مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاہور واقعہ اور ہمارے سماجی رویے||فضیل اشرف قیصرانی

اٹھائیں اپنی ماں کی ممتا کی قسم اور کہیں کہ ہاں ہاں یہی لڑکی اس سب کی ذمہ دار ہے اور وہ تمام مرد بلکل معصوم ہیں کہ انسان اپنے آپ میں جنسی جانور بھی ہے!

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سماج اور سماجی اقدار معلوم انسانی تاریخ میں کھبی جامد نہیں رہیں۔نسل در نسل سماج اور سماجی اقدار ارتقائ عمل سے گزر کر آج اپنی موجودہ شکل میں ہمارے سامنے ہیں ۔یہ یہاں بھی جامد نہیں بلکہ متحرک اور ارتقا پذیر ہیں۔یہ عمل ہزارہا سال سے یوں ہی جاری ہے اور آگے بھی ایسے ہی جاری رہے گا کہ،
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
لاہور میں ہوۓ واقعہ پر ہمارے سماج میں تفریق بنیادی طور پر جامد سماج اور متحرک سماج کی تفریق ہے۔جامد سماج کے نام لیوا اس بات کو سمجھنے سے یکسر عاری اور انکاری ہیں کہ آج کا انسان موجودہ عالمی صدی کا انسان ہے جہاں وہ صرف اپنے گِرد و نواح سے نہیں بلکہ تمام عالم سے جُڑا ہے۔عالم سےاس جڑت نے اسکی ذہنی و قلبی نسبت صرف اپنی علاقائ،سماجی،مذہبی اور ملکی اقدار تک نہیں رہنے دی بلکہ اب وہ خود کو عالمی اقدار سے بھی جڑا محسوس کرتا ہے۔
یوں آج کا انسان ایک عالمی انسان ہے اور “معاشرتی جانور سے ہوتا ہوا “عالمی جانور” تک کا یہ سفر مسلسل ارتقا پذیر ہے۔
زیادہ دور کو نہ جائیے کہ ہمارے سماج کو ارتقا بھی وہ ہی سمجھ آتا ہے جسے یہ خود ارتقا جانیں۔امارات اسلامی افغانستان کو ہی دیکھ لیں کہ بیس سال کے ارتقا میں طالبان نے خود کو کس قدر تبدیل کر لیا کہ اب وہ جامد و متحرک تصویر کے حرام ہونے نہ ہونے کی بابت بحث میں ہی نہیں پڑتے بلکہ اسکا آزادانہ استمال کر لیتے ہیں۔
ایک نہتی عورت پر کئ سو افراد بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔کیا وہ ایک عورت اکھٹے کئ سو افراد کو دعوت گناہ دے رہی تھی؟کیا اگر وہ کسی “ایک نامحرم “کے ساتھ تھی تو سینکڑوں دیگر نامحروں کو یہ حق تفویض ہو گیا کہ وہ اسے ہوا میں اچھالتے پھریں؟کیا مردوں کے ہجوم میں کسی ایک لڑکی کے موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہی چاہتی ہے کہ اسے بھنبھوڑا جاۓ؟اسکے کپڑے تار تار کر دیے جائیں؟اسے برہنہ کر کے اسکے ذاتی اعضا پر تشدد کیا جاۓ؟
اگر کسی جامد سماج کا نام لیوا یہ سمجھتا ہے تو اسے فلفور اپنے آکڑے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے اسی پاکباز سماج میں روزانہ لاکھوں لڑکیاں نا محرموں کے ساتھ اپنے گھر والوں کی مرضی سے سفر کرتی ہیں۔وہ روزانہ لاکھوں غیر محرموں کے ساتھ تصاویر لیتی ہیں اور اسی جامد سماج کے کئ لاکھ افراد انکی تصاویر کو لائیک کرتے ہیں۔ہمارے اسی جامد سماج میں زرق برق کپڑے پہن کر کروڑوں خواتین کروڑوں مردوں کے سامنے سے گزرتی ہیں۔
یاد رہے کہ وہ یہ سب اپنے گھر والوں کی مرضی سے کرتی ہیں!!!
کیسے؟
تو حضور ہمارے سماج کے گھروں کی ہی خواتین روزانہ بلا ناغہ کسی رکشے،ویگن یا بس کے نا محرم ڈرائیور کے ساتھ سکول،کالج اور یونیورسٹی جاتی ہیں۔ہمارے ہی سماج کی خواتین ہر سال کسی نہ کسی بورڈ،کالج یا یونیورسٹی میں پوزیشنز اپنے نام کرتی ہیں اور ہر سال کسی نا کسی نا محرم وزیر،وزیر اعلی یا گورنر سے میڈل وصول کرتی ہیں اور ہمارا سماج ہی اس پہ سجدہ شکر بجا لاتا ہے۔اور ہمارے سماج میں ہی شادیوں پر زرق برق کپڑے پہنے خواتین شادیوں کی رسوم میں موجود ہوتی ہیں اور شرعی تعریف کی رو سے اس دوران وہ کئ نا محرموں کے سامنے سے گزرتی ہیں۔
بھلے آپ مینار پاکستان پر لڑکی کی موجودگی پر ہزاروں اعتراضات اور سوالات اٹھائیں مگر اس دوران victim blaiming کر کے درندگی کو ہوا نہ دیں ۔آپ اس ٹک ٹاکر کو عالمی اقدار سے متاثر فرد سمجھتے ہوۓ معافی دے دیں اور ہمارے سماج کی دیگر خواتین کو جنکو آپ عالمی اقدار سے متاثر نہیں سمجھتے انکی ان بھیڑیوں سے حفاظت کا کوئ لائحہ عمل تجویز کریں کہ یہاں تو محد سے لحد تک کوئ عورت محفوظ نہیں،نہ محرموں سے اور نہ نا محرموں سے۔
توہین شدہ اکھڑی قبریں آج بھی اسی طرح کھلی پڑی ہیں ،آج بھی نا بالغ بچیوں کے توہین شدہ لاشے سر بازار ادھڑے پڑے ہیں،آج بھی پاکستان میں دوران شیر خوارگی بچیوں سے زنا کی اطلاعات ہیں اور آج بھی پاکستان میں محرم رشتے خواتین کی ناموس کے درپے ہیں۔
سو مرد بنیں اور اپنی مردانگی کی قسم اٹھا کر کہیں کہ مینار پاکستان پہ جو ہوا سہی ہوا!
اٹھائیں اپنی بچی کے سر کی قسم اور کہیں کہ ہاں وہ ٹک ٹاکر اسی کی مستحق تھی!
اٹھائیں اپنی ماں کی ممتا کی قسم اور کہیں کہ ہاں ہاں یہی لڑکی اس سب کی ذمہ دار ہے اور وہ تمام مرد بلکل معصوم ہیں کہ انسان اپنے آپ میں جنسی جانور بھی ہے!
اور اٹھائیں اپنی بہن اور بیوی کی عصمت کی قسم کہ اس ٹک ٹاکر کی عصمت کسی طور بھی بہن اور بیوی کی عصمت سے کم تھی۔
مرد بنیں ورنہ خلیل الرحمن قمر جیسے تو ہر نکڑ پہ تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں۔
عورت زندہ آباد
مجمعے میں موجود عورت زندہ آباد
اور

%d bloggers like this: