مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شکار پر پابندی||ظہور دھریجہ

روہی میں انہیں محبوبِ حقیقی کا قرب ملتا تھا ، وہاں آپ سکون اور فرحت محسوس کرتے تھے ، اسی لئے تو اپنی شاعری میں روہی کو جگہ جگہ دُعا دی۔ روہی محض ایک صحرا نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ایک تمدن کا نام ہے ،اس تمدن کے نباتات پر غور کریں تو وہ رشک شمشاد صنوبر ہیں ، اس کے ڈوہروں کوخواجہ فریدؒ نے کوہ طور قرار دیا ہے ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک میں شکار پر پابندی کا قانون موجود ہے مگر ہمارے حکمران نہ صرف یہ کہ شکار کی اجازت دیتے ہیں بلکہ شکار کیلئے وسیع خطے بھی فارمنگ کے نام پر الاٹ کر دئیے جاتے ہیں ۔ چولستان جو کہ امن اور محبت کی سر زمین ہے اسے جانوروں اور پرندوں کی مقتل گاہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ حکومتوں اور حکمرانوں کی اپنی اپنی اغراض ہونگی ۔ سابقہ دور میں اگر کوئی قطری شہزادے نے کروڑوں روپے مٹھائی کے نام پر کسی حاکم کی بیٹی کو دیا تو یقینا یہ مٹھائی نہیں ،رشوت تھی جو کہ چولستان اور وسیب کے دیگر علاقوں میں شکار کی اجازت کے نام پر دی جاتی ہے ۔
چولستان کی عظیم سر زمین کے پس منظر کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ آپ اور ہم جس خطے کو روہی چولستان کہتے ہیں ۔ آج سے ہزاروں سال پہلے یہاں بستیاں اور شہر آباد تھے ۔ یہاں زندگی چہچاتی اور گنگناتی تھی مگر دریا ختم ہوا تو یہاں کی آبادی اور تہذیب بھی ملیا میٹ ہو گئی ۔ دریائے ہاکڑہ کے ختم ہونے کی کہانی تو نہ جانے کب سمجھ آئے مگر ستلج جس کو ہماری آنکھوں کے سامنے ختم کیا گیا اور جس تیزی کیساتھ یہ دریا بھی صحرا میں تبدیل ہوا رہا ہے ۔ مگر خواجہ فریدؒ کے بغیر اس کا نوحہ کون لکھے گا؟ یہ ایک سوال ہے ۔
اب ہم بات کرتے ہیں خواجہ فریدؒ کی روہی اور چولستان کی۔ عالمی شہرت یافتہ ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر رفیع مغل نے 1974ء سے لیکر 1977ء تک چولستان کا سروے کیا ۔ سروے کے دوران 424قدیم شہر اور بستیوں کے آثار ظاہر ہوئے ہیں اور یہ آثار تین ہزار سے چار ہزار (قبل مسیح) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر رفیع مغل نے ہاکڑہ تہذیب کو موئن جودڑو اور ہڑپہ سے بھی قدیم قرار دیا ہے اور یہاں سے ملنے والے آثار سے ثابت کیا ہے کہ روہی (چولستان) کے لوگ اعلیٰ تہذیب یافتہ تھے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر رفیق مغل کے تحقیقی کام کو بند کیوں کرایا گیا؟ یہ حقیقت ہے کہ خواجہ فریدؒ کو روہی کے حسن اور اس کی خاموشی اور سکوت سے محبت تھی ۔ وہ صحیح معنوں میں روہی شناس تھے ۔
بوئی ، پھوگ ، دھامن ، کھار ، کترن ، سنھ ، کھپ ، جال ، جلوٹے ، کرڑ ، کنڈا ، کرینہ ، گز اور گزلائی لانے کا ذکر دیوان فریدؒ میں ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا ہے اوریہ ذکر گل و گلستان سے زیادہ چاہت اور محبت کیساتھ کرکے خواجہ فریدؒ نے روہی کے ساتھ روہی کے نباتات کو بھی معتبر بنا دیا ہے ۔
دیوان فریدؒ کی کافی نمبر173کا مطالعہ کریں تو اس میں آپ کو روہی کے علاوہ کوئی دوسری بات نظر نہیں آئے گی ۔ خواجہ فریدؒ وسیب کا شاعر اور اس کی بات اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنی روہی سے جڑی ہوئی ہے اور مزید یہ کہ خواجہ فریدؒ کی بات ’’ممکن ہے‘‘ کے شبے اور عیب سے بھی پاک ہے ، اس سے ثابت ہوا کہ خواجہ فریدؒ کی شاعری آج بھی اتنی جدید اور توانا ہے کہ بڑے بڑے شاعروں کی ان کی فکر تک آج بھی رسائی نہیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ جب کسی انسان کو کسی علاقے یا خطے سے محبت ہو جاتی ہے تو اس علاقے کی ہر چیز اسے پیاری اور محبوب لگتی ہے ۔
روہی خواجہ فریدؒ کی محبوب جگہ ہے اور وہ اس سے پیار کرتے ہیں نہ صرف روہی سے بلکہ روہی کے جمادات و نباتات اور چرند پرند سے بھی پیار کرتے ہیں ۔ اونٹ زمانہ قدیم سے بار برادری اور انسانوں کی سواری کے بھی کام آ رہا ہے خصوصاً صحرائی علاقے میں جہاں گھوڑا یا دوسرے مسافر برادر جانور نہیں جا سکتے وہاں ایک اونٹ ہی ہے جو منزل مقصود تک لیجانے کا واحد سہارا ہے ۔روہی میں اونٹ کو صحرائی جہاز بھی کہا جاتا ہے ۔ اونٹ کی اہمیت یا افادیت بارے پوری دنیا کے لٹریچر میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔
صحرائے عرب پر مشتمل عربی زبان کے لٹریچر میں بھی اونٹ کی بہت تعریف کی گئی ہے مگر اونٹ سے جس محبت کا اظہار خواجہ فریدؒ نے سرائیکی زبان میں کیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی: نازو و جمل جمیل وطن دے راہی راہندے راہ سجنْ دے شالا ہوون نال امن دے گوشے ساڈٖے درد منداں دے ہن امر واقع یہ ہے کہ آج خواجہ فریدؒ کی روہی بعض شکاریوں کیلئے آماجگاہ بنی ہوئی ہے یہ لوگ شکار کی غرض سے روہی میں آتے ہیں ۔
یہ تلور کا شکار کرتے ہیں جبکہ مقامی شکاری ہرن کا، شکاریوں نے روہی کے ہرن کی نسل ختم کر دی ۔ ہر سال سائبریا سے آنیوالے قیمتی پرندے تلور کو پناہ نہیں مل رہی ۔ خوف نے کونجوں کو سخی سرور کے ’’پھیرے مارنے‘‘ سے محروم کر دیا ۔
بادشاہوں کے بادشاہ خواجہ فریدؒ روہی میں موت نہیں حیات بانٹتے تھے ۔ بندوقوں کی دہشت نہیں محبت کا درس دیتے تھے ۔ ان سے روہی کے انسان تو کیا چرند پرند بھی محبت کرتے ہیں ۔خواجہ فریدؒ کے روہی کے سفر کا جائزہ لیں تو آپ کو حیرانی ہوگی کہ آپ نے کسی ایک دن کیلئے بھی شکار کا قصد نہیں کیا اور نہ ہی آپ سیر و تفریح کی غرض سے روہی گئے ۔ یہ درست ہے کہ خواجہ فریدؒ ریت سے اَٹے روہی کے لق و دق صحرا میں جب بھی گئے عبادت کی غرض سے گئے ۔
روہی میں انہیں محبوبِ حقیقی کا قرب ملتا تھا ، وہاں آپ سکون اور فرحت محسوس کرتے تھے ، اسی لئے تو اپنی شاعری میں روہی کو جگہ جگہ دُعا دی۔ روہی محض ایک صحرا نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ایک تمدن کا نام ہے ،اس تمدن کے نباتات پر غور کریں تو وہ رشک شمشاد صنوبر ہیں ، اس کے ڈوہروں کوخواجہ فریدؒ نے کوہ طور قرار دیا ہے ۔
روہی کی ریت کے ذروں کی چمک ماہِ تاباں ہے، روہی تڑ ، تاڈے ، جھوک اور عارضی ٹھکانوں میں جائیں تو وہ انسانوں کیلئے دارالامن ہیں ۔ غرض آپ روہی کی ایک ایک چیز پر غور کریں تو آپ کو ہر ایک میں تنوع ، بانکپن اور خوبصورتی نظر آئے گی ۔آج چولستان پر نئی تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے ، دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو اس کام کیلئے آگے آنا چاہئے ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: