انور خان سیٹھاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ پارٹیوں کو سمجھنے میں چند سیکنڈز لگتے ہیں کیونکہ انکے منشور اور ٹارگٹ مصنوعی جعلی اور خود ساختہ ہوتے ہیں جو کہ دیر پا کسی صورت نہیں چل سکتے چند شر پسند اور مفاد پرست عناصر کا دو تین پوائنٹ کا ایجنڈا ہوتا ہے مذموم مقاصد اور عزائم ہوتے ہیں جو کہ پورا ہونے کے ساتھ انہی پارٹیوں کو دفن کر دیتے ہیں جس کی مثالیں ق لیگ جماعت اسلامی سمیت تحریک انصاف کی شکل میں آپ کے سامنے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی بنیاد جس منشور پر رکھی گئی اسے پاکستان کے ساتھ ساتھ چلنا ہے پیپلزپارٹی اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں پیپلزپارٹی کے بغیر پاکستان اور پاکستان کے بغیر پیپلزپارٹی کچھ نہیں یہ دونوں دو جسم اور ایک جان ہیں اور پیپلزپارٹی کی پالیسیوں کے پاکستان کیلئے ثمرات تاقیامت کیلئے ہیں چاہے وہ سیاسی ہوں خارجی ہو دفاعی ہوں قانونی ہوں یا چاہے معاشی ہوں انہی پالیسیوں کی بدولت پاکستان نہ صرف مضبوط ہوتا ہے بلکہ دنیا کے برابر بھی کھڑا ہو جاتا ہے،
پاکستان کی واحد سیاسی جمہوری پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی ہے پیپلزپارٹی کی پالیسیوں اور فیصلوں (چاہے وہ کسی بھی میدان میں ہوں) کو سمجھنے کیلئے ایک مضبوط دور اندیش اور اعلی ظرف زہن کے ساتھ ساتھ سیاسی پی ایچ ڈی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پنجاب میں پارٹی کو کب کیسے بحال کرنا ہے اس کی بھی ایک پالیسی تھی جو چند سال پہلے زرداری صاحب نے اپنے خطاب (جس میں انہوں نے جنرلوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی) بیان کی تھی جس میں انہوں نے فرمایا تھا ہمیں نہ تو اقتدار میں آنے کی جلدی ہے اور نہ ہی اپنے جیالوں پر مظالم کرانے کی خواہش ایک بہترین وقت پر گلگت بلتستان آزاد کشمیر بلوچستان خیبر پختونخوا خواہ سمیت پنجاب میں بھی پارٹی کو فعال کریں گے اور پارٹی کی مقبولیت کو اسی سطح پر لائیں گے جیسے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو شہید کے دور میں مقبول تھی۔
حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے سیاسی قیادت فیصلہ کرتی ہیں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ جو فیصلہ ہم کررہے ہیں اسکے اثرات اور ثمرات کیا ہونگے اس لئے ایک بہتر وقت پر گراؤنڈ میں آنے کا فیصلہ ہوا اور جسکی بنیاد گلگت بلتستان الیکشن میں رکھی گئی،
گلگت بلتستان میں چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری صاحب نے ایک طویل عرصے تک قیام کیا اور یونین کونسل کی سطح پر جاکے کمپین میں حصہ لیا جو کہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ پیپلزپارٹی کی پوزیشن کیا تھی اور تمام ریاستی مشینری اور ہتھکنڈوں کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی نے سب سے ووٹ لئے اور دھاندلی کے ذریعے سیٹیں کم دی گئیں۔
پھر گلگت بلتستان کے بعد کشمیر انتخابات ہوئے آپ نے دیکھا کہ کس طرح پیپلزپارٹی میں کمپین چلائی اور تمام حکومتی ریاستی مشینری اور ہتھکنڈوں کے باوجود دو تین سیٹیں رکھنے والی پیپلزپارٹی کو درجن سے زائد نشستوں پر کامیابی دلائی جو کہ پیپلزپارٹی کا دوسرا بڑا معرکہ اور گراؤنڈ پر ماحول سازگار بنانے کا بہترین فارمولا بھی ثابت ہوا۔
گلگت بلتستان اور کشمیر کے بعد پیپلزپارٹی نے منشور اور فیصلوں کے مطابق بلوچستان کا رخ کیا پھر آپ نے دیکھا جس طرح بلوچستان میں پیپلزپارٹی میں شمولیتیں ہوئیں تاریخ میں اسکی نظیر نہیں بیک وقت ایک پورے صوبے کے لیڈران پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے اور یہ نہ رکنے والا سلسلہ ابھی بھی جاری و ساری ہے۔
خیبر پختون خواہ میں بھی شمولیت اختیار کرنے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں چند دن دن پہلے جماعت اسلامی سے بڑے نام اور وفاقی وزیر دفاع اور سابق وزیرِِاعلٰی خیبر پختونخوا کے خاندان کے لوگ پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیتیں اختیار کر چکے ہیں جو کہ ایک ثبوت ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی چاروں صوبوں سمیت گلگت و کشمیر کی بھی زنجیر ہے اور پیپلزپارٹی کو سندھ کی جماعت کے طعنے دینے والے گلگت بلتستان کشمیر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونی والی شمولیتوں اور رزلٹ سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ حواس باختہ بھی ہو چکے ہیں۔
اب ویژن اور فیصلوں کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کی پوری کی پوری توجہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہے کیونکہ پنجاب میں بننے والی فضاء کے اثرات پورے پاکستان میں پڑتے ہیں اور پنجاب سب سے زیادہ سیٹیں رکھنے والا صوبہ بھی ہے یہاں سے نشستیں حاصل کرنے والے وفاقی حکومت بناتے ہیں اور پیپلزپارٹی کا ٹارگٹ صرف وفاقی حکومت بنانا نہیں بلکہ پنجاب میں حکومت بنانے کا ٹارگٹ بھی ہے سنٹرل پنجاب کی قیادت اسی تناظر میں تبدیل کی گئی راجہ صاحب کو مرکز سے لاکر سنٹرل کی قیادت سونپی گئی اور اسکے انتہائی اچھے اور مفید اثرات بھی آتے نظر آرہے ہیں،
لاہور کے حلقے NA133 میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اسی حلقے سے آنے والے رزلٹ پنجاب میں PPP کا مستقبل بتائیں گے یہ انتخاب PPP کی بقاء کی جنگ ہے مرکزی و پنجاب کی قیادت بھرپور محنت کررہی ہے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو اپنی توپوں کا رخ NA133 کی جانب موڑنا چاہیے۔
تاریخ شاہد ہے بقاء کی جنگ میں تن من دھن قربان کرنے والوں کی وفاؤں کو سلام کیا جاتا ہے تھوڑی سی بھی بے وفائی غفلت یا کنارہ کش ہونے والوں کو نہ تو قیادت معاف کرتی ہے اور نہ ہی عوام پاکستان اور نہ ہی تاریخ معاف کرتی ہے سب لوگوں کی نگاہیں این اے 133 پر ہیں سب دیکھ رہے ہیں کون محنت کررہا ہے اور کون منافقت کون پیپلزپارٹی کی اس بقاء کی جنگ میں صف اول کا کردار ادا کررہا ہے کون کنارہ کش ہے ہون سوشل میڈیا ہو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رہا ہے کون سوشل میڈیا پر بھرپور کمپین کرکے پارٹی کا ٹمپو بڑھا رہا ہے سب کچھ نوٹ ہو رہا ہے۔
پہلے جو کچھ پنجاب میں ہوتا رہا یا پیپلزپارٹی میں موجود منافقین کرتے رہے اب وقت ہے محنت کرکے اپنی غلطیوں کا ازالہ حاصل کر سکتے ہیں اگر انکا یہی رویہ جاری رہا تو پیپلزپارٹی کی پیٹ میں چھرا گھونپنے والے ہمیشہ فاروق لغاری مصطفی کھر اور بابر اعوان کی صفوں میں جا بیٹھتے ہیں انکے حشر قوم کے سامنے ہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت جب پیپلزپارٹی پنجاب میں بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور وہ لوگ جو خود کو پچاس سال سے جدی پشتی جیالہ کہتے ہیں راجہ صاحب کے نام طنزیہ کھلے خط لکھ رہے ہیں جو کہ پیپلزپارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے اب وہ یاد رکھیں انہیں معافی کسی صورت نہیں ملے گی۔
انہوں نے پیپلزپارٹی کا نام لیکر اربوں روپے کی جائیداد بنائی بڑے بڑے مفاد حاصل کئے محترمہ کی شہادت کے بعد سے اب تک دن رات روتے نہیں تھکتے تھے کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں آنا چاہیے یہاں توجہ دینی چاہیے یہاں بیٹھنا چاہیے جب پیپلزپارٹی پنجاب میں آ گئی تو انہوں نے روایتی انداز میں منافقت کرتے ہوئے ذاتی پسند نہ پسند کے رونے شروع کر دیئے این اے 133 میں پیپلزپارٹی ہے امیدوار اسلم گل پر الزامات لگانا شروع کئے جو کہ پیپلزپارٹی ہے اندر منافقت کا کردار ادا کرنے والوں کا ثبوت ہے۔
چوہدری اسلم گل صاحب کو مرکزی قیادت کے حکم کے مطابق بلکہ فیصلے کے مطابق ٹکٹ دیکر میدان میں اتارا گیا ٹکٹ لینے والا جو بھی ہو ہمیں اس سے بلکل غرض نہیں ہونی چاہیے یہ تو ذاتی پسند نہ پسند کا معاملہ ہے میں تو کہتا ہوں جہاں لفظ "تیر” آ جائے تو خون بھی معاف کر دینے چاہیئیں کیوں کہ "تیر” والوں نے ہمارے لئے اپنے خون پیش کئے جانوں کے نذرانے پیش کئے خاندان کے خاندان قربان کر دیئے تو ذاتی پسند نہ پسند اور سوچ رکھنا فضول ترین بات ہے۔
قیادت کا ہر فیصلہ پارٹی اور ملک کے وسیع تر مفاد میں ہوتا ہے جس بندے کو بھی ٹکٹ دیں ڈسکس بھی نہیں کیا جاسکتا ساتھ دیا جاتا ہے لاہور کے جیالے اس بقاء کی جنگ میں ایسا کردار ادا کریں جو کہ انہوں نے ضیاء الحق کے دور میں جیلیں کاٹ کر کوڑے کھا کر پھانسیوں پر چڑھ کر ادا کیا تھا۔
این اے 133 کے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کے پاس ٹکٹ لینے اور پارٹی میں شامل ہونے والوں کی لائنیں ہونگی انشااللہ اور پیپلزپارٹی ایسے ابھرے گی جیسے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں تھی اور انشااللہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں اور وفاق میں بھی حکومت بنائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
مسائل کا حل صرف پیپلزپارٹی ۔۔۔انور خان سیٹھاری
پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید
پاکستان کی تباہی میں عدلیہ کا کردار ۔۔۔انور خان سیٹھاری
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ