حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب بیس میڈیا کو پیپلزپارٹی سے کبھی ایسا مفاد نہیں رہا جیسا فوجی آمروں، (ن) لیگ یا "دوسروں” سے رہا۔ آزادی اظہار کے علمبرداروں کو آمروں اور (ن) لیگ کے ادوار میں خصوصی مراعات حاصل ہوئیں یہاں تک کہ نگران حکومتوں میں وزارتیں بھی ملتی رہیں۔
گو یہ فوائد زیادہ تر اس میڈیا ہائوس کو "نصیب "ہوئے جس کے مالکان کے کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ذاتی تنازعات رہے اور پھر آصف علی زرداری کے ساتھ ، محترمہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت گرائی گئی تو نگران حکومت میں وزیر اطلاعات اسی میڈیا ہائوس کے ملازم بنے۔
جناب نوازشریف کے دور میں اس سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب وزیراعظم کے مشیر رہے آج کل سینیٹر ہیں۔ ایک صاحب پیمرا کے سربراہ بنائے گئے۔ ہمارے اساتذہ میں سے ایک طویل عرصہ تک پی ایچ اے میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔
یہ چند مثالیں ہیں۔ ایک اور شخصیت کا ذاتی میڈیا ہائوس ہفت روزہ اور ماہنامہ پر مشتمل تھا پھر جناب نوازشریف کی مہربانیوں سے دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوئی۔
جنرل ضیاء الحق بھی کراچی اور لاہور کے بعض میڈیا ہائوسز پر خصوصی "مہربان” رہے۔
پیپلزپارٹی کے خلاف منظم میڈیا ٹرائل میں پچھلے 40برسوں میں حصہ ڈالنے والے ہی معتبر ہیں۔
آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے "تعویذوں” کو عجب کرپشن کی غضب کہانی کے طور پر پیش کرنے والے کہاں کھڑے ہیں۔
فقیر راحموں کہتے ہیں یہاں معتبر وہی ہے جو اٹھتے بیٹتھے "رج کے ذلیل” کرے۔ تمہید کچھ طویل ہوگئی
ہمارے ایک سابق جہادی مجاہد تو روزانہ دور کی کوڑی لاتے ہیں ان کے خیال میں پیپلزپارٹی دھرتی کا بوجھ ہے۔ ان کے مالکان نے عشروں یہ پروپیگنڈہ کروایا۔
پیپلزپارٹی سندھ کی جماعت ہے۔
خود ہمارے ایک دوست استاد مشتاق احمد کہتے ہیں پیپلزپارٹی اندرون سندھ کے بعض اضلاع کی جماعت ہے اس بعض سندھی اضلاع کی سیاسی جماعت کو پی ڈی ایم سے نکلوانے کے لئے جو میڈیائی مہم چلی تھی۔ اس کے سرخیل ایک سابق جہادی سپاہی تھے بلکہ ان کا خون تو اب بھی پیپلز پارٹی کا نام آتے ہی کھول اٹھتا ہے۔
نصف صدی کے میڈیا ٹرائل، غداری کے الزامات اور کرہ ارض کی بدترین جماعت قرار پانے والی پیپلزپارٹی اگر ’’سانس‘‘ لے رہی ہے تو اپنے دم خم پر۔
وہ دن بھی تھے جب میڈیائی جادوگر اور سیاپا فروش ہر رات پیپلزپارٹی کو دفن کرکے سوتے اور زرداری کو ایوان صدر سے ہتھکڑیوں میں اڈیالہ جیل پہنچاکر "دو رکعت” نماز شکرانہ ادا کرتے لیکن اگلی صبح پیپلزپارٹی کی حکومت بھی ہوتی اور زرداری کی صدارت بھی۔
سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں ریاست کے اندر ریاست کی بات کی تو مجاہدین صحافت ان کی جان کو آگئے جس کے جو منہ میں آیا کہا جو جی چاہا لکھا۔
اس سے ملتی جلتی اور کچھ آگے کی باتیں لاہور والے میاں نوازشریف نے کیں تو وہ سول سپر میسی کے ’’سپرمین‘‘ کہلائے۔
کہلائے کیا بلکہ اب بھی ہیں۔ ہمارے بہت سارے دوست آجکل بھی روزانہ رات کو حکومت کو گھر بھیج کر اور چند افراد کو عام معافی دلواکر سوتے ہیں لیکن اگلی صبح معاملات جوں کے توں ہوتے ہیں۔
پنجاب کے جی ٹی روڈ بیس میڈیا کو پیپلزپارٹی سے یہ نفرت ورثے میں ملی ہے ان میں سے بعض جنرل ضیاء الحق کے نقارچی تھے کچھ اسلامی جمہوریہ "منصورہ شریف” سے نسلی اورقلبی رشتوں میں بندھے ہوئے، چند وہ ہیں جنہیں ’’آستانوں‘‘ نے تخلیق کیا۔
(ن) لیگ کی خوش قسمتی ہے کہ تینوں برانڈز کے مجاہد اسے جہیز میں ملے۔
زیادہ دور نہ جائیں پی ڈی ایم کے قیام سے اس کے بکھرنے تک کے عرصہ میں ان میڈیائی مجاہدین کی توپوں کا رُخ دیکھ لیجئے یہ حکومت سے زیادہ پیپلزپارٹی کی طرف رہا اور اب بھی ہے مگر کیا مجال کبھی وہ ان ملاقاتوں اور رابطوں بارے لب کشائی کریں جو ان کے محبوبین و ممدوحین کی عبادات کا حصہ ہیں۔
ان دوستوں کے پاس دو سوالوں کا جواب نہیں اولاً یہ کہ پیپلزپارٹی کی استعفوں کے معاملے میں ’’غداری‘‘ کے باوجود پی ڈی ایم نے استعفے کیوں نہ دیئے؟ ثانیاً یہ کہ مولانا فضل الرحمن سے مارچ 2020ء میں حکومت کو گھر بھیج کر الیکشن کرانے کا وعدہ کس نے کیا تھا اس وعدے میں پی پی پی سے استعفے دلوانا مولانا کے "ذمہ تھا "
جناب شہباز شریف نے چند دن قبل کہا حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا وقت نہیں آیا۔
جناب نوازشریف ایک سے زائد بار کہہ چکے کہ حکومت پانچ سال پورے کرے تاکہ عوام اس کی حقیقت جان سکیں۔
بظاہر دونوں باتیں درست ہیں مگر مجاہدین اپنے محبوبین سے یہ پوچھنے کوتیار نہیں کہ جب حکومت کے 5سال پورے کرانے ہیں اور عدم اعتماد کا وقت نہیں آیا تو پھر یہ ساری کھیچل کس لئے۔
تازہ حالات دیکھئے، ان مجاہدین نے گزشتہ روز بلاول بھٹو اور مولانا فٗضل الرحمن کی ملاقات پر جس طرح کے بھونڈے تبصرے کئے، اور میمز بنائی گئیں ان کا ساتواں حصہ بھی میاں شہباز شریف کی اکتوبر میں راولپنڈی میں ہوئی ملاقاتوں کے حصے میں نہیں آیا
یہ وہی ملاقاتیں جن کے لئے میاں صاحب اسلام آباد ٹول پلازہ سے اپنے قافلے سے الگ ہوکر چل دیئے اور گاڑی ان کے ایک ذاتی دوست چلارہے تھے جو کیبلز کا کاروبار کرتے ہیں۔
میثاق جمہوریت کے باوجود(ن) لیگ پی سی او ججز کو بحال کرانے میں پیش پیش رہی۔ میثاق جمہوریت میں تو لکھا تھا کہ پی سی او ججز عدلیہ کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس میں کہیں وضاحت نہیں تھی کہ کون سے والے پی سی او کو گنگا اشنان کیا ہوا سمجھنا ہے اور کون سے والے کو جمہوریت اور انصاف کا دشمن۔
پیپلزپارٹی سے نفرت کا عالم یہ ہے کہ ان مجاہدین سول سپرمیسی نے چند دن قبل بولان میڈیکل کمپلیکس کوئٹہ میں گھومتے کتوں کے ایک ’’وفد‘‘ کی ویڈیو کو لاڑکانہ کی ویڈیو بناکر سجایا اور پھر حقیقت بتانے والوں پر اپنے بالکے چھوڑدیئے۔
معاف کیجئے گا تقریباً پورا کالم ہی پیپلزپارٹی کے حق میں تحریر ہوگیا حالانکہ جب سارے مجاہد اس کے خلاف ہیں تو ہم جیسے غیرمعروف بلکہ ایک نامہربان کے مطابق ’’مایوس اور محروم‘‘ شخص کو سندھ کے چند اضلاع والی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرنی چاہیے
خیر اب تو کالم لکھا گیا چند سطور مزید برداشت کرلیجئے۔ سچ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی فرشتوں کی جماعت ہے نہ (ن) لیگ دوزخیوں کی۔ دونوں سیاسی جماعتیں ہیں ان میں سے کسی ایک کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت قومی جرم ہرگز نہیں۔
صحافی اسی سماج میں رہتے بستے ہیں لیکن 50برسوں سے جس جماعت کا کراچی اور لاہور بیس میڈیا ٹرائل میں مصروف ہے اس جماعت کو جواب دعویٰ کاحق بھی تو ملنا چاہیے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ راولپنڈی اور اٹک کے درمیان ایک فارم ہائوس میں کھابے اڑانے اور خبریں پانے والے ’’خبری‘‘ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ آزادی صحافت کیا ہوتی ہے۔
خیر چھوڑیں نئی بات یہ ہوئی ہے کہ وفاقی وزیر اسد عمر نے گزشتہ شام اسلام آباد میں اپنی جماعت کے عظیم الشان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ
’’اگر پی ڈی ایم اپنا لانگ مارچ اسلام آباد لایا تو ہمارے کارکن پی ڈی ایم اور اس کے حامی میڈیا کی بڑی کُٹ لگائیں گے‘‘۔
سبحان اللہ کیاانداز ’’دلبری‘‘ ہے۔ سیدھی صاف دھمکی وہ بھی وزیر کی طرف سے، لگتا ہے صورتحال ویسی نہیں جیسی بتائی جارہی ہے۔
اچھا ویسے ڈالر 178روپے، ٹماٹر 200روپے کو چھوچکے، مہنگائی کی تازہ شرخ 17.37 فیصد بتائی جارہی ہے۔ اب آپ چاہیں تو تھوڑا بہت گھبرانے کی تیاری کرلیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر