سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر جنوبی پنجاب پاکستان تحریک انصاف عون عباس بپی کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں کونسلر سے میئر تک کارکنوں کو ٹکٹ دیں گے۔ انتظامیہ پی ٹی آئی کے ورکرز کو عزت دے۔ عون عباس بپی جس طرح جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کو منظم کرنے کے لئے طوفانی دورے کررہے ہیں اس سے عرصہ دراز سے نظرانداز اور مایوس کارکنوں کو حوصلہ ملے گا کہ کوئی تو ہے جو جہانگیر ترین کے بعد ان سے ملتا ہے اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ اگر عون عباس بپی کے بطور پی ٹی آئی کارکن جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ طویل عرصے سے پی ٹی آئی سے منسلک ہیں اور ہر سطح پر پارٹی کا منشور بڑے دبنگ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ عون عباس بپی کے حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ ہمیشہ ایک سنجیدہ سیاسی کارکن کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ آواز اونچی کرنے سے زیادہ مضبوط ۔۔۔۔۔۔ سے بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور یہی چیز انہیں پی ٹی آئی کے دوسرے ورکرز سے منفرد کرتی ہے کہ وہ تمام تر مخالفتوں اور سیاست کے باوجود اپنی قیادت کی نظر میں معتبر ٹھہرتے ہیں۔ اب جبکہ جنوبی پنجاب جیسے مشکل خطے کی ذمہ داری پارٹی چیئرمین نے انہیں دی ہے تو وہ اسے بڑی جاں فشانی سے ادا کررہے ہیں اور کارکنوں کو گراس روٹ لیول پر متحد کررہے ہیں۔ بظاہر ان کا ٹارگٹ بلدیاتی الیکشن نظر آرہا ہے اور وہ بلدیاتی الیکشن میں کارکنوں کی بھرپور نمائندگی کی بات ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں کہ جب جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ اراکین جیتے لیکن اس کے باوجود یہاں کے نمائندے خطے کا سپوت ہونے کا حق ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ اب اگر اس ڈیڑھ برس میں کوئی چمتکار ہوجائے تو شاید آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی دوبارہ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھر ے لیکن کڑوا سچ تو یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے وعدے سے لے کر کوئی ایک بھی پی ٹی آئی نے پورا نہ کیا جبکہ مہنگائی کے عفریت نے ان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے اور اب اس خطے کے لوگ بھی 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کے اپنے فیصلے پر شرمندہ نظر آتے ہیں کیونکہ وہ حکومتی کارکردگی جس کا راگ خان صاحب نے ایک طویل عرصے تک الاپا ، وہ اس کو ڈلیور کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
جنوبی پنجاب ایک زرعی علاقہ ہے لیکن دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج تک کوئی جامع زرعی پالیسی تک منظرعام پر نہیں آسکی۔ ہاں البتہ وزیراعظم کی جانب سے گاہے بگاہے بڑے زرعی پیکیج کا اعلان کر کے کسانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کی کپاس کو کبھی وائٹ گولڈ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، یہاں کے آم کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ دنیا کی بہترین گندم بھی اسی خطے میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر حکومت زرعی شعبے میں اصلاحات لے آتی ہے تو کم از کم اس خطے کے لوگوں کو تو کچھ ریلیف مل جاتا اور یہاں کے کسانوں کی زندگیوں پر بھی مثبت اثر پڑتا لیکن حکومت نے اپنے دور اقتدار میں جہاں دیگر شعبوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا وہیں زراعت کو بھی حسب روایت مکمل طورپر نظرانداز کئے رکھا اسی لئے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی باہر سے منگوانا پڑرہی ہیں۔ ایک طرف چینی 150روپے فی کلو سے زائد نرخوں پر فروخت ہورہی ہے جبکہ مشیر خزانہ شوکت ترین پاکستان سرپلس چینی رکھنے والا ملک بن گیا ہے، کا راگ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود الاپ رہے ہیں کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے 27نومبر 2021ء سے قبل کرشنگ سیزن شروع کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دیر سے کرشنگ کے باعث کاشتکاروں کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوجائے گا۔ ادھر معاون خصوصی شہباز گل کا کہنا ہے کہ سندھ کی شوگر ملیں وقت پر چلتیں تو آج چینی کا بحران پیدا نہ ہوتا۔ادھر شبلی فراز حکومت کے ذمہ دار ہونے کا اعتراف کررہے ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جب سندھ میں 32 اور پنجاب میں 44شوگر ملیں ہیں، ظاہر ہے کہ یہ سب کی سب بااثر افراد کی ہیں جن میں آصف زرداری اور شریف خاندان سرفہرست ہیں۔ اگر ان دو خاندانوں کو عوام سے ذرا سی بھی ہمدردی ہوتی تو کم از کم اپنی شوگر ملوں سے آنے والی چینی کے نرخ ہی کم کردیتے۔اسی طرح جہانگیر ترین اور خسرو بختیار اگر چاہیں تو اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے عوام کو چینی کی مد میں ہی ریلیف فراہم کرسکتے ہیں لیکن یہاں عوام کا خون نچوڑنے کے لئے چونکہ سب ایک صفحے پر ہیں اور اس کا مظاہرہ آج بھی بڑی ہٹ دھرمی سے کیا جارہا ہے کہ عوام کو کچھ ہوتا ہے تو سیاستدانوں کی بلا سے، عوام سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ اگر آٹا، چینی اور گھی جیسی بنیادی ضروریات زندگی کے نرخ کنٹرول کئے جاتے تو عوام کی مہنگائی کے ہاتھوں اتنی درگت نہ بنتی۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو چینی کی قیمت 53روپے تھی جوکہ اب 160روپے فی کلو تک فروخت ہورہی ہے یعنی موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں چینی کی قیمت میں 200فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ 270ارب روپے ہڑپ کئے گئے۔ جنوری 2020ء سے اکتوبر 21ء تک اوسط پیداواری لاگت 63سے 73 روپے فی کلو رہی۔ گیلپ پاکستان سروے کے مطابق 59فیصد تاجر ملکی حالات کی سمت غلط ہونے پر نالاں ہیں اور کاروباری ترقی سے غیرمطمئن ہیں۔
ادھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حوالے سے بھی سیکرٹریز کے درمیان اختیارات کی سرد جنگ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق سیکرٹری انہار نے خطہ کے افسران، ملازمین اور اس کا ریکارڈ مانگا تو سیکرٹری پنجاب نے چٹا انکار کردیا اور معاملہ صوبائی وزیر کی مداخلت پر ختم ہوا۔ یاد رہے کہ صوبائی سیکرٹری کے پاس تبادلوں کا اختیار ہے۔ جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ تحریک انصاف نے کیا تھا لیکن اس حوالے سے تاحال کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہ ہونے سے عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر تقویت پکڑ چکا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے اس وعدے سے کچھ زیادہ مخلص نہیں اور 6کروڑ عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی اس لئے عون عباس بپی جو اپنی ہر تقریر میں صوبہ جنوبی پنجاب کے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کی یقین دہانی کرواتے ہیں، کو اس حوالے سے عملی اقدامات بارے بھی اپنے کارکنوں کو بتانا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ آج بھی نشستن گفتن اور برخاستن تک ہی محدود ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عون عباس بپی صرف جنوبی پنجاب کے کارکنوں کا لہو ہی نہ گرمائیں بلکہ ان سے 2018ء میں کئے گئے وعدوں کو بھی پورا کرنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت کو محسوس کریں کیونکہ جنوبی پنجاب کے عوام کو اب صوبے کے نام پر سیکرٹریٹ کا لالی پاپ دے کر کسی صورت بھی پاگل نہیں بنایا جاسکتا جبکہ دوسری طرف بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ووٹ آئوٹ ہونے کے خدشے کا بھی جنوبی پنجاب سے اظہار اس لئے کیا جارہا ہے کہ عوام حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہیں اس لئے ان کے نمائندے عوام کے پاس کون سی کارکردگی کی فہرست لے کر جائیں گے۔اس بارے بھی حکومت کی توجہ دلوانی چاہیے کیونکہ عوام اور خطے کے مسائل حل کرنا حکومت کی ہی اولین ذمہ داری ہے اس لئے عون عباس بپی جو کارکنوں کو بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹیں دینے کی جو یقین دہانی کروارہے ہیں اس بارے سنجیدگی سے ابھی سے کام شروع کردیں اور اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ عمران خان اب برملا 2018ء کے عام انتخابات میں ٹکٹیں غلط تقسیم کئے جانے کا برملا اعتراف کرچکے ہیں اس لئے اگر بلدیاتی انتخابات میں دیرینہ کارکنوں کو نظرانداز کرکے گھس بٹھیوں کو ٹکٹیں دی گئیں تو پھر پی ٹی آئی کا اگلے انتخابات میں اللہ ہی حافظ ہے خاص طور پر اس وقت جب حکومت اپنا بلدیاتی نظام تک متعارف نہیں کرواسکی اور جو ٹوٹا پھوٹا کے پی کے میں متعارف کروایا گیا اس میں بھی درجنوں سقم موجود ہیں لیکن ان کو دور کرنے کی کسی جانب سے کوئی سبیل نہیں کی جارہی۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت جنوبی پنجاب کے عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل پر فی الفور توجہ دے، یہی وقت کی اولین ترجیح ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر