مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریروں اور اعلانات کی کہانی کوئی نئی نہیں بلکہ یہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب پاکستان تحریک انصاف مسّلم لیگ نواز کی حکومت کے خلاف اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا دئیے ہوئے تھی اور ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں عمران خان روزانہ رات کو کنٹینر پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے ہوئے اس وقت کے حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں سناتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ان کی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ملک کنگال اور عوام بدحال ہوچکے ہیں ملک کا بچہ بچہ بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے مہنگائی سے عام آدمی کا جینا محال ہوچکا ہے اور وہ پوری قوم کو سمجھایا کرتے تھے کہ اگر ملک میں مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھ جائیں آپ کے حکمران چور ہیں۔ اپنی تقریروں میں پیٹرول کے نرخ بڑھنے پر اس وقت کے حکمرانوں کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ پیٹرول پر ٹیکس کے زریعے حکمران عیاشیاں کرتے ہیں ہم اقتدار میں آکر یہ ناجائز ٹیکسز ختم کر کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نصف سے بھی کم کر دیں گے۔ اسی طرح بجلی کے نرخ بڑھنے پر اپنی تقریروں کے دوران بجلی کے بل جلاتے ہوئے کہا کرتے کہ پوری قوم بجلی کے بل دینے سے انکار کر دے اور پھر انہی تقریروں میں آئی ایم ایف سے متعلق حکومت کی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ حکمرانوں نے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے اقتدار میں آکر ملک و قوم کو آئی ایم ایف سے نجات دلاؤں گا یہاں تک کہ خود کشی کر لوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا۔ اسی طرح اپنی تقریروں میں اعلان کیا کرتے تھے کہ اقتدار میں آکر چوروں ، لٹیروں اور کرپٹ لوگوں سے پائی پائی وصول کروں گا۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا سب کا کڑا احتساب کروں گا اور ان سب کو رلاؤں گا۔
تقریروں اور اعلانات کا سلسلہ اقتدار میں آنے کے بعد مزید تیز ہوگیا وزیر اعظم عمران خان تمام صوبوں کے گورنر ہاؤسز کو عوام کے لیے کھولنے ، گورنر ہاؤس پنجاب کی دیواریں گرانے اور اسے میوزیم میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اسی طرح انھوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا۔ اسی طرح بے جا پروٹوکول ختم کرنے اور سادگی اپنانے کا اعلان کیا اسی طرح انھوں نے وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات کم کرنے کے لیے بھینسیں بھی نیلام کیں اور معیشت کی مضبوطی اور عوام کی خوشحالی کے لیے مرغیاں پالنے کا پلان بھی ترتیب دیا۔ اپنی تقریروں میں وزیر اعظم نے اقتدار کے پہلے سو دنوں کے اندر ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان بھی کیا۔ اور پھر ان سو دنوں کے لیے 6 ماہ مانگے اور بعد ازاں دو سال تک کی مہلت مانگی تاہم اس دوران وہ ہمیشہ عوام کو تسلیاں دیتے رہے کہ گهبرانا نہیں برے دن ختم ہورے ہیں اور اچھے دن آنے والے ہیں اور اب تین سال بعد انھوں نے ایک اور تقریر فرمائی۔ تقریریں تو خیر وہ اکثر کرتے رہتے ہیں جن میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی اعلان ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ملک اور قوم کی تقدیر بدلنے والی ہوتی ہے مگر اس تقریر کے لیے خاص اہتمام کیا گیا تھا وزیر مشیر اور ترجمان پچھلے کئی ہفتوں سے قوم کو خوشخبریاں دے رہے تھے کہ وزیر اعظم کی تاریخی تقریر کے بعد بھوک غربت اور مہنگائی سے نجات کا ایک فارمولا مل جائے گا اور عام آدمی کی حالت بدل جائے گی اور پھر وزیر اعظم نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ ہم پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام شروع کرنے جارہے ہیں جس سے ملک کو فلاحی ریاست بنانے میں مدد ملے گی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں حسب سابق ماضی کے حکمرانوں پر الزامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ پاکستان بھارت بنگلہ دیش امریکہ سمیت بہت سے ممالک سے بہت سستا ملک ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں صوبوں کے تعاون سے 2 کروڑ غریب خاندانوں کے لیے 120 ارب کا بڑا ریلیف پیکج شروع کرنے کا اعلان کیا جس کے زریعے آٹا ، گھی اور دال پر 30 فیصد سبسڈی دی جائے گی تاہم انھوں نے کہا کہ دنیا کے مقابلے میں پیٹرول سستا دے رہے ہیں اس لیے پیٹرول کے نرخ بڑھانے پڑیں گے اور آگے سردیوں میں گیس کا بحران بھی آئے گا۔
وزیر اعظم کی ماضی کی تقریروں اور اعلانات کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھ نہیں آتی اس ریلیف پیکج پر ہنسا جائے یا رویا جائے کیونکہ گزشتہ تین سالوں میں ہونے والی تقریروں اور اعلانات میں سواۓ طفل تسلیوں کے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا اور اب جس پیکج کا اعلان ہوا ہے نہیں معلوم کب شروع ہوگا اور اگر اگلے چند روز میں شروع ہوگیا تو 22 کروڑ کے ملک میں صرف دو کروڑ خاندانوں کو دیا جانے والا محض 30 فیصد ریلیف جو بمشکل ایک ہزار بنتا ہے اس سے عوام کو کتنا ریلیف مل سکے گا کیونکہ اس سے قبل احساس پروگرام ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سنٹرز یا سستے بازار اور یوٹیلٹی اسٹور پر عوام کا جو حشر ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
مگر دوسری طرف پیٹرولیم مصنوعات پر جو اضافے کا اعلان ہوا اس پر فوری عمل ہوگیا۔ ایسی صورتحال میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ
وزیر اعظم نے اس بات پر تو مخالفین کا منہ بند کر دیا ہے جو کہتے تھے کہ وزیر اعظم جو اعلان کرتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ اس بار وزیر اعظم نے یکم کو اوگرا کی طرف سے بھیجی جانے والی اضافے کی سمری مسترد کر دی اور پھر اپنی تقریر میں باقاعدہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا اعلان کیا اور پھر ابھی وزیر کی تقریر کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا اور اب گیس کے بحران کے لیے بھی تیار ہیں کیونکہ وزیر اعظم نے بحران کا بتایا ہے اس کے حل کا نہیں بتایا۔
ایسی صورتحال میں جب حکومت تاریخ کے سب سے بڑے ریلیف پیکج کا اعلان کر رہی ہو اور دوسری طرف پیٹرول ، گیس ، بجلی ، آٹا ، چینی اور ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہوں تو اسے تاریخ کے سب سے بڑے مذاق کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔؟ کاش کہ اگر تقریر کر دینے سے عوام کو ریلیف مل جاتا تو آج پوری قوم ایک بڑے ریلیف سے مستفید ہورہی ہوتی۔ اگر اعلان کر دینے سے غربت ختم ہوسکتی تو آج پاکستان امیر ترین ملک ہوتا اگر تقریروں سے مہنگائی ختم ہوسکتی تو آج پوری قوم ایک بڑی تبدیلی سے لطف اندوز ہورہی ہوتی اگر تقریروں اور اعلانات سے معیشت مضبوط ہوسکتی تو آج پاکستان کی معیشت پوری دنیا سے مضبوط ہوتی مگر سچ تو یہ ہے ایک تقریر ہوتی ہے پھر ہفتوں اس پر بحث ہوتی ہے اور پھر ایک نئی تقریر اور نیا اعلان ہوجاتا ہے اور عوام ایک نئی بحث میں الجھ جاتے ہیں دیکھتے ہیں اس تقریر کے اثرات کب تک برقرار رہتے ہیں اور یقیناً اس وقت تک ہمیں اسی تقریر اور اس کے اعلانات سے لطف اندوز ہونا ہوگا جب تک نئی تقریر نہیں ہوجاتی۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی