نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اماماں والا دروازہ(1)||وجاہت علی عمرانی

1834-35میں جب سردار نونہال سنگھ نے ڈیرہ کی باگ دوڑ سنبھالی تو سب سے پہلے اس نے نواب ڈیرہ کے لگائے گئے تمام ٹیکسوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس چونگی دروازے والی چونگی کو بھی ختم کر دیا۔

وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دریائے سندھ کے 16میل کے چوڑے پاٹ میں شدید طغیانی کے باعث سیلاب نے جب پرانے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کو مکمل غرق کر دیا تو 1824 میں نواب حافظ احمد خان نے صرف لکھی مل کے مشورے اور نقشے سے نہیں بلکہ باہر سے خصوصی طور پر کچھ ماہر تعمیرات بلائے اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ نئے شہرڈیرہ اسماعیل خان کے اردگرد 10دروازوں پر مشتمل ایک فصیل کے ساتھ ساتھ شہر کا نقشہ تیار کرایا۔ مختلف تواریخ کے کتب کے حوالے سے یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر لکھی مل چودہوان کے ایک ہندو کریانہ فروش کا بیٹا تھا اور اس کا پیدائشی نام کھوتا رام تھا۔ جب ڈیرہ شہر میں تعمیراتی کام شروع ہوا تو یہ بھی قسمت آزمانے آ گیا اور نواب کو نوکری کی درخواست کرتے وقت اس نے اپنا نام لکھی مل بتایا اور نواب حافظ احمد خان نے اسے منشی رکھ لیا۔ اسکے زمے تعمیراتی کاموں میں راج مستریوں اور مزدوروں کے کام کی نگرانی کرنا اور انکو اجرت دینا تھی اور روزانہ شام کو نواب صاحب کو حساب کتاب کا رجسٹر چیک کراناہوتا تھا۔ نواب صاحب نے اپنے بنگلے کے ایک کونے میں اسے رہنے کے لیئے کوارٹر بھی دیا۔ لکھی مل ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گفتار اور موقع شناس ہونے کی وجہ سے جلد ہی اس نے نواب کی نظروں میں ایک اچھا مقام بنا لیا اور نقشہ و تعمیرات میں بھی اس سے مشورہ کیا جانے لگا۔ اسی بنا پر تاریخ کی کتب میں اس شہر کا نقشہ ترتیب دینے والوں میں اسکا نام بھی شامل ہے۔ بہرحال نواب حافظ احمد خان کے حکم پر شہر کی فصیل اور گلی محلوں و بازاروں کی تعمیر شروع کرنے کے لیئے موجودہ بنوں اڈے پر تین اور موجودہ صدر بازار کے آغاز میں ایک کچی اینٹوں کے بھٹوں کو قائم کیا گیا تاکہ فصیل اور دوسری تعمیرات کے لیئے کچی اینٹیں اور چویڑی کے لیئے مٹی حاصل کی جا سکے۔
موجودہ اماماں والا دروازہ ڈیرہ اسماعیل خان کے دوسرے دروازوں کی نسبت تاریخی طور پرزیادہ اہمیت رکھنے کے علاوہ مختلف ادوار میں اسکے مختلف نام جاننے کے لیئے ہمیں ماضی قدیم کی تاریخ کو ساتھ ل کر چلنا ہو گا۔ اوائل میں موجودہ گھاس منڈی تا لیاقت پارک اور اماماں والے دروازے تک یہ ایک وسیع و عریض خالی میدان تھا۔ اس وقت یہ علاقہ رہائشی آبادی سے دورسنسان اور شہر سے باہر تصور کیا جاتا تھا۔ نئے نقشے کے مطابق موجودہ گرلز ڈگری کالج والی جگہ پر ایک بارہ دری پہ مشتمل عالیشان نوابی باغ اور اصطبل بنایا گیا۔ نوابی باغ وقت کے ساتھ ساتھ بنگلی باغ سے جانا جاتا رہا۔ اس باغ اور اصطبل کے ملحقہ علاقے میں نواب صاحب نے گھائیوں (گھاس اگانے اور کاٹنے والوں) کو آباد کیا، تاکہ گھوڑوں اور دوسرے جانوروں کے لیئے چارہ حاصل کیا جا سکے۔ 1825میں نواب حافظ احمد خان کی وفات کے بعد نواب شیر محمد خان نے ذاتی و فوجی گھوڑوں کی تعداد میں اضافے کے باعث اصطبل میں گھاس رکھنے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ گھاس منڈی کے میدان میں گھاس کے کھلے گودام کے لیئے جگہ مختص کر دی۔ گھئی کچھ گھاس اسی اصطبل میں پہنچاتے اور کچھ گھاس کو اسی گودام میں پہنچاتے۔ اس گودام کے ساتھ موجودہ رحیم بازار اور توپاں والے بازار کی طرف نواب صاحب نے ایک باغ اور ایک شاندار رہائش بھی تعمیر کی۔ گھاس منڈی تا لیاقت باغ اور اماماں والے دروازے تک وقت کے ساتھ ساتھ یہ میدان ایک منڈی کی صورت اختیار کر گیااور اردگرد کے مضافات کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان میں شمالی طرف (موجودہ چشمہ و بنوں روڈ) سے مختلف بستیوں، علاقوں اور شہروں سے سامان لانے والے تاجر اونٹوں پر اپنا سامان لاتے۔ میدان میں اپنے اونٹ ٹھہراتے اور سامان اتارتے۔ اسی میدان میں گھاس کے ساتھ ساتھ کمہاروں نے مٹی کے برتن بنانے، گھوڑوں، اونٹوں اور دوسرے پالتو جانوروں کی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نعل بند، اونٹوں والے جت، جانوروں کے بال کاٹنے والے نائی و کاتری۔ زینیں، لگامیں، رکابیں، کچاوے و بودے اورسجاوٹی سامان بیچنے والے، گھوڑوں، اونٹوں، بیلوں کو نتھ و لگامیں ڈالنے والے اور خاص کر کچے کے مہانڑے ملاح اور خلاصی مشکوں و سندھاریوں میں اپنا لایا گیا دیسی گھی، گُڑ اور دودھ بیچنے کے لیئے اپنی عارضی دکانیں سجانے لگے۔ نئے ڈیرے کی تعمیر اور فوج کے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے نواب نے عام عوام اور سامان لانے والے تاجروں پرنئے ٹیکس لاگو کر دیئے۔ مضافات سے اونٹوں یا دوسرے جانوروں کے زریعے سے بھی سامان لانے والوں سے ٹیکس وصول کرنے کے لیئے اسی موجودہ اماماں والے دروازے پر پہلی چونگی قائم کی گئی۔ جہاں نواب کے ملازمیں باقاعدہ طور پر ان تاجروں سے ٹیکس وصول کرتے۔ اسی چونگی کی وجہ سے جلد ہی عوام میں پہلے پہل یہ "چونگی دروازہ” مشہور ہو گیا۔
1834-35میں جب سردار نونہال سنگھ نے ڈیرہ کی باگ دوڑ سنبھالی تو سب سے پہلے اس نے نواب ڈیرہ کے لگائے گئے تمام ٹیکسوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس چونگی دروازے والی چونگی کو بھی ختم کر دیا۔ 1836 میں قلعہ اکال گڑھ جیسے بڑے تعمیراتی منصوبے میں استعمال ہونے والی پختہ اینٹوں کے لیئے اسی اماماں والے دروازے کے ساتھ صدر بازار کے آغاز والے اینٹوں کے بھٹے کو سردار نونہال سنگھ نے اپنے خاص کاریگروں کے زریعے کچی اینٹوں کی بجائے سب سے پہلے پختہ اینٹوں والے بھٹے میں تبدیل کر دیا۔ پختہ اینٹیں بنانے کے لیئے دریا سے خاص چیکنڑی مٹی لائی جاتی۔سیم سے بچاؤ کے لیئے مٹی میں تیل اور سینڑی کے ریشے ملا کر پھر پختہ گوگڑا اینٹیں تیار کی جاتیں۔ اسی اماماں والے دروازے کے نزدیکی بھٹے کی سپلائی کی ہوئی پختہ گوگڑا اینٹوں سے قلعہ اکال گڑھ کی تعمیر ہوئی۔ سردار نونہال سنگھ نے قلعہ اکال گڑھ کی تعمیر میں چونے کے استعمال کے لیئے اسی اماماں والے میدان کے اندر کئی ایک چونے کی بھٹیاں قائم کیں، جہاں سے چونا تعمیراتی مقاصد کے لیے قلعہ اکال گڑھ کو سپلائی ہوتا تھا۔ بھٹوں اور چونا بنانے کے کام کے لیئے ماہر کاریگر سردار نونہال سنگھ خصوصی طور پر پنجاب سے لایا تھا، جنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ موجودہ بنوں اڈے کے ساتھ والے کچی اینٹوں کے بھٹوں کو بھی پختہ اینٹوں کے بھٹوں میں تبدیل کیا اور مقامی لوگوں کو بھی یہ فن سکھایا۔ 1836تک لوگوں میں چونگی دروازے کے نام سے مشہور یہ دروازہ وقت کے ساتھ اس پہلے پختہ اینٹوں والے بھٹے کی وجہ سے "بھٹہ دروازہ” مشہور ہوگیا اور پکارا جانے لگا۔ (جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

About The Author