سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان سیاست کی طلاطم خیزی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آئے روز ایک کے بعد ایک ایسا بھونچال سامنے آرہا ہے کہ دماغ مائوف ہوکر رہ جاتا ہے کہ اب تو کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی۔ پاکستان اس وقت جس تکلیف دہ دور سے گزر رہاہے اس پر ہر پاکستانی تو مضطرب ہے لیکن دوسری طرف حکومت کی نااہلی اور اپوزیشن کی بے حسی انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک و قوم پر افتاد ٹوٹ پڑی ہے اور وہ کسی بڑے ریلیف کے منتظر ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ملک کی سیاست آڈیوز اور ویڈیوز کے گرد ہی گھوم رہی ہے کہ روز ایک نئی آڈیو منظرعام پر آجاتی ہے اور ساتھ ہی عوام کو یہ مطلع کردیا جاتا ہے کہ مزید سنسنی خیزی کے لئے انتظار فرمائیں یعنی اب عوام مہنگائی کے تھپیڑے کھانے کے بعد سیاستدانوں کی کسوٹیوں کے لئے بھی تیار رہیں کیونکہ اب ہر طرف یہی شور ہے کہ کل کس کی ویڈیو آئے گی اور سیاستدانوں کے پاس کس کس کی ویڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں۔ اور جو اس ملین ڈالر سوال کا صحیح جواب دے اس کی واہ واہ ہوجاتی ہے۔ ان تمام تر حالات میں جب سیاستدان ایک دوسرے کے کپڑے سرعام اتار رہے ہیں اور عوام نامی مخلوق کو مہنگائی کے زہر آلود تھپیڑے کھانے کے لئے چھوڑدیا ہے تو ایسے میں عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر ایک ایسا سسٹم جس کے لئے انہوں نے بڑی طویل جدوجہد کی یہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کی پاسداری اور مضبوطی کے ساتھ ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ بھی بڑی شدومد سے لگاتی ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جن عوام کے ووٹوں سے وہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہیں، بارے قطعاً کوئی پروا نہیں اسی لئے تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مہنگائی کا معاملہ ہو یا آڈیو ٹیپس کا، اس سارے معاملے میں عوام کہیں بھی نظر نہیں آتے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ وہ لوگ جن کے ووٹوں سے سیاستدان ایوان تک پہنچتے ہیں ان کو بھولنے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہیں کرتے اسی لئے تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف یکم دسمبر سے مہنگائی کا بدترین سیلاب آئے گا۔ کی اطلاع دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جبکہ کوئی اس بارے سوچنے کی فکر نہیں کرتا کہ حکومت نے 350ارب روپے کا منی بجٹ تیار کرنے کے ساتھ نئی ٹیکس مراعات بھی ختم کردی ہیں لیکن مجال ہے کہ اپوزیشن کو اس موقع پر عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی زحمت بھی ہو۔ پاکستانی عوام کے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ تحریک انصاف کی وہ حکومت جس سے انہیں بہت امیدیں اور توقعات تھیں، اس نگوڑی اپوزیشن کو عوام کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر پڑی ہوئی ہے جس کا واضح ثبوت شہباز اور حمزہ کا اسلام آباد میں موجود ہونے کے باوجود عوام کے لئے کچھ نہ کرنا ہے لیکن اپنے لئے این آر او حاصل کرنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ شہباز شریف آج کل جس خاموشی کے ساتھ اپنا راستہ سیدھا کرنے کی دھن میں لگے ہوئے ہیں اس لئے تو وہ خاموش ہیں جبکہ عوام کے اندر ایک ایسا طوفانی شور ہے کہ اب تو انہیں کوئی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔
حکومت کو عوام اس لئے اقتدار میں لائی تھی کہ وہ ان کے مسائل حل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ تحریک انصاف بھی اپنے پیش روئوں کی ڈگر پر چل نکلی اور خود کو آج بھی اپوزیشن موڈ میں رکھے ہوئے ہیں اور اسے عوام کے مسائل سے زیادہ اپوزیشن کو لتاڑنے میں ہی مزہ آرہا ہے جبکہ عوام نامی مخلوق کے بارے میں سوچنے کے لئے وزیراعظم کے پاس وقت ہی نہیں لیکن وہ اخلاقیات کے بڑے لمبے چوڑے بھاشن ضرور دیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بھوک انسان کو کفر کے نزدیک لے جاتی ہے۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے اسے کوئی سبیل نظر نہیں آتی تو وہ دوسری طرف یعنی منفی کاموں بارے سوچتا ہے۔ان حالات میں جب حکومت عوام سے زندہ رہنے کا خراج لینے کی حکمت عملی پر عمل پیراہے تو ایسے میں عوام حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ابھی چند روز قبل پنجاب حکومت کے اراکین اسمبلی کی مراعات میں اضافہ کیا گیا ،آخر کیا ایسی مجبوری آن پڑی کہ عوام کے نمائندوں کو اس مشکل معاشی حالات میں بھی ریلیف فراہم کرنا پڑا۔ اسی طرح بیوروکریسی، سیاستدان، عدلیہ اور فوج جیسے اہم اداروں میں اگر مراعات مشکل معاشی حالات کے پیش نظر ختم کردی جائیں تو خزانے کو ایک خطیر رقم ماہانہ بنیادوں پر میسر آسکتی ہے۔ اگر یہاں پر بات بیوروکریسی کی کی جائے تو 17ویں گریڈ سے لے کر 21ویں گریڈ کے افسران گاڑیوں، پٹرول کے ساتھ دیگر مد میں بھی مزے لوٹ رہے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ سب معاشی مشکلات کے شکار ملک کے مسائل کو کم کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر آگے آئیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی سبیل کریں مگر انتہائی دکھ کا مقام ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی طرح بیوروکریٹ جو اس ملک کے ’’بابو‘‘ اور اصل کرتا دھرتاہیں، اپنے مفادات پر ذرا سی بھی آنچ نہیں آنے دیتے لیکن عوام کے جسموں سے آخری ستر بھی چھیننے کی کوششوں میں جُتے ہوئے ہیں۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی زوردار بیان جاری کیا ہے کہ پاکستانی سیاست میں مافیاز کا راج اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ اشرافیہ کا قبضہ ہے جس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ انہیں حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں لیکن اب کوئی ہمارے پیارے وزیراعظم کو یہ بھی بتائے کہ اپوزیشن لیڈرکی حیثیت میں ان کا یہ بیان بہت تگڑا اور مسحور کن ہے لیکن بطور وزیراعظم وہ جس کرسی پر بیٹھے ہیں یہ ان کا کام ہے کہ اداروں اور معاملات کو درست کریں۔ اب سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا لمبے چوڑے بیانات سے ملکی معاملات درست ہوجائیں گے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ اسی طرح وزیراعظم سے عوام یہ بھی پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اپنے اقتدار میں کرپشن کس قدر روکی گئی، عدم مساوات، عدل و انصاف سمیت میرٹ کے نظام کو کس قدر بہتر بنایا گیا تو اس کا جواب صفر بٹا صفر ہے کیونکہ 3برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود وزیراعظم عمران خان مسائل کا تو ذکر تواتر کے ساتھ کررہے ہیں لیکن ان مسائل کا درماں کرنے کے لئے تیار نہیں۔ تحریک انصاف کی ساڑھے تین برس کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ انہوں نے اس طویل عرصے میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا تو باقی ماندہ پونے 2برس میں ان کے ہاتھ کون سی گیدڑسنگھی آجائے گی کہ وطن عزیز کے مسائل ختم ہوجائیں گے۔ عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ اس مافیا کے لئے لڑنے کے لئے بھی دیئے تھے اس لئے اگر وہ اپنے دور اقتدار میں عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام رہی اور اس کے بعد انہیں کام نہ کرنے دیا گیا کا بیانیہ اپنا یا تو پاکستان کے باشعور ووٹرز بالخصوص تحریک انصاف کے نوجوان اس گھسی پٹی دلیل کو کسی طور بھی قبول نہیں کریں گے کیونکہ اگر انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا تو اس بارے انہیں بروقت عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے جبکہ اگر اس راہ میں کوئی رکاوٹ ہے تو اس کو بھی بے نقاب کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ حکومت کی اپنی ناک کے نیچے کرپشن کے میگا سکینڈلز کی خبریں تواتر کے ساتھ شائع ہورہی ہیں، اور تو اور کوویڈ 19کے فنڈز میں بھی ہوشربا کرپشن کی رپورٹس عالمی جریدوں میں شائع ہورہی ہیں جس سے وطن عزیز کی جتنی بدنامی ہورہی ہے اس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔
تحریک انصاف نے جن انتخابی نعروں کا سہارا لے کر حکومت حاصل کی تھی اگر اس نے عوام کو ڈلیور نہ کیا تو وہ عوام کے دربار میں وہ کس منہ سے جائیں گے اسی لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم صرف بیان بازی تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ قانون کی بالادستی پر کسی قسم کا کمپرومائز نہ کریں بلاشبہ ان کے ماضی کا یہ خاصا رہا ہے کہ ان کو دبائو میں لانا ناممکن ہے لیکن دوسری طرف حالات جس تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں اس کے باعث ضروری ہے کہ وہ اتحادیوں، اپوزیشن، اپنی جماعت کو خوش کرنے کی بجائے اب ذرا عوام کو بھی خوش کرنے کی طرف توجہ دیں اور انہیں بدترین مہنگائی سے کچھ تو ریلیف فراہم کریں کیونکہ آنے والے دنوں میں پٹرول 20روپے فی لٹر مہنگا ہونے کی جو بازگشت سنائی دے رہی ہے اس کے باعث ضروری ہے کہ حکومت اپنے اللے تللوں کو خیرباد کہہ دے اور سادگی کے اصول کو صحیح معنوں میں اپنائے وگرنہ عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اسی طرح جمہوریت کی مضبوطی کا صرف نعرہ لگانے سے ہی معاملات درست نہیں ہونگے کیونکہ جمہوریت میں عوام نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ طاقتور ہوا ہے جس نے عوام کو بالکل ہی دیوار سے لگادیا ہے۔ اسی لئے عوام کے ذہنوں میں یہ بات بھی تواتر کے ساتھ گردش کررہی ہے کہ اگر یہ نظام عوام کو ڈلیور نہیں کرسکتا تو عوام کی بقا کے لئے نظام کی تبدیلی پر بھی غور کرنے میں کوئی قباحت نہیں، یہی وقت کی پکار ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر