مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقبول بیانیہ ||فضیل اشرف قیصرانی

ہم اگلی اقساط میں کوشش کریں گے کہ ان مقبول بیانیوں اور انکی حقیقت پر عقلی دلائل،تاریخی حقائق،ثقہ بند غیر جانبدار مصنفین اور سازشی تھیوریز کے زیر اثر انکی ترویج پر مکمل غیر جانبداری سے گفتگو کریں۔۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیر نظر تحریر “مقبول بیانیہ” کے عنوان کے تحت چند اقساط میں آپکے سامنے آۓ گی۔اس عنوان کے تحت پاکستان کے ملک و معاشرے میں نظریاتی/بیاناتی تفریق پر بات کرنے کی کوشش کی جاۓ گی۔بات واضح رہے اس لیے اولین ایک مثال سے آغاز کرتے ہیں۔ہم سب اپنی زندگی میں کم و بیش روزانہ کی بنیاد پر موسیقی اور رقص سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر ہم کھبی بھی ان افراد کو انکا جائز عزت و مرتبہ نہیں دیتے کیونکہ یہی مقبول بیانیہ ہے کہ یہ کام غلط ہیں اور ان کاموں سے منسوب لوگ معاشرتی تقسیم میں کہیں بہت نیچے آتے ہیں۔یہ تو رہی معاشرتی بات۔اگلی مثال سیاست کے حوالے سے ہے کہ ہمارا مقبول ترین بیانیہ ہے کہ سیاستدان ملک کھا گۓ ۔
ہم بطور ملک و معاشرہ اِن اور اِن جیسی لاتعداد تفریقات کے بیچ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ہمارے ارد گرد ہم سمیت کم و بیش تمام تر افراد انہی مقبول بیانیوں میں زندہ ہیں۔مقبول بیانیہ ہر ملک و معاشرے میں لاتعداد وجوہات کی بنیاد پر موجود ہوتا ہے کہ اس کے زیر اثر کئ افراد کے گھر چلتے ہیں۔ہم مگر باقی ممالک کی نسبت ذرا آگے ہیں اس ضمن میں کہ ہمارے ہاں ہماری تقدیر کا فیصلہ الیکشن کے دن چلنی والی ہوا کرتی ہے جو بنیادی طور پر مقبول بیانیہ ہی ہوتا ہے جسے ہم ہوا کا نام دیتے ہیں۔
سو اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں بات صرف مقبول بیانیہ کی ہے۔اسے ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مقبول بیانیہ ہے کہ ماناجاتا ہے کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست نا پید ہے مگر کراچی سے ووٹ ایم کیو ایم کوپڑتے ہیں جبکہ سندھ سے پی پی پی اور قوم پرست جماعتیں جیت کر سامنے آتی ہیں۔تو واضح ہوا کہ ووٹ نظریاتی ہی پڑتا ہے مگر مقبول بیانیہ چونکہ یہ نہیں مانتا چنانچہ یہی بات درست قرار پاتی ہے کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست ختم ہو چکی ہے اور لوگ دیگر وجوہات کی بنا پر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔۔۔
۱-بلوچستان اور کے پی کے کے لوگ بجلی کا بل نہیں دیتے
۲-قوم پرست سیاست غداری کی ایک قسم ہے
۳-آمریت اس لیے آتی ہے کہ سیاستدان نا اہل ہیں
۴-مرگ بر امریکہ،
۵-افغان طالبان زندہ آباد جبکہ پاکستانی مردہ آباد
۶-ملک میں شریعت کا نفاز،ذاتی زندگی مکمل غیر شرعی(استثنا موجود)
۷-مرنے کے لیے مدینہ اور حیات کے لیے مغرب
۸-بھارت سب سے بڑا دشمن
۹-غیر طالبان حکومت میں افغان نمک حرام جبکہ طالبان حکومت میں اس بات پر خاموشی چاہے امدادی ٹرک سے پرچم اتار لیے جائیں
۱۰-کشمیر ہماری شہ رگ اور کشمیر بزور شمشیر
۱۱-یہ نہ سوچیں کہ ملک نے آپ کو کیا دیا یہ سوچیں آپ نے ملک کو کیا دیا
۱۲-کالا باغ ڈیم پروجیکٹ قوم پرستوں نے بھارت سے پیسے لے کر بند کروایا ہوا ہے
۱۳-ہائبرڈ ریجیم
۱۴-عمران خان بطور نجات دہندہ
۱۵-سی پیک گیم چینجر
۱۶-عاصم باجوہ بطور چیئرمین ناگزیر
۱۷-صادق سنجرانی ریاستی امیدوار
۱۷-باچا خان،ولی خان،جی ایم سید،غوث بخش بزنجو،عطااللہ مینگل،خیر بخش مری ثقہ بند غدار
۱۸-عورت مارچ بے حیائ
۱۹-پاکستان کا دولخت ہونا نہیں بلکہ سقوط ڈھاکہ
۲۰-ذولفقار علی بھٹو شرابی اور ملک فروش
۲۱-آصف زرداری کرپٹ
۲۲-نواز شریف مودی کا یار
۲۳-سرائکستان نہیں بلکہ جنوبی پنجاب،پشتونخواہ نہیں بلکہ خیبر پشتونخواہ کہ سرائکستان اور پشتونخواہ متعصب الفاظ ہیں
۲۴-ملالہ تب کہاں تھی
اس طرح کےدیگر کئ مقبول بیانیے ہمارے ازہان میں یوں پیوست ہیں کہ ان کے مقابل کوئ بھی بات کی جاۓ وہ رد تصور ہوتی ہے کیونکہ مقبول بیانیہ اسے ماننے سے یکسر انکاری رہتا ہے۔
ہم اگلی اقساط میں کوشش کریں گے کہ ان مقبول بیانیوں اور انکی حقیقت پر عقلی دلائل،تاریخی حقائق،ثقہ بند غیر جانبدار مصنفین اور سازشی تھیوریز کے زیر اثر انکی ترویج پر مکمل غیر جانبداری سے گفتگو کریں۔۔
احباب چاہیں تو اس طرح کے دیگر مقبول بیانیے جو اس فہرست میں شامل نہ ہوں وہ بھی زیر بحث لاۓ جا سکتے ہیں۔
سو “مقبول بیانیہ” کے اس سلسلے کا آغاز کالا باغ ڈیم سے کرتے ہیں۔مقبول بیانیہ ہے کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کے لیے نا گزیر ہے اور چند بھارت نواز لوگ اس ڈیم کے خلاف بھارت کی پشت پناہی پر اس ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کالا باغ ڈیم کے اس مقبول بیانیہ کی ترجمانی بجاۓ تحریر کے اس ویڈیو میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔یہ ویڈیو سن دو ہزار گیارہ کی ہے جب مسلم لیگ(ق) کی ممبر قومی اسمبلی بشری رحمن نے کالا باغ ڈیم کے حق میں ایک قرارداد پیش کی۔اس موقع پر ایک ٹی وی پروگرام میں وہ اپنی قرارداد کے متعلق بات کر رہی ہیں۔
ویڈیو میں کالا باغ ڈیم کے متعلق مقبول بیانیہ پر مزید بحث اگلی قسط میں ہو گی۔
وہ احباب جو اس بیانیہ سے متفق ہیں یا متفق نہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ کمنٹ سیکشن میں صرف “متفق” یا “ غیر متفق” لکھ کر اپنی راۓ کا اظہار کر دیں تاکہ ہمیں اس مقبول بیانیہ کی مقبولیت اور غیر مقبولیت کا اندازہ بھی ہو سکے۔
جاری ہے

%d bloggers like this: