مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎صنفی امتیاز اور مین سپلیننگ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار لوگوں کو کچل دینا لمحہ فکریہ نہیں بنتا لیکن اگر ایک عورت احتیاط اور آہستہ روی سے گاڑی چلا رہی ہو، اس پہ ٹھٹھے لگانا ہمارا قومی مزاج ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طلسم ہوشربا کی داستان میں یہی ہوتا تھا نا کہ ایک کہانی پہ بات ختم نہیں ہوتی تھی، ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری۔ ہمیں ایسا کرنے کا قطعی دعوی نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ باگ اگر کسی بات کے بارے میں مزید جاننے کا اصرار کریں تو خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم کے مصداق۔

اب یہی دیکھیے کہ ہم نے مین سپلیننگ پہ بات کی تو بہت سے لوگوں کا سوال تھا کہ اس رویے کو کیسے پہچانا جائے کہ یہ تکبر آمیز احساس برتری جھاڑا جا رہا ہے یا واقعی مدد کرنے کی کوشش ہے؟

ہم نے کوشش کی کہ اس کی مزید وضاحت کر سکیں۔
”دیکھیے جو کچھ آپ مجھے سمجھا رہے ہیں کیا میں نے آپ سے پوچھا؟“
”نہیں لیکن میں نے سوچا کہ آپ کو اس بات کی تفصیل سے باخبر کر دوں“
”لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا میں نے آپ سے مدد مانگی کہ مجھے اس بات کی تفصیل سے آگاہ فرمائیے“
”نہیں لیکن میں نے سوچا۔“
”کیا آپ اپنے مرد ساتھیوں کے متعلق بھی ایسا ہی سوچتے ہیں؟“
”نہیں انہیں تو علم ہوتا ہی ہے“
”کیا اس لئے کہ وہ مرد ہیں؟“
”جی، ۔ وہ دیکھیے نا۔“
”گویا آپ کے خیال میں عورت عموماً بے خبر ہوتی ہے“
”وہ اصل میں عورتوں کو بہت سی باتوں کا علم نہیں ہوتا اور وہ اتنا غور بھی نہیں کرتیں“
”یعنی گھر اور بچوں کے علاوہ وہ کچھ اور نہیں سوچ سکتیں“
”وہ اصل میں خواتین کے اپنے شوق ہوتے ہیں نا، زیور کپڑے؟“
”آپ کا مطلب ہے کہ زیور کپڑوں کی شوقین کے پاس ذہن اور فکر کی طاقت نہیں ہوتی کیا؟“
”کچھ کم ہی ہوتی ہے“
دیکھا آپ نے، یہ ہے صنفی امتیاز اور مین سپلیننگ!

عورت کی سوچ محدود سمجھتے ہوئے اس کو چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھانے کی کوشش کرنا، چاہے وہ اس بارے میں کہیں زیادہ علم رکھتی ہو۔ بات کرنے کا موقع نہ دینا، بات جھٹلا دینا، قطع کلامی کرنا، درشت لہجہ اور متشدد الفاظ استعمال کرنا اور عورت کے ذاتی تجربات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی رائے کو مستند ماننا مین سپلیننگ کی بہت سی اشکال ہیں۔

مشہور ترین مثال ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ کے درمیاں ہونے والے اس ڈائیلاگ کی ہے جو صدارتی مہم کے دوران ہوا۔ ٹرمپ نے بدتمیزی سے اکیاون دفعہ ہیلری کی بات کاٹی اور ایسا پہلے چھبیس منٹ میں پچیس بار ہوا۔ دوسری طرف ہیلری نے کتنی بار یہ حرکت کی؟ وقت کے اس دورانیے میں ایک دفعہ بھی نہیں۔

مصنفہ برٹ جولیس نے لکھا، ”ٹرمپ کا رویہ دیکھ کر ہر عورت کی یادداشت میں اس جیسے کئی واقعات تازہ ہو گئے جو اسے دفتر، گھر، سکول کالج، اور بہت سی اور جگہوں پہ بار بار جھیلنے پڑے“

انگلستان کے کم گڈون نے اس مسلے کو سلجھانے کے لئے کچھ بنیادی نکات کی مدد سے ایک چارٹ ترتیب دیا جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر سکتا ہے۔

کیا آپ کے خیال میں ان کی مہارت میں کوئی کمی ہے؟

مہارت رکھنے والے لوگوں کو اگر بات سمجھانے کی کوشش کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی ذہانت اور مہارت پہ انگلی اٹھائی جا رہی ہے۔ بلاوجہ اپنے علم کو دوسروں پہ جھاڑنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو تیس مار خاں سمجھے بیٹھے ہیں۔

کیا وہ آپ سے کچھ جاننا چاہتی ہیں؟

اگر کوئی سوال پوچھے تو ضرور بتائیے۔ اگر استاد کے رتبے پر فائز ہیں تب بھی سمجھایا جا سکتا ہے لیکن بغیر کسی کے چاہے، ہر گز نہیں۔

کیا لاشعوری طور پر صنفی امتیاز آپ کی سوچ میں در آتا ہے؟

معاشرے کی بنت میں صنفی تفاوت کا تانا بانا اس قدر گہرا ہے کہ محسوس بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کی صلاحیتوں اور قابلیت کو کس قدر ارزاں سمجھا جاتا ہے۔

تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار لوگوں کو کچل دینا لمحہ فکریہ نہیں بنتا لیکن اگر ایک عورت احتیاط اور آہستہ روی سے گاڑی چلا رہی ہو، اس پہ ٹھٹھے لگانا ہمارا قومی مزاج ہے۔

”کیا کریں مردوں کا خمیر اسی سے اٹھا ہے سو عورتوں کو ان کے ساتھ نباہ کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے“ یہ فقرہ ہمیں قہقہے لگانے پہ مجبور کر گیا!

اگر آپ بھی ہنسنا چاہتے ہوں تو واللہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

%d bloggers like this: