حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ میں ’’کالا کالا منہ کالا‘‘ کا کھیل شروع ہوچکا، بھائی الطاف حسین کے باغی نئی آب و تاب کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا فیصلہ کئے بیٹھی ہے۔ گزشتہ روز ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینئر عامر خان نے پاکستانی تاریخ کے اس حصے کے اوراق الٹے جس پر کبھی اتفاق رائے نہیں رہا۔
پھر قربانیوں کی داستان، مظلومیت کی دہائی پاکستان بنانے کا احساس اور مہاجر ہونے پر فخر کا اظہار کیا۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے سنجیدہ مکالمہ ہمیشہ سے زہر قاتل سمجھا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک نہیں سمجھ پائے کہ پاکستان جس سرزمین پر بنا اس کے لوگوں کا باقی ماندہ ہندوستان کے لوگوں پر احسان ہے کہ انہوں نے پاکستان کو قبول کرنے کے ساتھ مہاجرین کو کھلے دل سے قبول کیا یا متحدہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا ان پر احسان ہے کہ انہوں نے انہیں ایک ملک بناکر دیا اور پھراپنی تاریخ، تہذیب اور زبان کو مقامیت سے زیادہ مقدس بناکر پیش کیا؟
یہ سوال اس وقت تک رہے گا جب تک کھلے دل سے مکالمہ نہ ہو۔ ہمارے ایک دوست احمد شفیق تو کہتے ہیں ” بنگالیوں نے احسان کی چادر اتار کر راستہ الگ کرلیا آج دیکھیں وہ معاشی طور پر کہاں کھڑے ہیں اور ہم احسان کے مارے ہوئے کہاں دھکے کھارہے ہیں”۔
ان سطور میں ہمیشہ عرض کیا قیام پاکستان کہہ لیجئے یا بٹوارہ یہ درست تھا یا غلط، اس پر بحث اٹھانے کی بجائے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟
ایک طریقہ تو یہی ہے جس پر عمل کروایا جارہا ہے۔ سسک سسک کر بڑھتے چلو اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عدل و انصاف، مساوات، سماجی شعور، حقیقت پسندی، اچھا یہ سب ہوں تو ایک قومی جمہوریت والی ریاست ہوگی۔ قومی جمہوریت والی ریاست ظاہر ہے رعایا کے عوام بنے بغیر تشکیل نہیں پاسکتی۔
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ خبطِ عظمت کی پھکیاں بھی فروخت نہ کی جائیں۔ مثلاً میں عرض کردوں مجھے اردو زبان سے کوئی عداوت نہیں ملک میں آباد مختلف قومیتوں کے لوگ اسے سمجھتے بولتے لکھتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی زبان بھی یہی ہے اور ہمارے درمیان رابطے کی زبان بھی۔ مقامی زبانوں کو ذرائع ابلاغ کی زبان بننے سے کس نے روکا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔
البتہ میں ایک طالب علم کے طور پر اردو بولنے والے( اس سے مراد وہ دوست ہیں جو خود کو مہاجر اور اردو کا وارث کہتے ہیں،) دوستوں سے متفق نہیں ہوں کہ انہوں نے ہمیں تہذیب و تمدن سے روشناس کروایا۔
وجہ صاف ہے آپ موجودہ پاکستان کی 1947ء سے قبل کی تاریخ کے اوراق الٹیے۔ اس سرزمین نے کتنی تہذیبوں کا عروج دیکھا۔ ملتان، موہنجوداڑو، ہڑپہ، گندھارا معروف تہذیبوں کے نام ہیں ان سے قدیم ہاکڑہ تہذیب ہے اس پر چونکہ تحقیق نہیں ہوئی اس لئے خود تاریخ کے طلباء بھی اس بارے بہت کم جانتے ہیں۔ جب یہ تہذیبیں اپنے عروج پر تھیں تو اردو کا دور دور تک کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
موجودہ جغرافیائی حد بندی میں سب سے قدیم ملتان ہے۔ معلوم تاریخ کے حساب سے لگ بھگ سات ہزار برس قبل توحید پرست راجہ پرہلاد اس کے حکمران تھے۔ ظاہر ہے کہ ملتان اس سے قبل بھی ہوگا۔ بھگوت گیتا اور رامائن کی دیومالائی کہانیوں پر یقین کریں تو پھر ہزاروں سال لاکھوں برسوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم جو یہاں بٹوارے سے قبل رہ رہے تھے تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے ورثوں کی دولت سے مالامال تھے، ایسا نہیں ہے کہ 14اگست 1947ء سے قبل کی انسانی تہذیب میں ہمارا کوئی حصہ ہی نہیں تھا یا ہم بے چہرہ لوگ تھے اور 14 اگست 1947 کو ہمیں تاریخی و تہذیبی چہرہ مل گیا۔
یہ ملک اسلام کے نام پر بنا یا اس بات پر کہ ہندو اکثریت مسلم اقلیت کے حقوق غصب کرے گی؟
اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں ، مکالمہ البتہ مختلف چیز ہے مگر ہم اس کے ظرف سے محروم ہیں۔ یہ محرومی سازش کے تحت پیدا کی گئی تاکہ ہم اپنے اصل کے کٹ کر سرابوں کے پیچھے بھاگتے رہیں۔
ہم مقامیوں کو دکھ اس وقت ہوتا ہے جب ساری خرابیوں کا ذمہ دار ہم اور اچھائیوں کے وہ قرار پاتے ہیں۔ جن کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ہم نے بنایا ہے۔ ویسے ایک حساب سے ہم مقامی اور یہ دوست برابر ہیں وہ اس طرح کہ اس ملک میں چار بار فوجی حکومتیں آئیں۔ دو بار مقامی جرنیلوں ایوب اور یحیٰی خان کی اور دو بار مہاجر جرنیلوں ضیا الحق اور پرویز مشرف کی۔
اس جملے پر ناراض ہونے کی بجائے اس کا لطف لیجئے۔
ہجرت دو طرح کی ہوتی ہے ایک یہ کہ لوگ جہاں رہ رہے ہوتے ہیں وہاں موجود جبرواستبداد سے تنگ آکر نقل مکانی کرتے ہیں دوسری ہجرت اس لئے ہوتی ہے کہ چونکہ یہاں ہمارے معاشی و سیاسی مفادات محفوظ نہیں ہم نقل مکانی کرتے ہیں۔
1947ء کے بٹوارے کے بعد ہونے والی ہجرت، ہجرت کے دوسرے اصول پر پورا اترتی ہے، متحدہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ آزادی متحدہ ہندوستان کو ملی تو غالب ہندو اکثریت ان کے حقوق پامال کریگی، بٹوارے کی بنیاد اسی سوچ نے رکھی
اسی لیے طالب علم کی حیثیت سے ہمیشہ عرض کیاکہ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ 14اگست 1947 کو آزادی ملی یا ہندوستان کے دو بڑے مذاہب کے سیاستدانوں نے بٹوارے پر "اتفاق” کیا اس وقت تک ہم حقیقت حال کو سمجھ نہیں سکتے، ہم مقامیوں کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی امرمانع نہیں کہ اردو نے ہمیں سید سبط حسن، شوکت صدیقی، ابن انشا، جمال احسانی ، معراج محمد خان دیئے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہم نے بھی اردو کو فیض ، فراز، علی عباس جلالپوری، محسن نقوی اور قسور گردیزی دیئے، سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جھگڑا اس کا نہیں کہ انہوں نے کیا دیا اور ہم نے کیا دیا لیا،
طے یہ ہونا ہے کہ چالیس پچاس لاکھ مہاجرین کیلئے مقامی اکثریت اپنی تاریخ و تہذیب اور ثقافت کو چھوڑ دے یا آنے والے مقامیت میں رچ بس جائیں، لیکن یہاں تو مقامیت سے انکار ہی نغمہ اول ہے،
جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ پدرم سلطان بود کے نغمے الاپنے کی بجائے زمینی حقیقتوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا، بٹوارے کو ٓ74برس ہوگئے، یہاں قبرستان، محلے اور بازار سانجھے ہیں سیاسی و معاشی مفادات بھی ہمیں ایک دوسرے کے گلےکاٹنے یا کپڑے اتارنے کی بجائے مل کر قومی جمہوریت کے قیام کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی،
یہ اسی صورت ممکن ہے جب نفرت بھری شدت پسندی کے بیج سے بوئی تعصبات کی فصلوں کو رزق بنانے کی بجائے اپنے عصری شعور سے کام لیں،
ایسی بحث نہ اٹھائیں جو تلخیوں کو جنم دیں، اس ملک کے لوگوں کو انصاف اور مساوات پر مبنی ایسے نظام کی ضرورت ہے جو رجعت پسندی ، استحصال ، لشکر پسندی سے برات کا اظہار کرے اور عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم ، ورنہ لڑتے رہیں اس لڑائی جھگڑے اور نفرتوں کا فائدہ ان استحصالی طبقات کو ہوگا جو 74برسوں سے ہم پر مسلط ہیں۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر