چلا۔ حوزے ساراماگو کا مشہور ناول بلائنڈ نیس جس کا ترجمہ اردو کے منفرد غزل گو شاعر احمد مشتاق نے اندھے لوگ کے نام سے کیا، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اس ناول کو حال ہی میں بڑے دلکش انداز سے بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔حوزے سارا ماگو کا ایک ناول ’’التوائے مرگ ‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان نے بھی شائع کیا ہے۔ اس کا موضوع اچھوتا اور ٹریٹمنٹ ایسی انوکھی ہے کہ قاری مبہوت رہ جاتا ہے۔ رواں سال ہاروکی مورا کامی کے دو بڑے عمدہ ناول پڑھنے کو ملے۔موراکامی کے مشہور ناول کافکا ن دی شور کا ترجمہ’’ کافکا بر لب ساحل ‘‘ کے نام سے ہوا ہے۔ یہ کمال کا ناول ہے،اچھا بھلا ضخیم ہونے کے باوجود جی یہی چاہتا تھا کہ اسے ایک نشست میں پڑھا جائے، جب تک اسے مکمل طور پر پڑھ نہیں لیا، چین نہیں ملا۔ موراکامی کو نجانے کیوں ابھی تک نوبیل انعام نہیں ملا، وہ ہر لحاظ سے اس کا حقدار ہے۔
کافکا بر لب ساحل کو نجم الدین احمد نے ترجمہ کیا اور اسے عکس پبلی کیشنز ،لاہور نے شائع کیا ہے۔ مجھے تو یہ ناول بہت پسند آیا۔ موراکامی کے ناولوں کی اپنی ایک انوکھی فضا ہے، وہ ایک خاص انداز کے میجک رئیلزم یا جادوئی حقیقت نگاری کا مظاہرہ بھی کرتا ہے، مگر یہ گارشیا مارکیز سے مختلف ہے۔
اس ناول میں بلیوں کے کردار کو بڑی خوبصورتی سے برتا گیا۔ ہاروکی موراکامی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ روزانہ دوتین گھنٹے ورزش اور کسرت میں گزارتا ہے۔ اس کے کردار بھی باقاعدگی سے جم جاتے اور لڑکپن ہی سے مسلز بناتے اور ورزش میں وقت لگاتے ہیں۔ جاپانی ناول نگار کی صرف یہی بات خاکسار کو پسند نہیں ئی، ایسی بھی کیا چستی کہ ناولوں کے کرداربھی بھاگتے دوڑتے، مگدر ہلاتے پھریں۔
ناولوں کی خیالی دنیا میں تو کرداروں کو لمبی تان کر سونے اور کھانے پینے، فکشن پڑھنے، موسیقی سننے اور گپیں لگانے کا موقعہ ملنا چاہیے۔یہ ہماری ناچیز رائے ہے اور ظاہر ہے جاپانی ناول نگار پر اس کا کیا اثرہونا۔ سال کے خری مہینوں میں موراکامی کے ایک اور ناول نارویجئن وڈز کا ترجمہ ’’نغمہ مرگ ‘‘کے نام سے پڑھنے کو ملا۔ اس کا ترجمہ ڈاکٹر عبدالقیوم نے کیا اور اسے نگارشات لاہور نے شائع کیا ہے۔اس ناول میں موراکامی کی مخصوص جادوئی حقیقت نگار ی کا اثر گہرا نہیں، دراصل یہ ایک خاص دور میں جاپانی نوجوان نسل میں میں تیزی سے بڑھتی شرح خودکشی کے گرد گھومتا ہے۔
ہاروکی موراکامی نے بڑی عمدگی سے یہ نثرپارہ لکھا۔ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جاپان کا ذکر چل رہا ہے تو ایک اور جاپانی ناول گینجی کی کہانی کا تذکرہ ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ضخیم ناول ایک ہزار سال پہلے لکھا گیااور یہ دنیا کا پہلا ناول ہے۔ اس کے مصنف موراساکی شیکیپو ہیں اور اردو ترجمہ باقر نقوی نے کیا۔ باقر نقوی بھی محترم شاہد حمید کی طرح اردو ادب کے محسن ہیں۔ دونوں نے شاہکار عالمی ادب کو اردو میں منتقل کیا۔ باقر نقوی نے وکٹرہیوگو کے شاہکار ناول لیزمیزرابیل کا ارد وترجمہ محراب کے نام سے کیا، دو ضخیم جلدوں میں یہ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، دنیا کے عظیم ناولوں میں سے ایک۔ باقر نقوی کے علاوہ شائد ہی کسی نے اتنے بڑے کام میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت کی۔ گینجی کی کہانی کی تحقیق وتدوین اور حواشی خرم سہیل نے لکھے ہیں۔
خرم سہیل بہت ٹیلنٹڈ لکھاری ، ٹی وی پروگرام ہوسٹ ہیں۔رٹ اور کلچر پر خاصا کام کر چکے ہیں۔ اسماعیل کادارے یورپی ملک البانیہ کے مکین ہیں۔ انہیں بھی ابھی تک نوبیل انعام نہیں ملا، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا ادبی مرتبہ اورحان پاموک سے بھی بلند ہے۔ کادارے کا ایک ناول ’’دو نیم اپریل ‘‘پڑھنیکو ملا، یہ بروکن اپریل کا ترجمہ ہے۔ ناول ضخیم نہیں،مگر کمال کا ہے۔ ہمارے ہاں اسے سمجھنا زیادہ سان ہے کہ اس کا بنیادی موضوع قتل، بدلہ اور قبائلی روایات کے گرد گھومتا ہے۔ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پشتون، بلوچ لینڈ سکیپ یا افغانستان کے کسی علاقہ کا قصہ ہے۔
ناول کراچی کے ایک پبلشر (غالباً سٹی بک پوائنٹ )نے شائع کیا، اس کا انگریزی سے ترجمہ سعید نقوی نے کیا ہے۔ کاش اسماعیل کادارے کے دیگر ناول بھی اردو میں منتقل کئے جا سکیں۔ ہمارے سرکاری ادبی اداروں کے پاس مناسب فنڈز ہوں تو وہ ہاروکی موراکامی، اسماعیل کادارے اور اسی طرح دیگر مغربی ، لاطینی امریکی مصنفین کے کام کو اردو میں ترجمہ کرائیں۔ میں نے اسماعیل کدارے کے تین چار ناولوں کی انگریزی ای بکس حاصل کی ہیں، اگلے سال کی ریڈنگ لسٹ میں یہ ان شااللہ شامل ہوں گے۔ اس سال کا سب سے اہم ادبی واقعہ شاہد حمید صاحب کا ترجمہ شدہ ٹالسٹائی کا ناول جنگ اور امن کی نئی اشاعت ہے۔
یہ شاہکار ناول ریڈنگز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ تاریخ انسانی کے عظیم ترین دو ناولوں میں سیا یک، اسے پڑھنے کے لئے زندگی کے چند دن ضرور نکالیں اور سمندر میں پیراکی کا لطف اٹھائیں، جس میں ڈوب جانے بھی خسارے کا سودا نہیں۔ اب ہمارے مقامی ادب کی طرف آئیں۔ جولائی میں کوئٹہ گیا تو معروف ناول نگار محمد وسیم شاہد کا ناول ڈھاڈری ملا۔ وسیم شاہد اچھا لکھنے والے ہیں، اس ناول میں حقیقت کا عکس گہرا ہے، دلچسپی سے انہوں نے ایک نوجوان کا قصہ حیات بیان کیا، جس میں ہم سب کو اپنے بچپن یا اپنے بچوں کی جھلک نظر تی ہے۔
عابد میر معروف فکشن نگار، کالم نگار اور مدیر ہیں۔ ان کی کئی جہتیں ہیں۔ ہم سے خاصے چھوٹے ہیں، مگرکم عمری میں بہت کچھ لکھا ڈالا، کئی تراجم، کہانیوں کے دو تین مجموعے، کالم نگاری، ادبی جرائد کے لئے کام ، حال احوال کے نام سے ایک وقیع ویب سائٹ۔ عابد میر نے کوئٹہ میں اپنی کئی کتابیں ازراہ محبت دیں۔ دو رنگی ان کا کہانیوں کا مجموعہ ہے، زندگی کے دو رنگوں کی عکاس کہانیاں۔ مختصر سی کتاب ہے، پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مہردر ریسرچ اینڈ پبلی کیشن کوئٹہ نے اسے شائع کیا۔ منزہ احتشام گوندل افسانہ نگار، شاعرہ اور معلمہ ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ کہانی کا خری کنارہ پڑھنے کا موقعہ ملا۔ منزہ احتشام بڑی عمدہ لکھاری ہیں، ان کے افسانوں کا اپنا ہی خاص رنگ ہے، کسی چھاپ سے عاری۔ علی ارشد رانا پی سی ایس افسر ہیں، ان کا ناول’’ جلتا رہا چراغ یقین وگمان کا‘‘ پڑھنے کو ملا، ہمارے دوست پی سی ایس افسر کاشف منظور نے اس کی اتنی تعریف کی کہ پڑھنے کوبے تاب ہوا۔ ناول بہت مختلف اور اچھوتیموضوع پر ہے۔
اردومیں ڈس لیکسیا (اوائل عمر میں کند ذہنی کی خاص بیماری) پر لکھا یہ پہلا ناول ہے، مصنف نے اسے دل سے لکھا، اس لئے اس کا اثر بھی گہرا ہے۔ اس پر کئی معروف مصنفین نے بہت اچھے الفاظ میں تبصرے کئے ہیں، مجیب الرحمن شامی، عطا الحق قاسمی ، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، علی اکبر ناطق وغیرہ۔ مجھے صرف ایک اعتراض ہے کہ کتاب میں درجنوں صفحات ریویوز کے مختص کر دئیے گئے۔ میرے خیال میں صرف بیک فلیپ پر دئیے گئے کمنٹس ہی کافی تھے، زیادہ سے زیادہ دو تین صفحات کا دیباچہ ہوجاتا۔ اتنے زیادہ تبصریپڑھ کر عجیب لگتا ہے۔ علی ارشد رانا میں ٹیلنٹ ہے ، ان کی تحریر میں دم ہے، انہیں اس کی قوت پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ میری خواہش ہے کہ وہ مزید لکھیںاور نئے موضوعات کا انتخاب کریں۔ دسمبر ہی میں برادرم فرخ سہیل گوئندی نے خالد فتح محمد کے دو ناول پڑھنے کو دئیے۔ وقت کی باگ ان کا نیا ناول ہے، اسے دیتے ہوئے گوئندی صاحب نے کہا کہ یہ جنرل ضیا کے دور پرلکھا گیا سب سے عمدہ ناول ہے۔
اس وقت مبالغہ لگا، مگر پڑھا تو ماننا پڑا۔ خالد فتح محمد نے بڑا ناول لکھا ہے، اس کا ٹیمپو قدرے سست ہے، مگر جذئیات نگاری کمال ہے اور جنرل ضیا کا دوراپنے تمام تر تضادات کے ساتھ نکھوں کے سامنے زندہ ہوجاتا ہے۔ خالد فتح محمد کا ایک اور ناول خلیج بھی اہم ہے، یہ سانحہ مشرقی پاکستان پر ہے۔ رواں سال بک کارنر جہلم نے بہت سی اچھی کتابیں چھاپی ہیں۔ کرشن چندر کے دس ناول،صوفی کی دنیا، برادرزکرامازوف ، قاضی عبدالستارکے ناول، روسی شاہکار ناول ڈاکٹر ڑواگووغیرہ۔سابق بیورو کریٹ اور منفرد لکھاری اقبال دیوان کا بہت دلچسپ ،اچھوتا ناول کہروڑ پکا کی نیلماں بھی بک کارنر نے شائع کیا ہے۔ یہ پہلے ادبی جریدے سویرا میں چھپا۔ اقبال دیوان بہت عمدہ لکھاری ہیں، ان کے کام کو ابھی تک حقیقی معنوں میں سراہا نہیں گیا۔ وہ زیادہ توقیر کے مستحق ہیں۔ ج کل کراچی میںپانچ روزہ کتاب میلہ چل رہا ہے، وہاں اقبال دیوان کی کتاب موجود ہے۔ اہلیان کراچی سے درخواست ہے کہ وہ کتاب میلہ ضرور جائیں، تین جنوری خری تاریخ ہے۔کتابوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، اس سے پھوٹنے والے رنگ پ کو اندر باہر سے خوبصورت بنائیں گے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: