بیٹی ذرا سیانی ہوئی تو میری بیوی نے اس سے کہا کہ وہ آٹا گوندھے اور روٹی پکائے۔ بچی صبح اسکول جاتی تھی اور شام کو ہوم ورک کرتی تھی۔ اس نے کبھی باورچی خانے میں قدم نہیں رکھا تھا۔ ماں کے کہنے پر تسلہ سنبھالا اور آٹے میں زیادہ پانی ملا دیا۔ ماں نے بے نقط سنائیں۔ آٹا جیسے تیسے گندھ گیا۔ لیکن جب بچی نے روٹی پکانے کی کوشش کی تو کبھی جل گئی، کبھی کچی رہ گئی۔ ماں نے خوب لتے لیے۔ بچی روہانسی ہوکر بولی، ’’پہلے روٹی پکانا سکھائیں، پھر امتحان لیں۔ جب سکھایا نہیں تو ڈانٹ کیوں رہی ہیں؟‘‘
یہ سب واردات ہوتے دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا۔ آج کل میں کچھ زیادہ ہی سوچنے لگا ہوں۔ خاص طور پر جب سے پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کا بل منظور کیا گیا ہے، مجھ سمیت بہت سے لوگ بہت کچھ سوچ رہے ہیں۔
یہ مردوں کی دنیا ہے۔ اسے، خدا کے تخلیق کرنے کے بعد، مردوں ہی نے ترتیب دیا ہے۔ مردوں ہی نے جنگل کاٹے ہیں، شہر تعمیر کیے ہیں، بستیاں بسائی ہیں، حکومت کی ہے، فوجیں بنائی ہیں، جنگیں لڑی ہیں، نظریے تخلیق کیے ہیں، کتابیں لکھی ہیں۔ سب کچھ کیا ہے اور یہ بھی کہ خواتین کو غلام بنا کر رکھا ہے۔ کچھ سے شادی کی ہے اور کچھ کے سودے کیے ہیں۔
اب جبکہ یہ دنیا ٹھیک سے ترتیب پا گئی ہے اور مردوں نے اسے امن کا گہوارہ بنا کر ترقی کی منازل طے کر لی ہیں تو عورت ذات اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور مرد کے برابر کا رتبہ مانگ رہی ہے۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی! خواتین نے ہزاروں سال کی معلوم تاریخ میں کیا کارنامے انجام دیے ہیں؟ بہت سے غیر اہم کاموں کے علاوہ اگر اس نے کوئی کام کیا ہے تو بس یہ کہ مرد پیدا کیے ہیں۔
ٹی وی نیوز ترتیب دیتے ہوئے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ خاتون اینکر کے سوا، میرے بلیٹن میں خواتین کے نام پر کیا شامل ہے؟ کوئی اچھی خبر؟ ملالہ یوسف زئی روز نوبیل انعام حاصل نہیں کرتیں۔ شرمین عبید چنائے روز آسکر نہیں لاتیں۔ نرگس ماول والا روز خالق کائنات کی ہنسی نہیں سنتیں۔ برسوں عشروں میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ باقی دنوں، ہفتوں، مہینوں میں روزانہ چوبیس گھنٹے مردوں کے بیانات، الزامات، کارناموں اور وارداتوں کی شہ سرخیاں لکھنا پڑتی ہیں۔
ہاں، ایک خبر ضرور گاہے گاہے کسی نہ کسی شہر سے آتی ہے۔ پانچ سالہ یا دس سالہ یا پندرہ سالہ یا بیس سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کی خبر۔
ہم اپنی لغت کے ساتھ کیسی زیادتی کررہے ہیں؟ اچھے بھلے الفاظ کو گالی بنادیتے ہیں۔ شاید یہاں مناسب لفظ بے حرمتی ہے۔
میں یہ بتارہا تھا کہ محترم خواتین پر ظلم کی خبریں تواتر سے آتی ہیں اور وہ نشر بھی کی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ خبریں خواتین کے بارے میں ہوتی ہیں لیکن ہم اپنے گھروں میں انھیں اپنی خواتین سے چھپانا چاہتے ہیں۔ میں ایسے موقع پر یہ کرتا تھا کہ ریپ کی خبر خاتون اینکر کے بجائے مرد اینکر سے پڑھواتا تھا۔ اتفاق سے ایک بار میں نے خواتین صحافیوں کے ایک سیمنار میں شرکت کی۔ وہاں ایک اینکر نے اس بات پر غم و غصے کا اظہار کیا کہ پروڈیوسر ریپ کی خبر ان سے کیوں نہیں پڑھواتا۔ انھوں نے کہا کہ عورت پر ظلم کی خبر اگر عورت سے پڑھوائیں گے تو وہ مرد کی طرح لاتعلقی کے انداز اور سپاٹ لہجے میں نہیں پڑھے گی بلکہ اس کے وجود کی ساری ناراضی اور سارا غصہ اس خبر میں شامل ہوجائے گا۔
میری سمجھ میں وہ بات بھی آگئی اور کسی حد تک عورت ذات بھی۔
لیکن خاتون سے زیادتی کیا صرف ریپ کی صورت میں کی جاتی ہے؟ کیا اسے تعلیم کا مساوی حق نہ دینا زیادتی نہیں؟ کیا اسے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دینا ظلم نہیں؟ کیا اسے اپنی پسند کی ملازمت یا کاروبار کرنے کا موقع نہ دینا ناانصافی نہیں؟ کیا اسے زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا اختیار نہ دینا جبر نہیں؟
کچھ لوگوں کو خوف ہے، اور وہ کھل کر اس کا اظہار کررہے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں قانون کی منظوری کے بعد خواتین حاکم بن جائیں گی اور مرد محکوم ہوجائیں گے۔ خواتین گھر سے نکلیں گی تو ان سے پوچھ نہیں سکیں گے کہ وہ کہاں جارہی ہیں؟ خواتین رات کو دیر سے گھر آئیں گی تو ان سے سوال نہیں کرسکیں گے کہ وہ کہاں سے آرہی ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ خواتین پر شک کا بیج پہلے سے دل میں ہے۔ اس کا کسی نئے قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ کبھی غور کریں کہ یہ سوال کون لوگ اٹھا رہے ہیں؟
یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے ویسے مواقع فراہم نہیں کرتے جیسے اپنے بیٹوں کو دیتے ہیں۔ وہ اپنی بیٹیوں کی ویسی تربیت نہیں کرتے جیسی اپنے بیٹوں کی کرتے ہیں۔ وہ اپنی بیٹیوں کو اتنی آزادی نہیں دیتے جتنی اپنے بیٹوں کو دیتے ہیں۔ جب کوئی لڑکا کچھ برا کرتا ہے تو وہ اس کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کرتے جیسا لڑکی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
کوئی مذہب، معاشرتی نظریہ، معاشرہ اور ریاست ظلم کی حامی نہیں ہوسکتی، سوائے اس کے کہ اسے مٹ جانے کا شوق ہو۔ یہ افراد ہوتے ہیں جو اپنی ناقص عقل کی بنیاد پر دوسروں کو ناقص العقل ٹھہراتے ہیں اور انسانوں میں تفریق کرتے ہیں۔
اگر آُپ نے اپنی بچی کو اچھا برا سمجھا دیا ہے تو آپ کا کام ختم ہوا۔ اب لڑکی اپنی پسند سے تعلیم حاصل کرنا چاہے تو یہ شکر کا موقع ہے کہ اسے علم کی اہمیت کا احساس ہے۔ لڑکی کوئی ملازمت کرنا چاہے تو یہ خوشی کا مقام ہے کہ وہ اپنی تعلیم اور تجربے سے معاشرے کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ لڑکی اپنی پسند سے شادی کرنا چاہے تو یہ بے عزتی نہیں، آپ کے خاندان کے شخصی آزادی پر یقین کا ثبوت ہے۔
اور اگر لڑکی نے آٹا ٹھیک نہیں گوندھا، یا روٹی جلادی ہے یا کچھ اور غلط کر بیٹھی ہے تو سزا دینے سے پہلے یاد رکھیں، آپ اس غلطی میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ آپ نے اس کی تربیت ٹھیک نہیں کی۔ بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں ناکام شخص کو غصہ دکھانے اور کسی کو سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ