نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

 پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست میں نئی تاریخ رقم کرنے جارہی ہے،بیرسٹر حیدر زمان قریشی

پی پی پی کو اگر پنجاب میں آزادی سے سیاسی کام کرنے کی اجازت ملی تو ہم ثابت کردیں گے کہ پنجاب سے پی پی پی کی بے دخلی ایک مصنوعی اور مینوفیکچرڈ عمل تھا۔

انٹرویو:عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

بیرسٹر حیدر زمان قریشی پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق مرکزی سیکرٹری فنانس ، سینئر نائب صدر پی پی پی جنوبی پنجاب سمیت کئی اہم عہدوں پہ کام کرچکے ہیں- چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اور شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ برٹش دور سے ملتان ڈویژن کی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے "قریشی” خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد پیر عارف زمان قریشی بھی پنجاب کی سیاست کا اہم کردار رہے۔ وہ ضلع خانیوال کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 152 سے پی پی پی کے امیدوار ہوتے ہیں۔ پنجاب میں دو ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیں- 5 دسمبر کو لاہور میں این اے133 میں اور 16 دسمبر کو خانیوال میں صوبائی حلقہ پی پی 206 پہ ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں- پی پی پی کے شریک جئیرمین آصف علی زرداری سمیت پی پی پی کی مرکزی قیادت این اے 133 میں ڈیرے ڈال چکی ہے۔ جبکہ پی پی 206 خانیوال میں الیکشن کمپئن کے لیے جو کوارڈینیشن کمیٹی کے کنوینئر بیرسٹر حیدر زمان قریشی کو مقرر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ان سے خصوصی بات چیت کا اہتمام کیا گیا-

پی پی پی 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں پی پی پی کی انتخابی کارکردگی متاثر کن نہیں تھی – کیا وجہ بنی؟

قریشی: یہ سوال اکثر مجھ سے میڈیا والے کرتے ہیں تو میرا ان کو مشورہ ہوتا ہے کہ ایک تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب میں زوال پذیر نہیں ہوئی بلکہ بہت ہی منظم طریقے سے اسے غیر جمہوری قوتوں اور ان کے لاڈلوں نے سائیڈ لائن لگایا۔ 5 جولائی سن 1977ء میں ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو پی پی پی کا وجود مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی-پنجاب میں اس نے اینٹی بھٹو عوام دشمن قوتوں کو پروان چڑھایا اور ان کا سربراہ پنجاب میں میاں محمد نواز شریف کو بنایا۔ میآں نواز شریف کی قیادت میں ضیاء الحقی باقیات نے پی پی پی کا پنجاب میں ہر طرح سے راستا روکا- پولیس اور ریونیو دونوں پارٹی کے کارکنوں،ووٹرز اور حمایتیوں کے خلاف استعمال ہوئے۔1979ء میں ضیاء الحق نے جماعتی بلدیاتی الیکشن کرائے تھے تو پنجاب کے تمام بلدیاتی اداروں میں پی پی پی کے کونسلر اکثریت میں منتخب ہوئے و اس کے بعد ضیاء الحق نے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن کرائے اور پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو پی پی پی کے دشمنوں کو دھاندلی سے بھر دیا- 1985ء کے انتخابات میں غیر جمہوری قوتوں کو پارلیمان پہ قابض کیا گیا اور 1988ء میں ضیآ کی باقیات آئی جے آئی بناکر لائی اور پی پی پی سے پنجاب کی کئی قومی نشستیں زبردستی دھاندلی سے چھین لی گئیں اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کرکے پنجاب میں حکومت بنانے سے محروم کیا گیا- دو سال تک پنجاب میں پی پی پی کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی، صوبائی و مقامی عہدے داران  کارکنان کے خلاف پنجاب کی سرکاری مشینری کو استعمال کیا گیا-1990ء سے  نومبر1993ء تک نواز شریف نے پھر پنجاب میں پی پی پی کے خلاف بدترین انتقامی کاروائی کی – دھاندلی سے ہمیں وفاق میں حکومت بنانے سے روکا گیا- جب نواز شریف اپنے ذاتی مفاد کی وجہ سے فوج سے ٹکراؤ میں آیا تو نومبر 1993ء میں ہمیں پنجاب میں تھوڑی آزادی سے انتخاب لڑنے دیا گیا لیکن ساتھ ہی سترہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں رکھنے والی جونیجو لیگ کو پنجاب کی چیف منسٹری دینی پڑی-گویا ایک طرح سے پھر پنجاب ہمیں نہیں دیا گیا- اور نومبر 1996ء میں ہماری حکومت کو ختم کردیا گیا اور 1997ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی اور ہمیں قوی اسمبلی میں محض اٹھارہ نشستیں دی گئیں۔ 1997ء سے 1999ء تک بدترین انتقام لیا گیا- جنرل مشرف کی آمریت کے زمانے میں مشرف آمریت نے پی پی پی کو نہ تو حمایت دی اور نہ ہی اس نے پہلے بلدیاتی الیکشن میں ہمارا راستا روکنے کی کوشش کی نتیجہ یہ تھا کہ ہم نے پنجاب کے اکثر اضلاع اور تحصیلوں میں اپنے ناظم منتخب کروائے۔ لیکن 2002ء کے انتخابات میں ق لیگ کو جتوانے کے لیے کنٹرولڈ دھاندلی ہوئی لیکن پی پی پی پہ جبر اتنا ہی نہیں تھا جتنا نوے کی دہائی میں تھا تو پی پی پی نے پنجاب میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی متعدد نشستیں جیت لیں۔ 2007ء میں اگر شہید محترمہ کا قتل نہ ہوتا تو ہم قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے – 2008ء سے 2013ء تک ایک طرف طالبان ،القاعدہ اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورک تھا جو پی پی پی اور اے این پی کو نشانہ بنائے ہوئے تھا- دوسری جانب میاں نواز شریف نے کیانی اور افتخار چودھری کے ساتھ ٹرائیکا بنائی اور وفاق حکومت کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کی اور پنجاب میں شہباز شریف نے پی پی پی کو دیوار سے لگادیا۔ ہمار اراکین کو پی پی پی چھوڑنے پہ مجبور کیا اور اسی دوران اسٹبلشمنٹ بھی تقسیم ہوئی- ایک دھڑا نوا شریف کا حامی تو دوسرا تحریک انصاف کی طرف ہوگیا- ہمارے بہت سے لوگوں کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے پہ مجبور کیا گیا۔ اس فضا میں 2018ء کا الیکشن ہوا تو ہمیں پنجاب میں الیکشن کمپئن ہی آزادی سے چلانے نہیں دی گئی ۔ اور پھر انتخابات میں جو”کاریگری” کی گئی اس سے سلیکشن ہوئی – اس تناظر میں کوئی بھی سیاسی تجزیہ نگار آسانی سے یہ دیکھ سکتا ہے کہ پی پی پی کو پنجاب کی "عوام” نے نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کے دھڑوں اور سابق سلطنت شریفیہ نے دیوار سے لگایا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال گزرگئے ہیں – آج پی پی پی کی قیادت پنجاب میں اپنی کھوئی سیاسی طاقت کے بحال ہونے کے دعوے کررہی ہے- آج ایسا کیا ہوا ہے جس کی بنیاد پہ یہ دعوے کیے جارہے ہیں؟

قریشی: پاکستان تحریک انصاف ایک مصنوعی سیاسی جماعت ہے جسے اسٹبلشمنٹ میں نواز لیگ کے مخالف اسٹبلشمنٹ دھڑے نے بنایا تھا۔ اور سابقہ لاڈلے نواز شریف کی جگہ جسے نیا لاڈلہ وفاق میں بناایا گیا وہ اپنے مربیوں کی تمام تر حمایت اور تعاون باوجود نہ تو معشیت بہتر بناسکا اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پہ درپیش چیلنچوں سے نمٹ پایا- اب تو حال یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے جس دھڑے نے سلیکٹڈ رجیم تشکیل دیا وہ خود دو دھڑوں میں بٹ گیا ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک بشمول چین بھی اس صورت حال پہ شدید تشویش کا شکار ہیں۔ پاکستان بدترین بحران کا شکار ہے۔ تاریخی مہنگائی اور آئی ایم ایف سے بدترین شرائط پہ معاہدے کے بعد تو معشیت میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ۔ کچھ عرصے تک پنجاب میں ہمیں اسٹبلشمنٹ کی طرف سے اسی رویے کا سامنا تھا جو سابق سلیکٹڈ کے دور میں رہا لیکن اب جب حکمران طبقے میں بدترین تقسیم ہے تو ہمیں پنجاب میں سیاست کا موقعہ مل رہا ہے اور ہم سنٹرل پنجاب اور ساؤتھ پنجاب دونوں جگہ قدرے آسانی سے پارٹی کو منظم کررہے ہیں۔ این اے 133 لاہور اور پی پی 206 خانیوال کے ضمنی الیکشن میں پارٹی قیادت کو کارکنوں تک آسانی سے رسائی کا موقعہ ملا ہے۔ لاہور میں ایک ماہ سے کم مدت میں ہماری کمپئن نے لاہور میں پی پی پی کو فعال کیا ہے اور پی پی 205 خانیوال میں ضمنی الیکشن نے ہمیں وہاں بھی کارکنوں کو فعال کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہے ، آپ ان حلقوں میں نتائج سے یہ ماننے پہ مجبور ہوں گے کہ پی پی پی کو اگر پنجاب میں آزادی سے سیاسی کام کرنے کی اجازت ملی تو ہم ثابت کردیں گے کہ پنجاب سے پی پی پی کی بے دخلی ایک مصنوعی اور مینوفیکچرڈ عمل تھا۔

پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں خاص طور پہ نواز لیگ اور جمعیت علمائے اسلام پی پی پی پہ اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کا الزام لگاتے ہیں – کہیں پی پی پی کی پنجاب میں واپسی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کا نتیجہ تو نہیں ہے؟

قریشی: پاکستان پیپلزپارٹی کا جو خمیر ہے، اس کی قیادت اور کارکنوں کے جو سیاسی جینز ہیں وہ "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں” سے بنے ہیں- ہم نے ہمیشہ جمہوریت اور عوام کو سیاست میں سرفہرست رکھا ہے۔ ہم نے کبھی کسی غیر منتخب ادارے سے اقتدار حاصل کرنے کی بھیک نہیں مانگی ۔ پاکستان کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ جب کبھی اپنے سلیکٹڈ اور لاڈلوں سے بے زار ہوئی اور پاکستان کو خطرات لاحق ہوئے تو وہ پی پی پی کی طرف دیکھے لگے اور جب جب وہ ہم سے بات چیت کے لیے آئے تو ہم نے ان کو صرف اور صرف یہ کہا کہ وہ آئین پاکستان میں طے کی گئیں حدود میں رہیں- سیاسی عمل میں مداخلت، بگاڑ، پری پول اور پوسٹ پول انجینئرنگ سے باز رہیں اور صاف شفاف الیکشن کے لیے آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن بننے کی راہ میں روکاوٹ نہ ڈالیں۔ اگر ہمارا ایسا کہنا ڈیل ہے تو ایسی ڈیل کرنے میں ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے یہی مانگ 1988ء ، 1993ء میں کی تھی جب اسٹبلشمنٹ مجبور ہکر ان کے پاس آئی تھی اور انھوں نے 2006ء کے دوران عالمی دباؤ سے جب مشرف نے دبئی میں ان سے مذاکرات کیے تھے تب کی تھی۔ پی پی پی اسٹبلشمنٹ سے کہتی ہے کہ وہ کسی کو "لاڈلہ” مت بنائیں۔ کسی سیاسی جماعت میں توڑ پھوڑ مت کریں اور کسی کو کٹ ٹو سائز مت کریں۔ عوام کو فیصلہ کرنے دیں وہ کسے اپنا وزیراعظم، کسے اپنا چیف منسٹر، کسے اپنا رکن قومی و صوبائی اسمبلی بنانا چاہتے ہیں۔

کیا یہی بات پی ڈی ایم نہیں کہہ رہا ،تب ان سے علیحدگی کیوں ہوئی ؟

قریشی: پی ڈی ایم بلکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کہیں ان کی ساری کوشش اس طاقت کو بحال کرنے کی ہے جو ان کے پاس 1985ء سے 1997ء تک ریاستی اداروں میں اپنا مضبوط نیٹ ورک تشکیل دینے سے آئی تھی اور یہ محض عوام کی طاقت سے نہیں آئی تھی۔ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز اس طافت کی بحالی اداروں کو دھمکیاں دے کر، وڈیو ٹیپس لیک کرکے اور یہاں تک کہ بعض اوقات تو اداروں کی تباہی کے زریعے چاہتے ہیں۔ جبکہ میاں شہباز شریف اور ان کے ہم خیال اسٹبلشمنٹ میں عمران خان کو سلیکٹڈ بنانے والے دھڑے کے ساتھ تعاون کے راستے کی تلاش میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار واپس شریف خاندان میں لے آئیں اور مکمل نہ سہی جزوی طور پہ سلطنت شریفیہ کی طاقت بحال ہوجائے۔ ان کے پاس عدلیہ اور انتظامیہ کے اندر نیٹ ورک ہے جو بہرحال نواز شریف مخالف اسٹبلشمنٹ لابی سے قدرے کمزور ہے لیکن ان کے لیے مشکلات کھڑی کرتا رہتا ہے۔ جیسے جسٹس شاہد عزیز صدیقی(برطرف)، جسٹس شمیم الدین (ریٹائرڈ) اور جسٹس فائز عیسی(حاضر سروس) ہیں یہ وہ نام ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ عسکری اسٹبلشمنٹ میں بھی چند نام سامنے آئے ہیں۔ پھر شریفوں کے پاس صحافتی اسٹبلشمنٹ میں بھی طاقتور لابی ہے جیسے سیکٹڈ رجیم کو لانے والی لابی کے پاس طاقتور لابی ہے۔ یہ عوامی جمہوری سیاست نہیں بلکہ سازشی سیاست ہے جو غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ کے طاقتور دھڑوں سے حمایت اور سرپرستی کی تلاش کرتی ہے اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ نہیں مانتی- پی پی پی آخر کیوں سلطنت شریفیہ کی طاقت کی بحالی کے ایجنڈے کا حصّہ بنے۔ نواز شریف چاہتے تھے کہ پی پی پی اپنی سیاسی بصیرت کو ایک طرف رکھ کر ان کے بلڈوز کرنے اور تباہ کرنے کی پالیسی کی پیروی کرے۔ اسے باہمی عزت اور اتفاق رائے سے ہوئے فیصلوں پہ چلنے والا سیاسی اتحاد قبول نہیں تھا بلکہ وہ پی ڈی ایم میں شروع دن سے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ پی پی پی کو سندھ حکومت سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب اور وفاق میں ان ہاؤس تبدیلی آئے اور ایسا نگران سیٹ اپ آئے جو پنجاب میں پی پی پی کو آزادی سے سیاسی کمپئن چلانے دے۔ وہ غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ ان کی سابقہ طاقتور پوزیشن اگر بحال نہ کی گئی تو ملک ہی بچ نہیں سکے گا۔ پی ڈی ایم میں جے یو آئی ایف اور دگر جو جماعتیں ہیں وہ ملک گیر نہیں ہیں ان کی علاقائی پاکٹس ہیں اور انہوں نے نواز شریف کی تابعداری قبول کرلی اس پہ انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن پی پی پی اور اے این پی نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا تو نتیجہ صاف ظاہر ہے ان دو جماعتوں کو وہاں سے نکلنے پہ مجبور کردیا گیا۔ اب پی پی پی اور اے این پی کے بغیر پی ڈی ایم کی کیا حثیت رہ گئی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک بار پھر میاں شہباز شریف نے پھر پارلیمنٹ میں پی پی پی اور اے این پی سے تعاون مانگا ہے۔ وہ نہ تو استعفے دے کر پارلیمنٹ سے باہر آئے۔ نہ سینٹ الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور اب ضمنی الکشن میں بھی حصّہ لے رہی ہے۔ جمہوری طاقتیں بند گلی کی سیاست نہیں کرتیں بلکہ وہ ناممکنات کے ماحول میں ممکنات کی سیاست کرتے ہیں۔ یہ بات نواز شریف سیاست میں تاحال سمجھ نہیں آئی ہے۔ انھیں اپنے خرید کردہ امپائروں کے ساتھ فکس میچ کی سیاست کھیلنے کا تجربہ ہے اور دوسرا تجربہ کرنے سے وہ ڈرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو خرید کر وہ سیاسی طاقت پہ قابض ہسکتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔

پی پی پی پنجاب میں کس منشور کے تحت سیاست کرے گی؟

قریشی: پی پی پی کی تاسیس بہت واضح نعروں کے ساتھ ہوئی

جمہوریت ہماری سیاست ہے

طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں

سوشلزم ہماری معشیت ہے

اسلام ہمارا دین ہے

ہم روٹی ،کپڑا، مکان، روزگار، تعلیم، صحت عام آدمی کی بنیادی ضروریات قراردیتے ہیں اور ریاست و حکومت کو ان کی فراہمی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور 1973ء کے آئین میں ان کی فراہمی کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور اس سےانحراف کو ہم عوام دشمن سیاست سمجھتے ہیں۔  آمریت اور سلیکٹڈ رجیم انہی ضروریات سے عوام کو محروم رکھتے آئے ہیں- ہم پنجاب کے عوام کی قریب قریب 26 سالوں سے بنیادی ضروریات کی محرومیوں کو دور کرنے کے منشور کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ ہم پنجاب کی نوجوان نسل کو دکھانا چاہتے ہیں کہ عوامی حکومت کیسی ہوتی ہے۔ اس  کا محدود وسائل اور وفاقی حکومت کی دشمنی کے ہوتے ہوئے سندھ کی عوام نے تجربہ کیا ہے۔ پنجاب کی عوام بھی ایسی حکومت کا تجربہ جلد کریں گے۔

 

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author