سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلال الدین رومی کا شمار ملک کے معروف صنعتکاروں میں ہوتا ہے جو فلاحی کاموں کی بنا پر جنوبی پنجاب کے عوام میں بہت مشہور ہیں۔ یہ ان کی عوام سے وابستگی ہی ہے کہ انہوںنے درجنوں ایسے پروگرامز شروع کررکھے ہیں جن کے ذریعے وہ نادار اور ضرورت مند لوگوں کی بڑے زوروشور کے ساتھ خدمت کررہے ہیں لیکن اللہ کے اس نیک بندے کو شہرت کا تھوڑا سا بھی لالچ نہیں جب بھی ان سے کہا گیا کہ آپ عوام کی بے لوث خدمت کررہے ہیں ذرا میڈیا میں اپنی انٹری دیا کریں تو وہ صاف انکار کردیتے ہیں کہ انہیں میڈیا میں خود کو Glorify کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ آج کے اس مادی دور میں ایسے شخص کا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔ آج کے اس کالم کے ذریعے میں جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کی بطور نمائندہ ان سے کچھ درخواست کرنے کی جسارت کررہی ہوں کہ جہاں وہ اس خطے کے مجبور اور نادار لوگوں کے لئے دیگر فلاحی کام کررہے ہیں تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہو وہ اس خطے میں ایک بڑی اور معیاری انٹرنیشنل پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹی بھی بنائیں جہاں طلبا کو ڈگری باہر کی یونیورسٹیوں سے ملے اور میرے خطے کے قابل، ذہین نوجوانوں کو باہر جاکر ڈگری لینے کی بجائے وہ ڈگری گھر بیٹھے ہی مل جائے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب خطے میں ایک نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے سرمایہ دار موجود ہیں جو اگر چاہیں تو تھوڑی سی توجہ دے کر اس خطے کی قسمت بدل سکتے ہیں مگر افسوس کہ ہمارےر ہاں سرمایہ دار طبقہ اپنی ناک سے کبھی آگے دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا اسے تو صرف ایک ہی کام آتا ہے کہ انہوں نے اپنا پیسہ ڈبل کس طرح کرنا ہے۔ ذرا سوچئے کہ لاہور جیسے شہر میں LUMS، UMT اورFC کالج فارمین کرسچین جیسے دیگر پرائیویٹ تعلیمی ادارے قائم ہوسکتے ہیں تو جنوبی پنجاب کے سرمایہ داروں کو ایسے نیک کاموں میں ہاتھ ڈالنے میں کیا امر مانع ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ تو یہاں کی جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی ذہنیت ہے جو کبھی بھی اس خطے کے لوگوں کو آگے پڑھنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہتی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل میری ایف سی کالج کی انتظامیہ میں موجود ایک شخص سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ اب وہ گوجرانوالہ میں بھی اپنا Campus شروع کرنے جارہے ہیں تو اسی وقت میں نے پوچھا کہ FC کالج کی انتظامیہ جنوبی پنجاب اک رخ کیونکر نہیں کرتی تو انہوں نے بتایا کہ گوجرانوالہ کے لئے زمین وہاں کے کسی رہائشی نے دی ہے تو میرے وسیب کے لوگوں کو آخر ایسی کیا مجبوری ہے جو اپنے خطے کی ترقی کے لئے کام کرنے سے انکاری ہیں۔
اگر جنوبی پنجاب کے سرمایہ داروں، صنعت کاروں کی فہرست بنائی جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ لوگ جو کل تک کچھ نہیں تھے آج ان کے پاس بہت کچھ ہے اور یہ سب کچھ انہوںنے اسی خطے سے حاصل کیا ہے اور آج جب وہ خود اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں تو اس خطے کی ترقی کے لئے اپنے کردار کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔ اگر یہاں پر نئے تعلیمی ادارے، فیکٹریاں اور صنعتیں قائم کی جائیں تو اس خطے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے بالخصوص اس خطے کی خواتین جنہیں دوسرے شہر جاکر نوکری کرنے کی اجازت نہیں ملتی اور وہ ڈگری کے باوجود کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر یہاں پر پرائیویٹ سیکٹر میں نئی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں تو اس سے نہ صرف ایک اچھے اور مثبت مقابلے کی فضا قائم ہوگی بلکہ اس سے طلبہ کو بھی معیاری تعلیم کے مواقع میسر آجائیں گے۔ یہاں میں میاں جہانگیر کی تعریف کرنا چاہوں گی کہ اس نوجوان نے جنوبی پنجاب میں پہلی پرائیویٹ ڈگری ایوارڈنگ ادارہ قائم کیا اور دوسروں کو بھی اس مارکیٹ میں آنے کی دعوت دی۔ ذرا سوچئے کہ ایک نیا پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں کتنے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کیونکہ اگر اب بھی ہم حکومتوں سے عوام کو روزگار کی فراہمی کی توقع کررہے ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ہمارے وزیراعظم صاف اور سیدھے الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ سب کو روزگار فراہم نہیں کرسکتے اور ’’روٹی تو کسی طور کھائے مچھندر‘‘ کے مصداق عوام نے تو رشتہ جسم و جاں برقرار رکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرناہی ہے اسی لئے تو آج ایم اے، ایم فل طلبہ بیلدار اور چپڑاسی کی نوکری کے لئے درخواستیں دینے پر مجبور ہیں۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی قسمت ہی اتنی خراب ہے کہ ان پڑھے لکھے مجبور نوجوانوں کو پھر بھی نوکری نہیں ملتی۔
اگر یہاں پر جنوبی پنجاب میں غربت کی شرح میں خطرناک اضافے کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو اس کی ایک بڑی وجہ بیروزگاری ہے جس کی بنا پر یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے سکولوں میں بھیجنے کی بجائے مدرسوں میں داخلہ دلوادیتے ہیں کہ چلو اس طرح ان کے بچوں کو دو وقت کی روٹی اور رہائش تو میسر آہی جائے گی اور یوں ان کا کچھ بوجھ کم ہوگا مگر حالات کے مارے غربت کے ستائے والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ جب ان کے بچے ان مدرسوں سے پڑھ کر باہر نکلتے ہیں تو وہ معاشرے میں جس شدت پسندی کو جنم دیتے ہیں اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ میں یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ تمام مدارس ایسے نہیں تاہم شدت پسندی پاکستان کاایک اہم مسئلہ بنتی جارہی ہے ۔اسی طرح سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کو زندہ جلانے کا واقعہ بھی ہمارے شدت پسندانہ سوچ کی ایک بڑی وجہ ہے اس لئے کوئی بھی ذی شعوراس حقیقت سے نظریں نہیں چراسکتا کہ بھوک چونکہ انسان کو کفر کے نزدیک لے جاتی ہے اسی لئے تو بھوکا شخص ایسے راستوں کا انتخاب کرتا ہے جہاں اسے کچھ ریلیف ملے۔ اگر ڈگریاں لینے کے باوجود بچے بیروزگار پھریں گے تو والدین اپنے بچوں کو تعلیم ہی کیونکر دلوائیں گے یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں سرکاری سکولوں سے بچوں کی ڈراپ آئوٹ کی شرح بڑھ رہی ہے۔
اگرچہ موجودہ فنی تعلیم کی ضرورت اور اہمیت پر زور دے رہی ہیں لیکن پچھلے 15، 20 برسوں میں ڈگریاں لینے والے طلبا کدھر جائیں اور کس سے نوکری طلب کریں لہٰذا وہ بیگار کیمپوں میں نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ درست ہے کہ تمام کام حکومت کے کرنے کے نہیں ہوتے بلکہ کچھ کام مخیر حضرات اور سرمایہ داروں کے کرنے کے بھی ہیں اس لئے میں جلال الدین رومی سے دست بستہ گزارش کروں گی کہ وہ اس خطے کی نوجوان نسل کے نگہبان بنیں اور یہاں LUMS جیسی انٹرنیشنل یونیورسٹی بنائیں جس سے نہ صرف اس خطے کے طلبا کو معیاری یونیورسٹی میسر آئے گی وہیں بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوانوںکو روزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔ رومی انڈسٹریز کا پاکستان میں بڑا نام ہے کیاہی اچھا ہو کہ اس خطے کے ذہین طلبا کو غیرملکی یونیورٹسیوں میں پڑھنے کے لئے سکالر شپس کا بھی اجرا کیا جائے تو یہ اس خطے پر جلال الدین رومی کا احسان عظیم ہوگا۔ رومی صاحب ہماری دھرتی بڑی محرومیوں کی شکار ہے،یہاں بڑا ٹیلنٹ ہے اگر آپ کی تھوڑی سی توجہ سے میری دھرتی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی زندگی سنور سکتی ہے تو براہ کرم اس کارخیر میں اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ میری یہ درخواست اس خطے کے جلال الدین رومی سمیت تمام سرمایہ داروں، صنعتکاروں، تاجروں، سیاستدانوں سے ہے کہ اپنے خطے کی ترقی کے لئے ہر مرتبہ حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے آیئے اس خطے کی ترقی کی نئے سرے سے بنیاد رکھیں اور دنیا کو بتائیں کہ اگر سیالکوٹ میں سیال ایئرلائنز وہاں کے لوگ شروع کرسکتے ہیں تو جنوبی پنجاب کی زرخیز زمین کے سپوت بھی اس دھرتی کا بیٹا ہونے کا حق ادا کرنے میں کسی طور بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ رومی صاحب یہ ایک نیک کام ہے آگے بڑھیئے اور اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالئے، یقین مانیے کہ آپ اگر بارش کا پہلا قطرہ بنیں گے تو بہت سے لوگ آپ سے ہمت اور حوصلہ پاکر اس میدان میں قدم رکھیں گے اور نیک کام کرنے والوں کا ساتھ تو اللہ دیتا ہے، آپ ابتدا کیجئے میرے وسیب کے باصلاحیت نوجوانوں کو منزل خود مل جائے گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ