سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت سے ٹی ایل پی معاہدہ کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا بالکل درست فیصلہ کیا ہے۔ بطور پاکستانی شہری ہر شخص کا فرض ہے کہ اسے تمام چیزوں کا علم ہونا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ بعٗض حساس معاملات ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کو پبلک نہیں کیا جاسکتا تاہم جہاں تک ٹی ایل پی سے معاہدہ کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بلاول کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ٹی ایل پی سے معاہدے کے حوالے سے ہر چیز خفیہ اور پوشیدہ ہے اس بارے عوام کے نمائندوں کو ضرور بتایا جانا چاہیے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت کا اصل حسن یہی ہے کہ اس کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فیصلے کئے جائیں۔ TLPسے معاہدہ اور اس کا کالعدم تنظیم کا سٹیٹس ختم کرنے کی مختلف قسم کی قیاس آرائیاں پائی جارہی ہیں کہ ایک طرف احتجاج ختم کرواکر ملک کو ہنگامہ آرائی اور ٹینشن سے بچانے کا اچھا فیصلہ کیا گیا لیکن دوسری طرف یہ رائے بھی زبان زد عام ہے کہ ٹی ایل پی سے معاہدہ کرکے قانون کی رکھوالی کرنے والے یعنی پولیس اہلکاروں کو کیا پیغام دیا گیا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اب سوال یہ عوام کے ذہنوں میں بالکل صحیح گردش کررہا ہے کہ کیا اس قسم کا معاہدہ کرکے حکومتی رٹ متاثر نہیں ہوتی یہی نہیں بلکہ اس معاہدے کے اگر دوررس اثرات کا جائزہ لیا جائے تو قانون کے محافظ آئندہ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے کہیں ہچکچائیں گے تو نہیں بلکہ شہید ہونے والے پولیس والوں کے بچوں کوکیا پیغام دیا گیا ہے کہ ان کے والد تو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے اورپھر بعد میں حکومت نے اسی تنظیم سے معاہدہ کرلیا۔ اگر حکومت نے ایسا ہی کرنا تھا تو پہلے ہی کرلیتی تاکہ ان کے سروں پر والد کی شفقت تو برقرار رہتی لیکن حکومت نے معاملات کو سنگین تر ہونے سے قبل حل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھے کیونکہ یہ ملک کسی ایک جماعت کا نہیں 23کروڑ عوام کا ہے اور ان سے ہر معاملے پر اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔
پاکستان ایک آزاد ملک ہے جہاں قانون سے بالا کوئی نہیں۔ ٹی ایل پی کے ساتھ حکومتی معاہدے کو جتنی جلدی ہوسکے منظرعام پر لانا چاہیے تاکہ مزید بدمزگی جنم نہ لے یہ اس لئے بھی ٗضروری ہے کہ ٹی ایل پی کی جانب سے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کئے جانے کا عرصہ دراز سے مطالبہ کیاجارہا تھا اور اب جو معاہدے کی تفصیل سامنے آرہی ہیں اس میں کہا جارہا ہے کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا ٹی ایل پی نے کبھی مطالبہ کیا ہی نہیں۔اگرچہ مفتی منیب اس کی تردید کررہے ہیں۔ ان کے غیرمصدقہ مطالبات میں سعدرضوی اور ورکرز کی رہائی کے ساتھ کالعدم جماعت کا سٹیٹس ختم کرنے کا مطالبہ سرفہرست تھا۔ اگر یہ سب کچھ صحیح ہے تو عوام کے ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں کہ صرف یہ احتجاج ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے تھا۔املاک جلانے والوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ مستقبل میں کسی بھی قسم کی غیرضروری تنقید سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنی پوزیشن کلیئر کرے اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کے سامنے ٹی ایل پی سمیت دیگر تمام معاہدوں کو پارلیمان کے سامنے رکھا جائے تاکہ اپوزیشن کے تحفظات ہیں تو دور کئے جاسکیں۔ ادھر ٹی ایل پی کو Relaxation ملنے پر ایم کیو ایم نے بھی اپنے دفاتر کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ 3دیگر کالعدم تنظیموں نے عائد پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ محکمہ داخلہ نے انصارالاسلام پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کے ان کیمرہ اجلاس کی بریفنگ میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کاکہنا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے ایک ماہ کے لئے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا کہ جبکہ حکومت نے مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔ اگرچہ ٹی ٹی پی سے یہ کوئی پہلا معاہدہ نہیں ہوا اس سے قبل 6معاہدے ہوچکے ہیں لیکن اس میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوسکا جس کی ایک بڑی وجہ ٹی ٹی پی کا قانون کو ماننے سے انکاری ہونا ہے۔ اب حکومت اس بارے وضاحت پیش کرے گی کہ ان کی جانب سے مذاکرات آئین و قانون کے مطابق ہونے کی جو یقین دہانی کروائی جارہی ہے کیا وہ قانون ٹی ٹی پی کے لئے قابل قبول ہے یہی نہیں بلکہ ٹی ٹی پی کی قیادت نے اپنے اتحادیوں کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا ہے یا نہیں۔ دراصل یہی وہ سوالات ہیں جن کو بلاول بھٹو نے اٹھایا ہے۔ حکومت 2018ء سے سولوفلائٹ کررہی ہے اور اپوزیشن کومکمل طور پر نظرانداز کئے ہوئے ہے جو کسی طوربھی جمہوری اپروچ نہیں ۔ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کو عسکری حکام کی جانب سے تفصیلی بریفنگ ملک کو درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے خوش آئند ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ خارجہ امور، داخلی سلامتی، افغان صورتحال، بیرونی اور اندرونی چیلنجز پر مکمل بریفنگ دی گئی، کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہوں۔ ادھر وزیراعظم کی قومی سلامتی کے اہم اجلاس میں عدم شرکت پر بھی بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ وہ اس اجلاس میں شرکت کرکے ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی کے معاہدوں کے حوالے سے اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دے کر انہیں مطمئن کرسکتے تھے لیکن نجانے وزیراعظم ہر اہم فیصلے پر ہونے والی میٹنگ میں غیرحاضر کیونکر ہوتے ہیں؟ عمران خان بنیادی طور پر ایک جمہوری سوچ رکھنے والے شخص ہیں لیکن ان کے بعض فیصلوں سے آمرانہ سوچ جھلکتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اپوزیشن کو کرپٹ کہہ کر نظرانداز کرنے کی حکمت عملی کو حکومت کو بالکل اسی طرح خیرباد کہہ دینا چاہیے جس طرح اس نے دیگر بہت سی چیزوں پر کمپرومائز کیا ہے۔ اب جبکہ فواد چودھری معاہدے کو پارلیمنٹ میں لانے کی بات کرکے اپوزیشن کو مطمئن کرنے کی جو ناکام کوشش کررہے ہیں تو سوال یہ بھی بڑا اہم ہے کہ کیا حکومت کسی ایسے نکتے اور شق پر ازسرنو غور کرکے تبدیل کرے گی جس پر اپوزیشن نے اعتراض اٹھائے۔
وطن عزیز میں معاہدوں کی ایک بڑی طویل داستان ہے اور معاہدے چونکہ صحیفے نہیں ہوتے اس لئے ان کے ٹوٹنے کا امکان بھی ہمیشہ ہی رہتا ہے جس کی بنا پر ریاست ہمیشہ دبائو میں ہی نظر آتی ہے۔ ابھی چند روز قبل ایک رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں سرفہرست رکھا گیا جہاں قانون کی حکمرانی نہیں۔ رپورٹ میں اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کرپشن، اقربا پروری کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام میں موجود نقائص کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو کوئی معاہدہ بھی کرنے سے قبل تمام فریقین کو اعتماد میں لیناچاہیے تاکہ مستقبل میں کسی بھی تلخی سے بچا جاسکے۔ 7دہائیاں گزرنے کے بعد وقت آگیا ہے کہ ریاست خود کو درست کرے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے اور ایسا صرف اسی صورت ہوگا کہ جب قانون ہاتھ میں لینے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان گومگو حالات کا شکار ہے تو ضروری ہے کہ حکومت کنفیوژن کا شکار ہونے کی بجائے معاملات کو کنٹرول کرنے کی سعی کرے کیونکہ حکومت کی جانب سے اب تک معاملات بالخصوص مہنگائی، امن و امان سمیت دیگر کو کنٹرول کرنے کی ابھی تک کوئی سبیل ہی نہیں کی ہے۔ اگرچہ قومی سلامتی کے اجلاس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے سیاسی قیادت کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دیئے لیکن وزیراعظم جمہوری ملک کے سربراہ ہیں اس لئے ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات بارے اپوزیشن کو بریفنگ کو اپنی ذمہ داریوں کا حصہ سمجھناچاہیے کیونکہ معاملات کو مزید الجھانے کی بجائے اسے درست کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے تبھی جاکر وطن عزیز کو درپیش ہمہ جہت چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کیاجاسکتا ہے وگرنہ اس سیاسی انتظار کی سی کیفیت کا ملک دشمن طاقتیں فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گی۔ اس سے پہلے کہ کوئی سانحہ جنم لے، تمام فریقین کو اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کرنی چاہئیں، یہی وقت کی پکار ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر