جس فکشن نگار کی کہانی میں "انحراف " سٹیٹس کو کے لیے خطرہ نہ ہو اور اسے پھر بھی "منحرف فکشن کا خالق" کہا جائے اور ساتھ ہی حکومت اسے کسی ادبی ادارے کی سربراہی سونپ دے یا اسے کوئی انعام دے ڈالے تب بھی یہ سمجھ جانا چاہئیے کہ اس کا منحرف فکشن سوائے ایک فیشن کے کچھ بھی نہیں ہے
عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تقریب میں شریک تھا، میرے سامنے والی قطار میں میرے عین سامنے دو افراد بیٹھے ہوئے تھے – اسٹیج پہ ایک شاعر خطاب کررہا تھا اور جس ادیب کے اعزاز میں تقریب تھی اُس کے نام ایک ” آزاد نظم” پڑھ رہا تھا – اُن دو افراد میں سے ایک کہنے لگا،
” یہ میرا کلاس فیلو ہے، این ایس ایف میں ہوتا تھا”
دوسرا حیرانی سے بولا، "اچھا؟”
پہلا کہنے لگا، "تمہیں حیرانی کیوں ہوئی؟”
دوسرا بولا، "مجھے تو یہ کہتا ہے کہ ترقی پسند ادب تو پمفلٹ بازی ہے”
"اصل میں یہ کوشش کے باوجود ایسی نظم نہ لکھ سکا جو پمفلٹ بازی سے دور ترقی پسند خیالات کو اپنے اندر سموپاتی اور بے شک ‘نثری’ ہوتی مگر اُس کا اپنا ہی ایک آہنگ، ایک توازن ہوتا – غزل کے یہ شعر اچھے کہتا تھا لیکن اس کی نظم اس زمانے میں بھی بکواس تھی اور آج بھی بکواس ہے”
تقریب ختم ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ اُن دو افراد میں پہلے فرد کو دیکھ کر وہی ادیب اُس کی طرف بڑھا اور اُسے کہنے لگا ” تم اس تقریب کے مہمان خصوصی سے اپنی وابستگی کے سبب آئے ہوں گے، ورنہ تم کہاں آتے "
” ہاں تُم ٹھیک ہی کہتے ہو، اس تقریب میں ایک تو چیف گیسٹ کی تقریر شاندار تھی دوسری اُس کی جس نے اس تقریب پذیرائی کے حامل ادیب کو کہا تم بھلا کیسے مین سٹریم ادیب بن سکتے ہو جو "پورا سچ” لکھتا ہو – جبکہ تم 1981ء میں بھی "نظم” کی توھین کرتے تھے جب تم خود کو فیض، احمد فراز اور جالب بننے کے لیے ترقی پسند کہلاتے تھے اور آج بھی قابل ذکر نظم کہنے سے قاصر ہو جب تم چاہتے ہو اور کچھ نہیں تو اردو ادب والے تمہیں نظم کا ایوب خاور ہی مان لیں – اور ہاں تمہاری نظمیہ شاعری میں "اُتَرن” پہننے کی عادت گئی نہیں؟ کس کس کی نظموں کے خیالات سے دیمک کی طرح چمٹتے ہو بڑی نظم پھر بھی کہہ نہیں پاتے، بالشتیہ ہونا نجانے کب بڑے ہوگے”
یہ سب سُنکر وہ شاعر چہرے پہ کھسیانی ہنسی سجائے بولا” الف تُم بہت شیطان ہو….. "
میں زرا فاصلے پہ کھڑا یہ ساری گفتگو سُن رہا تھا – اور سوچ رہا تھا کہ اس قدر صاف اور کھری گفتگو کون کرسکتا ہے؟ خیر میں نے نعلوم کرنے کی کوشش نہیں کی، آج یونہی نقوش رسالے کی ورق گردانی کررہا تھا کہ ایوب خاور کی نظم "اترن” سامنے آئی، اسے پڑھنے لگا تو شاعر کو رگیدنے والے شخص کے ہاں "اترن” اور دیمک کے الفاظ کی سمجھ آئی، میں نظم پڑھ کر کافی دیر ہنستا رہا اور یہ بھی سوچتا رہا کہ آج ایسے سیاسی کارکن عنقا ہیں جو عام گفتگو میں اپنا ادبی شعور بروئے گار لاتے رہتے ہیں
جانے کس کس ذات کے لمس ہیں
کس کس نسل کی دیمک اس کے دامن سے ہے لگی ہوئی
انجانے ہونٹوں کے نم سے دھاگا دھاگا لدی ہوئی
سو سو طرح کی خوشبوؤں میں بسی ہوئی
اترن پہنو گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"وہ اس کے ناول سے ایسے ڈرے کہ اس ناول کے ہر اک نسخے کو آگ لگادی ، جس ٹائپ رائٹر ربن سے وہ ناول لکھا گیا تھا اسے بھی تباہ کردیا گیا اور جس گھر میں وہ ناول پایا گیا اس گھر کے مکینوں کو جیل بھیج دیا گیا”
اگر ادب حالات کو جوں کا توں رکھنے کے راستے میں حائل نہ ہو اور وہ لوگوں کو بغاوت اور مزاحمت پہ آمادہ نہ کرے تو اسے "منحرف ادب” قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر کسی سرکاری جامعہ میںکسی باغی و منحرف شاعر کے فن پہ خود سرکاری جامعہ کی انتظامیہ کانفرنس کرائے تو سمجھ لیں اس "باغی ومنحرف شاعر” کے خیالات یا تو اس زمانے کی اسٹبلشمنٹ کے لیے خطرہ نہیں رہے یا اس شاعر کی شاعری سے بغاوت و انحراف کے پہلوؤں کو پس پردہ ڈال دیا گیا ہے یا اس شاعر کی شاعری اب "جنتا” کے محنت کشوں ، کسانوں میں "سانس ” نہیں لیتی بلکہ وہ تو "پوش علاقوں” میں اسٹیٹس سمبل بن چکی ہے۔
جس فکشن نگار کی کہانی میں "انحراف ” سٹیٹس کو کے لیے خطرہ نہ ہو اور اسے پھر بھی "منحرف فکشن کا خالق” کہا جائے اور ساتھ ہی حکومت اسے کسی ادبی ادارے کی سربراہی سونپ دے یا اسے کوئی انعام دے ڈالے تب بھی یہ سمجھ جانا چاہئیے کہ اس کا منحرف فکشن سوائے ایک فیشن کے کچھ بھی نہیں ہے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر