انور خان سیٹھاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سیاست میں قدم رکھنے سے ہی بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا پاکستان پیپلزپارٹی کا قصور صرف اور صرف عوام کی بات کرنا تھا اور یہ سازشی عناصروں کو کسی صورت برداشت اور قبول نہیں تھا اور انہیں سازشی عناصر نے یک مشت اور یک زبان ہو کر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کیا شہید بابا کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹروں کا بہادری سے مقابلہ کیا اور اپنے شہید بابا کے نامکمل مشن کو مکمل کرنے کا الم اٹھایا اور میدان میں قدم رکھا،
بھٹو خاندان کو ہمیشہ کانٹوں کی سیج ملی کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی جنگ جمہوریت کیلئے ہے اور غیر جمہوری قوتیں اس سسٹم کو کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اور اسی عوامی محبت میں بھٹو خاندان نے جیلیں کاٹیں تشدد برداشت کئے الزامات کا سامنا کیا کیسز بھگتے اور بالآخر بھٹو خاندان سارا کا سارا پاکستان اور جمہور کی منشا کیلئے قربان ہو گیا،
تاریخ شاہد ہے پاکستان پیپلزپارٹی کو جب بھی اقتدار ملا ڈکٹیٹروں نے پاکستان کا ستیا ناس کرکے دیا ایوب خان کی تباہیاں قائد عوام نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ٹھیک کیں ابھی ملکی معیشت دفاع تعلیم صحت روزگار سمیت تمام شعبوں میں ترقی ہو رہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہ بھائی جنرل ضیاء نے نہ صرف مارشلاء لگا کر پاکستان کو تباہی کی طرف دھکیلا بلکہ قائد عوام کو شہید کرکے پاکستان کو کئی سو سال پیچھے پہنچا دیا،
بدترین ضیائی مارشلاء میں محترمہ بینظیر بھٹو نے جرات و بہادری کے ساتھ ایسی لاجواب لازوال اور بے مثال جدوجہد کی جسکی تاریخ میں نظیر ملنا مشکل ہے اور ضیاء الحق کے واصل جہنم ہونے کے بعد ضیائی باقیات کے خلاف جدوجہد جاری رکھی جو کہ آخری سانس تک جاری رہی،
ضیاء ملعون کے مارشلاء میں کلاشنکوف کلچر عدم برداشت مذہبی منافرت سمیت پرتشدد اسٹیبلشمنٹی دہشت گرد تنظیمیں بنائی گئیں جنکا ٹارگٹ صرف اور صرف پاکستان پیپلزپارٹی تھی کیونکہ ضیاء نے تمام ہتھکنڈے استعمال کرکے دیکھ لیا تھا کہ پیپلزپارٹی کیسز بنا کر ختم نہیں ہوئی پھانسیاں دیکر ختم نہیں ہوئی کوڑے مار کر ختم نہیں ہوئی جیلوں میں ڈال کر جئے بھٹو کے نعرے کو نیچا نہیں کرسکے تو اسی نے مجاہدوں کے نام پر دہشت گرد تنظیمیں پیدا کیں جنکی فنڈنگ اور پشت پناہی ریاست پاکستان کرتی رہی اور کررہی ہے اور یہ ساری تیاری پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف تھی جو کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کی شکل میں دنیا نے دیکھی،
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا سال 2007 کے آغاز ہی دہشت گردوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا کیونکہ ڈکٹیٹر مشرف جانتا تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو اسی سال پاکستان آنے والی ہیں تو 2007 ہے آغاز میریٹ ہوٹل میں خودکش دھماکے سے کیا گیا درالحکومت کے بعد خیبر پختونخوا میں خودکش دھماکے کروائے گئے دارالحکومت میں ریاست کی ناک کے نیچے پروان چڑھنے والے دہشت گرد کھلم کھلا کاروائیاں کررہے تھے لال مسجد کے پالتوؤں کے خلاف ریاست نے اپنے منہ پر لگی سیاہی صاف کرنے کیلئے آپریشن کیا بارہ مئی کو وکلاء تحریک دہشت گردی کی نظر کرنے کی کوشش کی گئی خون بہا گاڑیاں جلیں املاک تباہ کئے گئے راولپنڈی میں دھماکے درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں المختصر محترمہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے انہیں پاکستان نہ آنے کیلئے خودساختہ دہشت گردوں کے سہارے لئے گئے پورے پاکستان کو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا گیا تھا اور دنیا کو یہ میسج دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان میں دہشت گردی عروج پر ہے اگر اسی اثناء میں محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان آتی ہیں تو ہونے والے نقصانات کی خود ذمہدار ہونگی،
یہ کیسے ممکن تھا کہ عوامی لیڈر عوامی قائد ان نام نہاد سازشیوں ملک دشمنوں قوم کے غداروں جمہوریت کے مخالفوں کی دھونس دھمکیوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈر جاتیں اور اپنے عوام سے دور رہتیں گولیوں کی بوچھاڑ میں بموں کی گونج میں بہادر باپ کی بہادر بیٹی نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے MRD تحریک میں فورسز کی وردی پہن کر اوپن دہشت گردوں کا مقابلہ کیا تشدد برداشت کئے جیلیں کاٹیں وہ کیسے انکے پالے ہوئے دہشت گردوں سے ڈر جاتیں بالآخر دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے ظالموں کو شکنجے میں لانے مظلوموں کی مدد کیلئے غریبوں کی خوشیوں کیلئے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ملک کے مستقبل اور مستحکم دفاع کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو پاکستان تشریف لائیں،
محترمہ بینظیر بھٹو کراچی پہنچیں تو استقبال کیلئے آنے والے جیالوں اور جیالیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اسی دوران محترمہ کو ٹارگٹ کرنے کیلئے دھماکے کئے گئے کارساز کے دھماکوں میں محترمہ تو محفوظ رہیں لیکن جیالے سینکڑوں کی تعداد میں شہید اور زخمی ہوئے،
شہید بی بی کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ سانحہ کارساز کے اگلے دن شہید ہونے والوں کے گھروں میں تعزیت کیلئے پہنچیں اور زخمیوں کی عیادت کیلئے ہسپتال پہنچیں حوصلے اتنے بلند تھے کہ سانحہ کارساز جیسے دھماکے بھی شہید بی بی کے حوصلے پست نہ کرسکے یقیناََ یہ شہید بابا کی وراثت ہی تھی کہ بڑے سے بڑے فرعونوں کو اور انکے اوچھے ہتھکنڈوں کو بی بی شہید جوتے کی نوک پر رکھتی تھیں،
آج کل کے آن لائن کاغذی اور ٹوئٹری لیڈر بینظیر بھٹو بننے کی کوشش میں ہیں مہنگے لباس زیبِ تن کرکے سوچتے ہیں کہ بینظیر لگ رہے ہیں چند دن انقلابی بیان دیکر بینظیر بننے کا میسج دیتے ہیں اور پھر کئی مہینے منتیں کرتے معافیاں مانگتے رینگتے اور چھپے ہوئے نظر آتے ہیں،
اگر مہنگے لباس پہننے سے بینظیر بنتیں تو تو شوبز انڈسٹری میں بینظیروں کی بھر مار ہوتی اگر چند چاپلوس رکھ کر لیڈر بنتے ہوتے تو آج ڈکٹیٹر نشان عبرت نہ بنے ہوتے اگر اقتدار حاصل کرنے کیلئے ڈیلیں کی جاتیں ہیں تو صرف اور صرف بزنس کرنے کالے دھن کو سفید کرنے اور قوم کی نظروں میں دھول جھونکنے کیلئے کی جاتیں ہیں چند بیانات یا چاپلوسوں سے لیڈر نہیں زہنی غلام بنتے ہیں،
بینظیر بننے کیلئے بہادری اور قائدانہ صلاحیتیں وراثت میں ملی ہوں نہ کہ گیٹ نمبر چار سے اور دادا سر شاہنواز ہو والد ذوالفقار علی بھٹو ہو والدہ نصرت بھٹو ہو بھائی میر مرتضیٰ اور میر شاہنواز جیسے ہوں شوہر شاہ زرداری جیسا ہو بیٹا بلاول اور بیٹیاں بختاور اور آصفہ بھٹو جیسی ہونی چاہیئں،
یہی اداروں اور ڈکٹیٹر مشرف اور اسکے حواریوں کی سازشیں چلتی رہیں محترمہ کو شہید کرنے کے منصوبے بنتے رہے بالآخر سازشی عناصر ملک دشمن قوتیں قوم کے غدار اپنی سازشوں اور منصوبوں میں کامیاب ہوئے اور عوامی لیڈر کو عوامی قائد کو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے درمیان اس شہر میں شہید کیا گیا جہاں محترمہ بینظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کیا گیا جہاں میر مرتضیٰ اور میر شاہنواز کے قتل کے منصوبے بنائے گئے جہاں ذوالفقار علی بھٹو محترمہ بینظیر بھٹو اور صدر زرداری کے خلاف مقدمات کی سازشیں چلتی رہیں جہاں انکی حکومتوں کے خلاف سازشیں کی گئیں اس ظالم جابر اور فرعون صفت ڈکٹیٹروں کے شہر پنڈی میں محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنے عوام سے جدا کیا گیا،
محترمہ کی شہادت کے بعد جمہور کی منشا نے پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدار دیا تو صدر زرداری دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کئے دہشت گرد جو کہ اسلام آباد پہنچنے کے قریب تھے اور پاکستان کو موجودہ افغانستان بنانے کے درپے تھے انکے خلاف کامیاب آپریشن کئے اور پاکستان کو امن کا گہوارہ بنایا،
اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم شہید بنتِ شہید محترمہ بینظیر بھٹو قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ہمت و حوصلے کی اعلیٰ مثال جرات و بہادری کا منبع مزاحمت کا مرکز دور اندیشی کی بے تاج بادشاہ قائدانہ صلاحیتوں کا محور عوامی امنگوں کی ترجمان کروڑوں دِلوں کی دھڑکن مظلوموں کی آس غریبوں کی امید شوہر کی قید اور جلاوطنی کے باوجود تین بچوں کی اعلیٰ تربیت کرکے ایک بہترین ماں ہونے سمیت ہزاروں دیگر بے مثال خوبیوں سے مزین تھیں،
شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی نو عمری سے لیکر شہادت تک ظالم جابر اور فرعون صفت ڈکٹیٹروں اور انکی پیداواروں کے خلاف جدوجہد جمہوریت کی بحالی پارلیمان کی بالادستی آمریت کے خلاف جدوجہد اور عوام کی خدمت میں گزاری جمہور کی منشا کیلئے قربانیاں اس ظالم اور بے ضرر معاشرے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹے رہنا اور مفادات کیلئے دین کا استعمال ذاتی پسند نہ پسند اور کفر کے ناجائز فتووں کی فیکٹری ملاں ملٹری آلائنس کے خلاف مضبوط اور جامع موقف کے ساتھ جدوجہد کرنے سمیت انکی ساری زندگی دنیا بھر کی خواتین بالخصوص پاکستان کی خواتین کیلئے ہمہ قسمی تحفظ کی درسگاہ حقوق کی جنگ آخری اور ہر حد تک جانا سمیت تمام کاوشیں تمام کوششیں تمام اقدامات مشعل راہ اور قابل فخر ہیں،
شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی چودہویں برسی کے موقع پر انکی عظمت و رفعت کو بہادری و شجاعت کو عوام کے ساتھ کی گئی وفاداری اور عوام کے حقوق کی خاطر ڈٹ جانے اور جام شہادت نوش کرنے پر انہیں سرخ سلام پیش کرتے ہیں،
قریہ قریہ ماتم ہے
اور بستی بستی آنسو ہے
صحرا صحرا آنکھیں ہیں
اور مقتل مقتل نعرہ ہے
سنگ ستاروں کے لیکر
وہ چاند چمکتا نکلے گا
تم کتنے بھٹو مارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا
جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
تم کتنا رستہ روکو گے
وہ اک ایسا جادو تھی
جو سر پر چڑہ کر بولے گی
ہر زنداں کے ہر مقفل کو
وہ چابی بن کر کھولے گی
جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
تم کتنا رستہ روکو گے
وہ اک ایسا جادو تھی
جو سر پر چڑہ کر بولے گی
ہر زنداں کے ہر مقفل کو
وہ چابی بن کر کھولے گی
شور ہواؤں کا بن کر
وہ آنگن آنگن ہولے گی
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے
وردی والے ہو
یا کالی داڑھی والے ہو
تم نیلے پیلے اودے ہو
یا گورے ہو یا کالے ہو
تم ڈاکو چور لٹیرے ہو
یا قومی غنڈے سالے ہو
اپنے اور پرائے ہو
یا اندھیاروں کے پالے ہو
وہ شام شفق کی آنکھوں میں
وہ سوہنی ساکھ سویروں کی
وہ دیس دکھی کی کوئل تھی
یا تھر میں برکھا ساون کی
وہ پیاری ہنسی بچوں کی
یا موسم لڈیاں پاون کی
تم کالی راتیں چوروں کی
وہ پنکھ پکھیرو موروں کی
وہ بہن کسانوں کی پیاری
وہ بیٹی مل مزدوروں کی
وہ قیدی تھی زرداروں کی
عیاروں کی سرداروں کی
جرنیلوں کی غداروں کی
ایک نہتی لڑکی تھی
اور پیشی تھی درباروں کی
وہ بیٹی تھی پنج آبوں کی
خیبر کی بولانوں کی
وہ سندھ مدینے کی بیٹی
وہ نئی کہانی کربل کی
وہ خوں میں لت پت پنڈی میں
بندوقیں تھیں بم گولے تھے
وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی
اور ہر سو قاتل ٹولے تھے
اے رت چناروں سے کہنا
وہ آنی ہے وہ آنی ہے
وہ سندر خواب حقیقت بن
چھاجانی ہے چھا جانی ہے
وہ بھیانک سپنا آمر کا
وہ دریا دیس سمندر تھی
جو تیرے میرے اندر تھی
وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی
وہ لڑکی لال قلندر تھی
وقت کے گزرنے پر تم جو بھول جاؤ گے
ہم تمہیں بتائیں گے بینظیر کیسی تھی
زندگی کے ماتھے پر وہ لکیر جیسی تھی
ظلم کے نشانے پر ایک تیر جیسی تھی
بینظیر بھٹو بس بینظیر جیسی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
مسائل کا حل صرف پیپلزپارٹی ۔۔۔انور خان سیٹھاری
پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید
پاکستان کی تباہی میں عدلیہ کا کردار ۔۔۔انور خان سیٹھاری
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ