مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سی ایس ایس کے امتحانی سسٹم میں نظرثانی||ظہور دھریجہ

یہ حقیقت ہے کہ سی ایس ایس میںسرائیکی پیپر نہ ہونے سے سی ایس ایس کا امتحانی نظام نہ صرف یہ کہ ادھورا اور نا مکمل ہے بلکہ یہ وسیب کے ہزاروں طلبہ سے امتیازی سلوک ہے کہ آئین امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات لائق تحسین ہے کہ سی ایس ایس کے امتحانی سسٹم اوراس کے نصاب پر نظر ثانی جاری ہے اور دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سکریننگ سسٹم کو متعارف کرانے کا فیصلہ ہوا ہے ،بہتری کے جہاں دوسرے کام ہو رہے ہیں وہاں سلیبس میں سرائیکی کو شامل کرنا بھی ضروری ہے کہ سرائیکی کالجوں اوریونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے ، 1989ء سے اب تک ہزاروں طلبہ نے سرائیکی میں ایم اے کیا ہے ، اسی طرح ایم فل اور پیچ ایچ ڈی سرائیکی بھی بہت ہیں ۔اسی بناء پر جہاں دیگر پاکستانی زبانوں کا پیپر موجود ہے وہاں سرائیکی کا بھی ہونا چاہیئے۔
یہ حقیقت ہے کہ سی ایس ایس میںسرائیکی پیپر نہ ہونے سے سی ایس ایس کا امتحانی نظام نہ صرف یہ کہ ادھورا اور نا مکمل ہے بلکہ یہ وسیب کے ہزاروں طلبہ سے امتیازی سلوک ہے کہ آئین امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔ میں نے وزیراعظم عمران خان صاحب کی خدمت میں ایک درخواست بھیجی تھی کہ صوبے کے مسئلے پر وعدے ہو رہے ہیں ، وسیب کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ جب تک صوبہ نہیں بن جاتا ، سی ایس ایس کا کوٹہ الگ کیا جائے کہ اس کی پہلے سے مثال موجود ہے۔
 سندھ چھوٹا صوبہ ہے اس کے دو زون ہیں اور پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے یہاں ایک لولہا لنگڑا زون تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا ،یہ اقدام امتیازی ہونے کے ساتھ ساتھ غیرمنصفانہ بھی ہے کہ وسیب کے نوجوانوں کا مستقبل ختم ہو رہا ہے اور وہ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں ۔ سی ایس ایس کا کوٹہ وسیب کو آبادی کے مطابق ملنا چاہئے ۔ سی ایس ایس کے صوبائی کوٹہ کا مقصد پسماندہ علاقوں اور صوبوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانا تھا ، یہاں اس کا الٹ اثر ہوا کہ پسماندہ سرائیکی علاقے کی آبادی کو شمار کر کے صوبہ کا بااثر طبقہ کوٹہ حاصل کرتا ہے مگر وسیب کو تکنیکی انداز میںآؤٹ کر کے تمام اہم عہدے خود لے لیتا ہے ۔
 سی ایس ایس کے امتحانی سسٹم کا مطالعہ کریں تویہ زیادتیوں کا لا متناہی سلسلہ اور تہہ در تہہ حق تلفی کی داستان ہے ‘پہلی زیادتی یہ ہے کہ حکمرانوں نے سرائیکی وسیب کو تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھا ہے ۔تعلیمی سہولتیں برابر مہیا نہ ہوں تو مقابلہ در اصل کار اور جہاز سوار کا ہو جاتا ہے ۔روجھان،راجن پور ،بھکر ،بہاولنگر ،یا وہاڑی وغیرہ کے طالبعلم کا مقابلہ ایچی سن کالج کے طالبعلم سے کرانے کے نتیجہ میں اسی فیصد امیدوار تو مقابلے کی دوڑ سے پہلے ہی باہر ہوجاتے ہیں، دکھاوے کے طور پر چند ایک کو آنے دیا جاتا ہے۔ سی ایس ایس کے امتحان میں 100نمبروں کا ایک آپشنل پیپر انگریزی ، اُردو ، عربی اور فارسی کے ساتھ پاکستانی زبانوں جس میں سندھی ،پنجابی ،پشتون اور بلوچی وغیرہ میں شامل ہے، مگر سرائیکی اس میں شامل نہیں حالانکہ سرائیکی زبان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے ،جس امیدوار نے گورنمنٹ کے اپنے اداروں سے اپنی گریجویشن اور ماسٹر سرائیکی میں کی ہے وہ سندھی بلوچی یا پشتو میں پیپر دیکر کس طرح نمبر لے سکتا ہے ؟
سی ایس ایس کے امتحان میں سرائیکی زبان کو محروم رکھنا غلط ہے کہ سرائیکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے اور اس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔اردو ‘انگریزی ‘ پنجابی ‘ سندھی و دیگر پاکستانی زبانیں پڑھنے والوں کی طرح سرائیکی پڑھنے والوں کو بھی حق ملنا چاہئے ۔ اقتدار ملنے کے بعد پنجاب کے سیاستدان اور افسران بہت سمجھدار ہو چکے ہیں وہ اس طرح کی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں جس کا فائدہ ہمیشہ راج کرنے والوں کو ملے۔ سی ایس ایس کا امتحان بھی اسی طرح کا ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے محروم اور پسماندہ سرائیکی خطے کو اپنا دست نگر بنا کر رکھا ہے ۔
سرائیکی وسیب کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وسیب کے عوامی نمائندے بذات خود ایک مسئلہ ہیں ۔ انہوں نے کبھی وسیب کے مسائل کے حوالے سے بات نہیں کی ۔موجودہ چیئرمین کیپٹن زاہد سعید ریٹائرڈ افسر ہیں اور دیگر ممبران خضر حیات ، شعیب میر ، ارباب محمد عارف ، جنرل سید عابد حسن ،فضل عباس میکن، محمد نفیس ذکریا ، محمد طاہر اور کیپٹن شاہد اشرف تارڑ کویقینا اس کا ادراک ہوگا لہٰذا وسیب کے لوگ ان سب سے ہمدردی اور انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی امتحانات میں سب سے زیادہ اہمیت سی ایس ایس کو حاصل ہے کہنے کو تو چپڑاسی سے چیف سیکرٹری تک ہر سرکاری ملازم ’’نوکر ‘‘ہے مگر سی ایس ایس خصوصاً ڈی ایم جی اور پولیس افسران کیلئے یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہے ،ان افسران کو انگلش سسٹم کے تحت ٹریننگ بھی ’’نوکر ‘‘ والی نہیں بلکہ ’’آقا ‘‘ والی دی جاتی ہے ،
ایک سی ایس ایس افسر وزیرسے زیادہ اہم اس لیے ہوتا ہے کہ ’’وزارتیں ‘‘آتی جاتی رہتی ہیں مگر افسر جہاں بھی بیٹھاہو ’’حاکم ‘‘ ہی ہے ،تقسیم سے پہلے انگریز نے’’ حق حکمرانی‘‘ اپنے وفاداروں کو دیا جس کے نتیجے میں ان پڑھ سردار وڈیرے اور تمندار مجسٹریٹ ‘جج اور پولیٹیکل ایجنٹ مقرر ہوئے مزید بر آں انگریز دور میں بیورو کریسی کی بڑی تعداد صوبہ پنجاب اور یو پی،سی پی سے شامل ہوئی اور انہی کو سب سے زیادہ مراعات ملیں۔انگریز دور میں بھی ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔
 آزادی کیلئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے آزادی کے بعد بھی پیچھے رہ گئے،منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق حکمران طبقہ آج بھی قربانیاں دینے والے غریبوں کی اولادوں کو آگے نہیں آنے دے رہا۔سی ایس ایس کے امتحان میں ہر بھی محکوم خطے کے محروم طالبعلموں سے ’’ہاتھ ‘‘ ہوتا ہے،سینکڑوں طلبہ کو فیل کر دیا جاتا ہے،غیر قانونی حربوں کے علاوہ پبلک سروس کمیشن کے پاس پوزیشنیں تبدیل کرنے کا سب سے بڑا قانونی ہتھیار 300نمبروں کا انٹرویو ہے جو کہ چیئر مین اور ممبران کے طے کردہ ’’باہمی فارمولے‘‘ کے تحت صوابدیدی اختیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
یہ انٹرویو محروم اور لا وارث امیدواروں کیلئے ایک ایسی بے ہودہ اور ننگی تلوار ہے جس میں ہزاروں امیدواروں کا مستقبل قتل ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ حق تلفی کا شکار ہونیوالوں میں وسیب کے مہاجر ، پنجابی سب شامل ہیں۔ انٹرویو لینے والے غیر جانبدار ہونے چاہئیں کہ وسیب کے لوگوں کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ امیدوار اپنی محنت کے بل بوتے پر امتحان پاس کرتے ہیں اور ان کو انٹرویو میں فیل کر دیا جاتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ان محروم طبقات کو حق ملنا چاہئے جن کی پاکستان کیلئے قربانیاں ہیں ۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: