مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مذاکراتوں اور معاہدوں کا موسم||حیدر جاوید سید

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ٹی ٹی پی سے مزاکرات کے معاملے پر جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا جواب دینا بہت ضروری ہے کیونکہ عمومی تاثر یہ بن رہا ہے کہ " 2013 " کے انتخابات جیسا کوئی انتظام درکار ہے " اس تاثر کو دور کرنا حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک لبیک کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کا عمل مکمل ہوتے ہی کالعدم لشکر طیبہ ۔ سپاہ صحابہ اور ایم کیو ایم نے بھی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے مطالبے کے حق میں لاہور کراچی اور اسلام آباد میں دھرنے دینے کا اعلان کیا ہے دوسری جانب پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے اہم نکات پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔
فورتھ شیڈول میں شامل آٹھ ہزار کارکنوں کے نام بھی نکال دیئے جائیں گے۔ وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کی سفارش پر ٹی ایل پی کے کالعدم تنظیموں کی فہرست سے اخراج کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ معاہدہ کے مطابق ٹی ایل پی کے اب تک 21سو کارکن رہا کئے جاچکے ہیں جبکہ وزیر آباد اور گجرات کے درمیان دریائے چناب کا پل 14روز بعد ٹریفک کے لئے جزوی طور پر کھول دیا گیا ہے۔ سوموار کی سپہر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں عسکری حکام نے کمیٹی کو ملک کی داخلی صورتحال، تنازع کشمیر ، افغان ایشو، کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سمیت دیگر اہم امور پر بریفنگ دی۔ ٹی ایل پی کوسیاسی عمل میں پرامن طور پر شرکت کا موقع دینا بظاہر مثبت اقدام ہے البتہ بعض سوالات کے جواب سے ارباب حکومت کا گریز ابہام پیدا کررہا ہے۔
اسی طرح کالعدم ٹی ٹی پی سے افغان طالبان کے رہنما سراج حقانی کے توسط سے مذاکرات پر بھی سوالات ہیں۔ امید ہے کہ عسکری حکام اہم ایشوز پر پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کو بریفنگ کے دوران ٹی ٹی پی سے مذاکرات سمیت دیگر امور پر بھی کمیٹی کو اعتماد میں لیں گے۔
یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی ،
عسکریت پسندی کبھی بھی کسی معاملہ کا حتمی حل نہیں رہی البتہ یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ عسکریت پسندی نے جنم کیوں لیا اس کے مقاصد کیا تھے۔
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ حالیہ دنوں میں ٹی ایل پی کے احتجاج کے دوران تواتر کے ساتھ اس تنظیم کے بھارت سے روابط پر بات کی جاتی رہی۔
ٹی ایل پی اور بھارت کے روابط بارے عوام کو وزراء نے بتایا بعدازاں اس سے مذاکرات اور معاہدہ کرنے والوں نے یا پھر پابندی کے خاتمہ کی سفارش کرنے والی پنجاب حکومت ان تینوں میں سے کسی نے اس الزام کی وضاحت کی تردید نہ ہی یہ بتایا کہ کیا محض ایک وضاحتی تحریر ضامن ہوسکتی ہے۔
اس پر دوآرا نہیں کہ ہر شخص خواہش مند ہے کہ ملک میں امن و امان ہو، قانون کی بالادستی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ، تشدد، تعصب اور تکفیر کے بیوپار کا کوئی بھی حامی نہیں ماسوائے ایک مخصوص طبقے کے، اس مخصوص طبقے کی اصلاح کیسے ہوگی یہ بذات خود ایک سوال ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کا معاملہ ٹی ایل پی سے قدرے نہیں یکسر مختلف ہے۔ اب اس سے بھی افغان عبوری حکومت رہنمائوں کی درخواست پر مذاکرات ہورہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق افغان عبوری حکومت کی طرف سے اس مذاکراتی عمل میں سراج حقانی نے شرکت کی یہ بھی کہ اگر معاہدہ ہوتا ہے تو افغان طالبان کی قیادت اس کی ضامن ہوگی۔ کسی مرحلہ پر ٹی ٹی پی نے معاہدے سے انحراف کیا تو اس کے خلاف کارروائی میں افغان طالبان مانع نہیں ہوں گے بلکہ افغان حدود میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت اور عسکری حکام امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات، معاہدے اور اگلے مراحل کے نتائج کو سامنے رکھ کر ٹی ٹی پی سے مذاکرات کررہے ہیں تاکہ جووسائل عسکریت پسندی کے خلاف استعمال ہورہے ہیں انہیں قومی تعمیروترقی کے لئے بروئے کار لایاجاسکے۔
ایک طرح سے یہ خواہش غلط نہیں۔ دیکھا یہ جانا ہوگا کہ کیا کالعدم ٹی ٹی پی کے اندر موجود دھڑے مذاکراتی عمل کا حصہ ہیں یا ایک دو مخصوص گروپ۔ اسی طرح تین دوسرے عسکری گروپ جماعت الاحرار، جنداللہ اور لشکر جھنگوی کہاں کھڑے ہیں۔ یہ تینوں جدا جداتشخص کے ساتھ پچھلے کئی برسوں سے سرگرم عمل ہیں۔
مذاکرات کا عمل اگر صرف نور ولی محسود کے ساتھ جاری ہے تو کیا صرف اس گروپ سے مذاکرات کے نتائج دوسرے دھڑوں کے لئے قابل قبول ہوں گے؟
حکومت اور عسکری حکام کو یہ امر مدنظر رکھنا ہوگاکہ قومی سلامتی اور سماجی وحدت کے خلاف ماضی میں سرگرم عمل رہنے والے ان عسکری گروپوں کی کارروائیوں میں 70ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے۔
کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ ان سے مذاکرات کے آغاز سے قبل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکمت عملی وضع کی جاتی ثانیاً یہ کہ کیا افغان عبوری حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی سے ہونے والے مذاکرات اگر کسی معاہدہ پر ختم ہوتے ہیں تو اس معاہدہ کے حوالے سے ٹی ٹی پی کی ضامن بن سکے؟
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ افغان عبوری حکومت کو فی الوقت داخلی محاذ پر داعش کی عسکریت پسندی کا سامنا ہے۔
داعش کے خراسان چیپٹر میں کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں سے الگ ہوئے عسکریت پسندوں کے علاوہ خود افغان طالبان کا ایک گروپ اور دیگر عناصر موجود ہیں۔ دہشت گردی کے دبائو کا شکار عبوری افغان حکومت ان عسکری گروپوں کو الگ الگ کرکے کیسے معاملہ کرپائے گی۔ اسی طرح کیا 70ہزار پاکستانیوں کے جنازے اٹھانے والی قوم اعتماد سازی کے عمل کے بغیر ٹی ٹی پی سے معاہدہ کو مان لے گی؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ے کہ ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی کے معاملات یکساں ہرگز نہیں ثانیاً یہ کہ ٹی ٹی پی کسی سیاسی عمل سے بھٹک کر عسکریت پسندی کی طرف نہیں گئی ثالثاً یہ کہ ٹی ٹی پی کے نور ولی محسود گروپ سے مذاکرات کی کامیابی عسکریت پسندی کے مکمل خاتمے کی ضامن بن سکے گی؟
یہاں یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ اگر عسکریت پسندی کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے تو کیا اسے جواز فراہم کرتی تکفیریت کے خاتمے کے لئے بھی کوئی حکمت عملی وضع کی گئی ہے؟
اسی طرح اس سوال کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کیا حکومت اور عسکری حکام اگلے مرحلے میں بی ایل ایف یا سندھی قوم پرستوں کی ایک کالعدم تنظیم کے لئے بھی مذاکرات کا دروازہ کھول کر انہیں قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دیں گے؟
مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر مذاکراتی عمل کو محض ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی کے نور ولی محسود گروپ تک محدود رکھا گیا تو اس سے شبہات پیدا ہوں گے یہ شبہات مسائل کو جنم دینے کا موجب بن سکتے ہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ مناسب یہی ہوتا کہ کالعدم تنظیموں سے مذاکراتی عمل کے آغاز سے قبل پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلاکر اس میں بات کرلی جاتی تاکہ ایک مربوط حکمت عملی وضع کرکے اصلاح احوال کے لئے مزید اقدامات اٹھائے جاتے۔ مکرر اس امر کی طرف متوجہ کرنا ازبس ضروری ہے کہ کالعدم تنظیموں سے مذاکرات اور معاہدوں سے یہ تاثر ہرگز نہیں ابھرنا چاہیے کہ یہ سب بہ امر مجبوری ہوا اور ہورہا ہے۔
ٹی ایل پی سے ہوئے معاہدہ اور پھراسے خفیہ رکھ کر جس طرح اس پر عملدرآمد ہوا اس سے سوالات نے جنم لیا۔ بعض وزراء سوالات کا جواب دینے کی بجائے ایسی تاویلات پیش کرتے ہیں جن سے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے یا یہ کہہ کر جان چھڑالیتے ہیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔
اسی لئے رائے عامہ کا بڑا حلقہ یہ جاننا چاہتاہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کاایجنڈا کیا ہے اور یہ بھی کہ عوام کو پیشگی اعتماد میں لئے بغیر اٹھایا گیا قدم اگر کسی معاہدہ کا سبب بنتا ہے تو کیا یہ عوام کے لئے قابل قبول ہوگا بالخصوص ان 70ہزارخاندانوں کے لئے جن کے پیارے عسکریت پسندوں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے؟ امید واثق ہے کہ حکومت اور دیگر حکام ان سوالات کا تسلی بخش جواب دیں گے تاکہ کسی قسم کی بدمزگی پیدا نہ ہونے پائے۔
پسِ نوشت
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ٹی ٹی پی سے مزاکرات کے معاملے پر جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا جواب دینا بہت ضروری ہے کیونکہ عمومی تاثر یہ بن رہا ہے کہ
” 2013 ” کے انتخابات جیسا کوئی انتظام درکار ہے ” اس تاثر کو دور کرنا حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: