گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند قدم واپس چلنے کے بعد حذیفہ سنٹر کے ساتھ دو دکانوں بعد ایک دوکان کی طرف عمرانی صاحب نے میری توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ تقسیم سے پہلے یہاں ” مکندر لال” نامی ہندؤ کی سوڈا واٹر فیکٹری تھی جہاں شہر کے لوگ چہل قدمی کرتے ہوئے اسی سوڈا واٹر فیکٹری سے خصوصی بوتلیں پینے آتے تھے۔ 1950تک یہ سوڈا واٹر فیکٹری قائم رہی۔ میں نے حسرت سے ان نو تعمیر شدہ دوکانوں کو دیکھا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری اور سوچنے لگا کہ تقسیم اور بٹوارے نے ہمارے ماحول کو کیسا تبدیل کر دیا۔۔۔
ہم دونوں خاموشی سے قدم اٹھا رہے تھے۔ میں نے رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، عمرانی صاحب ایک منٹ ٹھہریئے اور دیکھئے! اس جگہ پر ٹیٹلر سینما اور ان چائے کے ہوٹلوں والی راہداری کے بعد پلازہ سینما تھی۔ پلازہ سینما کو 15 اپریل 1947کو ہندو مسلم فسادات میں آگ بھی لگائی گئی تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ سائیکل اور پیدل آتے جاتے لوگوں کے ساتھ کالج کے طلباء بھی ان سینماؤں پر خصوصی طور پر نمائش کے لیئے پیش کی جانے والی فلموں کے جالیوں کے اندر لگے پوسٹر دیکھنے کے لیئے رک جاتے۔ دِن کے تین بجے سے ہی لوگ یہاں پر جمع ہونا شروع ہو جاتے تھے۔ یہ لوگ تین سے چھ بجے والا فلم کا شو دیکھنے آتے تھے۔ بیشتر فلم بین سائیکل رکشہ پولر، دیہاتی دیہاڑی دار یا نوجوانوں پر مشتمل ہوتے جو دِن بھر کی مزدوری کے بعد تین گھنٹے خوابوں کی دنیا میں گزارتے تھے۔ وہ بھی کیا خوب صورت دور تھا، جب ٹیٹلر سے پلازہ سینما تک کے علاقے کو نئی فلموں کی ریلیز کے موقع پر برقی قمقموں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے دُلہن کی طرح سجایا جاتا تھا اور جمعہ، عیدین یا سرکاری چھٹی کے موقع پر شاندار اور خصوصی شو منعقد کئے جاتے تھے، خوب ہنگامہ اور ہلہ گلہ ہوتا تھا۔ سستی تفریح کی وجہ سے فلمیں اور ان کے گیت بھی سپرہٹ ہوا کرتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب عوام کی تفریح کا واحدزریعہ فلم بینی تھی۔ ماضی میں یا تو ریڈیو پر فلمی اشتہاری پروگرام چلتے تھے یا پھر کوچوان تانگے پر پوسٹر سجا کر ڈھول کی تھاپ پر فلم کی مشہوری کرتے تھے۔ گویا وہ تانگہ ہی ھمارا ٹی وی چینل، سوشل میڈیا اور ہماری دنیا تھا۔ آجکل تانگے کی جگہ ٹی وی چینل نے لے لی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تانگے کے آگے گھوڑا فٹ کیا جاتا تھا اور یہاں پر” اینکر ”۔۔ خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ انہی سینماؤں میں خواتین کے لیئے ہر ہفتے خصوصی شوز منعقد کئے جاتے تھے۔ دونوں سینما گھروں میں قائم چھوٹی سی کینٹین اور باہر دونوں اطرف چائے کے ہوٹلوں اور پان کے کیبن کا اپنا حسن تھا۔ عمرانی صاحب! میرے دل میں ان سینماٗوں سے وابستہ سینکڑوں حسین یادیں قید ہیں۔ نئی فلموں کی ریلیز کے موقع پر خوب ہنگامہ ہوتا تھا۔ ٹیٹلر اور پلازہ سینما میں مشاعرے اور مقامی فنکار ڈرامے بھی پیش کرتے تھے۔
جی گلزار صاحب! آپ بجا فرما رہے ہیں اسی پلازہ سینما میں انیس سو ساٹھ کی دہائی کے آخر پر والد محترم مولانا محسن علی عمرانی کی سربراہی میں ادبی تنظیم "بزم ِ اقبال” کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے عظیم الشان کل پاکستان محفلِ مشاعرہ جس میں شہر کے تمام شعراء کے علاوہ اس دور کے نامی گرامی شعراء جن میں ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، محبوب خزاں جیسے عظیم شاعر شریک مشاعرہ تھے۔ گلزار صاحب! یہی مشاعرہ تھا جہاں ایک دبلے پتلے نوجوان نے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے کاغذ کو بڑی مشکل سے سنبھال کر ایسے لہجے میں غزل سنانا شروع کی جسے کسی طرح بھی ٹکسالی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن اشعار کی روانی، غزلیت کی فراوانی اور خیال کی کاٹ ایسی تھی کہ بڑے ناموں کی باری کے منتظر سامعین بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گئے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ ڈیرہ کا سپوت اور فخر جناب غلام محمد قاصر مرحوم تھے۔ عمرانی صاحب کی باتیں سن کر میری آنکھوں میں بھی نمی اترآئی، ماضی ایک ایسا پُر سکوں اور طوفانی، شفّاف اور گدلا سمندر ہے جس کی تہہ میں ان گنت شکستہ خواہشوں، ثقافتوں، روایتوں، جگمگاتے خزانوں اور یادوں کے شہرِ خموشاں آباد ہیں۔ ان زیرِ آب بلّوریں محلّات میں یادوں کے پھول تیرتے پھرتے ہیں۔ سبز اور نیلی موجوں کے عکس انسان کے قلب و دماغ میں میں لہریں مارتے ہیں اور زمردّ کی روشنی میں چٹانوں کے پیچھے جل پریوں کی آوازیں اس سیّال ابدی سنّاٹے میں مدھم مدھم گونجتی ہیں۔ ماضی میں کھوئے ہوئے عمرانی صاحب نے اس پلازے کی طرف پیٹھ کرتے ہوئے کہا، گلزار صاحب بس 2005 تا 2007 کی لگاتار فرقہ واریت، تعصب، دہشت گردی کی لہر اور لینڈ مافیا کی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو کر پلازہ اور ٹیٹلر سینما اب ماضی کی حسین یاد بن کر رہ گئے ہیں۔ بجا فرمایا عمرانی صاحب! گزرتا وقت بہت سی چیزوں کو بدل دیتا ہے، کئی چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں، اور ان سے منسلک افسانوی پہلو وقت کی دھول میں کھو جاتا ہے۔
ہاں عمرانی صاحب! سینماؤں کے تزکرے سے یاد آیا، محلہ روشن چراغ شاہ سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دیرینہ دوست امان علیزئی صاحب نے بتایا کہ پچاس کی دہائی میں ڈیرہ شہر کے پرانے ٹیٹلر سینما کی جگہ کی مشرقی طرف جہاں وہ سامنے گول ہوٹل اور ڈاکٹروں کے کلینکس ہیں یہاں پر ایک اوپن ائیر سینما بنایا گیا تھا جس کا نام Mayfair رکھا گیا۔ مے فیر نام اصل میں سنٹرل لندن میں ایک علاقے کا نام ہے جہاں 1764-1686ء کے درمیان 78 سال مسلسل دو ہفتوں کا سالانہ میلہ منعقد ہوتا رہا تھا۔ بقول علیزئی صاحب کے کہ انہوں نے اس اوپن ائیر تھیٹر میں کئی فلمیں دیکھیں۔ ایک فلم آب حیات کا نام انہیں اب بھی یاد ہے جس کا مشہور گانا تھا۔۔۔میں غریبوں کا دل ہوں وطن کی زبان۔ بے کسوں کے لیے پیار کا آسمان۔دوسری فلم شیریں فرہاد دیکھی جس کا مشہور گانا تھا۔۔گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ۔حافظ خدا تمھارا۔۔ مے فیر سینما ایک کچی اینٹوں کی چار دیواری کے اندر سینما جتنے بڑے رقبے پر بنایا گیا تھا جس کی سکرین کا پردہ شمالی جانب تھا۔بیچ میں کرسیاں رکھی ہوتی تھیں اورشائقین کا کافی رش ہوتا تھا۔ مے فیر سینما کی تعمیر سے پہلے اس جگہ پر ایک مینا بازار ٹائیپ بھی لگتا تھا جس کی دکانیں باقاعدہ اسلام آباد کے جمعہ بازار کی طرح ہوتی تھیں اور کافی خرید و فروخت ہوتی جو بعد میں ختم کر دیا گیا۔ (جاری ہے)
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ