کیا یہ بات کسی اعزاز سے کم ہے کہ آپ کا نام اور جون ایلیا کا نام کسی رسالے میں ایک ساتھ شائع ہو؟
میں ابھی اسکول میں پڑھتا تھا کہ لیٹر ٹو دی ایڈیٹر لکھنا شروع کردیے۔ اِدھر اُدھر تو بھیجتا ہی تھا، سسپنس ڈائجسٹ کو بھی بھیجنے لگا۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایک دن اس ادارے میں بیٹھ کر دوسروں کے خطوط چھانٹوں گا۔ لیکن وہ بہت بعد کا واقعہ ہے۔ اسکول کالج کے دنوں میں خط بھیجتا رہا اور چھپتے رہے۔ اب پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ ان دنوں سسپنس کا آغاز جون ایلیا کے انشایئے سے ہوتا تھا اور کہانیوں سے پہلے قارئین کے خطوط والے صفحات پر چند سطروں کے ساتھ میرا نام چھپ جاتا تھا۔
چھ محرم کی ایک سہہ پہر بھی یاد ہے کہ جب کراچی کے علاقے رضویہ میں امروہے والوں کا جلوس مقررہ راستوں پر رواں دواں تھا۔ آگے آگے جون ایلیا اور ان کے مصرعہ بردار۔ پیچھے پیچھے، ننگے پاؤں یہ عزادار۔
جون صاحب اپنی زندگی میں ہی افسانہ بن گئے تھے۔ امروہے والے ان کے کچھ اور قصے سناتے تھے، باہر والے کچھ اور۔ امروہے والے اپنے سوا پوری دنیا کے سات ارب پندرہ کروڑ افراد کو باہر والا کہتے ہیں۔ میرے دادا اور نانا امروہے کے نجیب الطرفین سید تھے اس لیے مجھے اندر کا آدمی سمجھیے۔
ایک بار گھر میں تذکرہ ہوا تو میرے ماموں نے بتایا کہ وہ اور جون صاحب امروہے میں ہم جماعت تھے۔ آٹھویں تک دونوں کا ساتھ رہا۔ جون ایلیا اس وقت بھی سکہ بند شاعر تھے۔
جون صاحب سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ میں نے جاسوسی ڈائجسٹ پبلی کیشنز، وہ ادارہ جو سسپنس ڈائجسٹ چھاپتا ہے، میں نوے کی دہائی میں وقفے وقفے سے دو بار ملازمت کی لیکن جون صاحب کو کبھی وہاں نہیں دیکھا۔ ان دنوں جاسوسی کا دفتر رمضان چیمبرز میں تھا۔ یہ عمارت آئی آئی چندریگر روڈ پر روزنامہ جنگ کی عقبی گلی میں ہے۔ جنگ کی اپنی گلی میں پریس چیمبرز نام کی عمارت ہے جہاں سب رنگ ڈائجسٹ کا دفتر تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ جون ایلیا کا بہت سا وقت سب رنگ کے دفتر میں شکیل عادل زادہ کے ساتھ گزرا۔
جون صاحب کے انتقال کے دس سال بعد میں نے اس دفتر میں جانا شروع کیا۔ وہاں شکیل صاحب کے علاوہ ان کے مہمان اور پرستار انیق احمد سے بھی ملاقات ہوجاتی تھی۔ میں دونوں سے کرید کرید کر جون صاحب کے بارے میں دریافت کرتا تھا۔ شکیل عادل زادہ اور انیق احمد کے پاس جون صاحب کی بہت یادیں ہیں۔ ان کا بہت وقت جون صاحب کی ناز برداری میں گزرا۔ وہ ان کی بہت سی شاعری کے پس منظر سے واقف ہیں۔
خدا بھلا کرے خالد احمد انصاری کا، جنھوں نے نہ صرف جون ایلیا کی شاعری بلکہ سسپنس کے انشائیوں سمیت ان کی نثر بھی کتابی صورت میں چھاپ دی۔ میں نے شاید، یعنی، گمان، لیکن اور گویا کے عنوان سے شعری مجموعے اور فرنود کے نام سے نثر کی کتاب حفظ کرلی۔ اب مجھے کچھ کچھ جون ایلیا سمجھ آنے لگے۔
لیکن جون صاحب کی شاعری اور نثر پڑھنے اور ان کے دوستوں کی گفتگو سننے کے باوجود کچھ کسر باقی تھی، کچھ سوال تشنہ تھے، کچھ کہانیاں وضاحت طلب تھیں۔ گھر کی گواہی باقی تھی۔
ایسے میں رئیس امروہوی کی منجھلی بیٹی شاہانہ نے چچا جون کے نام سے اپنی یادداشتیں لکھ دیں۔ یہ کتاب گزشتہ ماہ شائع ہوئی ہے اور جون ایلیا کو بازار میں لے آئی ہے۔
جون ایلیا کے پہلے مجموعہ کلام شاید کا دیباچہ اردو کے بہترین نثر پاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے والد شفیق حسن ایلیا کا ذکر کیا، امروہے سے ہجرت پر دکھ کا اظہار کیا اور اپنی تلخ زندگی کی چند جھلکیاں دکھائی تھیں۔ شاہانہ رئیس ایلیا ہمیں اپنے ساتھ امروہے لے جاتی ہیں۔ وہ ہماری ملاقات شفیق حسن ایلیا اور ان کی محروم اور مجبور بیوی سے کراتی ہیں۔ میں جنگ کے پہلے ایڈیٹر سید محمد تقی کے بارے میں بھی جاننا چاہتا تھا لیکن ان کی بس پرچھائیں دکھائی دی۔ رئیس امروہوی سے سرسری ملاقات ہوئی لیکن جون ایلیا اپنی تمام تلخ نوائی اور شدید اذیت پسند طبعیت کے ساتھ کھل کر سامنے آگئے۔
شاہانہ صاحبہ نے یہ کتاب جون ایلیا کو مخاطب کرکے لکھی ہے۔ یوں کہ جیسے وہ اپنے چچا کو سب باتیں سنارہی ہیں۔ یہ یادداشتیں مرتب کرنے کا انوکھا انداز ہے۔ کتاب قاری کو مخاطب کرکے لکھی جاتی ہے، کسی دوسرے کو مخاطب کرنے میں یہ خطرہ رہتا ہے کہ قاری لاتعلق نہ ہوجائے۔ لیکن کم از کم میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ کہیں کہیں تو یوں لگا کہ شاہانہ درمیان سے نکل گئی ہیں جس کے بعد میں اور جون صاحب ایک دوسرے کو حیرت سے تکتے رہ گئے۔
جون صاحب نے کتنے عشق کیے، شادی کیوں ناکام ہوئی، مکان بیچنے کا قصہ کیا تھا، ان سے ملنے کو آنے والی ایک لڑکی نے کیوں خودکشی کرلی، یہ سب واقعات پڑھنے والا دم بخود رہ جاتا ہے۔
ایک واقعہ، جس کے مرکزی کردار جون صاحب نہیں، پڑھ کر میں بے حد افسردہ ہوا۔
اس سے پہلے یہ سنیں کہ میری نانا اور نانی تقسیم ہند کے بعد امروہے سے پاکستان آگئے تھے۔ نانی اماں کے واحد سگا بھائی امروہے ہی میں رہے۔ میری والدہ قیام پاکستان کے بعد یہاں پیدا ہوئیں۔ ایک بار میں نے امی سے پوچھا کہ کیا آپ کی کبھی اپنے سگے ماموں سے ملاقات ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا، نہیں۔ اس نہیں میں بہت عجیب سی حسرت تھی۔ میں نے دیکھا کہ نانی اماں اکثر اپنے بھائی کو یاد کرکے روتی تھیں۔ دونوں طرف غربت کا یہ عالم تھا کہ نہ کبھی نانی امروہا جاسکیں اور نہ ان کے بھائی پاکستان آسکے۔ 1984 کی ایک دوپہر کراچی سے آنے والے ایک مہمان نے بتایا کہ نانی کے بھائی کا امروہے میں انتقال ہوگیا۔
یہ خبر سن کر اماں کیسے تڑپ کر روئیں، میں بیان نہیں کرسکتا۔
یہ بظاہر غیر متعلق بات میں نے اس لیے لکھی ہے کہ میں بچھڑے ہوئے خاندانوں کا دکھ جانتا ہوں، اسے محسوس کرسکتا ہوں۔ شاہانہ صاحبہ نے لکھا ہے کہ رئیس امروہوی پاکستان آگئے اور ان کی والدہ امروہے میں رہ گئیں۔ وہ وہاں فریاد کرتی رہیں لیکن نہ ان کے شوہر انھیں پاکستان لائے، نہ رئیس امروہوی نے ماں کی خبر لی۔ بوڑھی ماں برسوں تڑپ تڑپ کر مرگئی۔ بہت سال بعد جب رئیس صاحب امروہے گئے تو دیواروں سے لپٹ لپٹ کر، تڑپ تڑپ کر ویسے ہی روئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ