حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سارے دوست اور قارین شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ "تحریر نویس بھی تاریخ کو اپنی پسند و ناپسند سے دیکھتا پڑھتا اور آگے بڑھاتا ہے” پہلی بات تو یہ ہے کہ کبھی غیر جانبداری کا دعویٰ ہی نہیں کیا دوسری یہ کے ہم ان پُرکھوں کے وارث ہیں جنہوں نے تاریخ کو پہلے مذہب کی بارگاہ میں بلی چڑھایا اور پھر عقیدوں کی کُند چھریوں سے کھلڑی اتاری اس کا جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے مثلاً ہمارے ہاں چوہتر برسوں سے یہ سمجھایا پڑھایا جارہا ہے کہ جس دن پہلے مسلمان نے برصغیر پاک و ہند میں قدم رنجہ فرمایا تھا پاکستان اسی دن معرض وجود میں آگیا تھا معاشرتی علوم کی درسی کتاب کے اسباق ہمارے ایمان کا حصہ ہے ہم میں سے کتنے لوگ تاریخ سے رجوع کرتے ہیں ؟ کتنے ایسے ہیں جو نسیم حجازی کو تاریخ نویس کی بجائے ناول نگار سمجھتے ہیں ؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہم تاریخ سے بھاگتے کیوں ہیں ؟ سادہ جواب یہی ہے کہ تاریخ کو مذہب کا درجہ دے دیا گیا اور ہم نے مان لیا جبکہ مذہب کی تاریخ ہوتی ہے تاریخ کا مذہب نہیں ہوتا یہی وہ نکتہ ہے جس نے ہم سے طالبعلموں کو سمجھایا کہ مذہب و عقیدہ فرد کا ہوتا ہے ریاستوں کا نہیں کیونکہ اگر ریاست یا ریاستیں مذہب و عقیدوں کی چادر اوڑھ لیں تو سماجی مساوات قائم کرنا از بس مشکل ہوجاتا ہے
بہر طور کچھ عرصہ قبل تاریخ کے حوالے سے جو عرض کیا تھا مکرر آپ کے سامنے رکھتا ہوں _
میں تاریخ کے مضمون میں بہت کمزور ہوں اسلئے
"بہت کچھ” تو بھول جاتا ہوں اور کچھ واقعات کو خالصتاً یہود وہنود کی سازش قرار دے کر پتلی گلی سے نکلنے میں جلدی کرتا ہوں۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود یہی مضمون (تاریخ) مجھے پسند بھی ہے،
آٹھویں جماعت کے امتحان میں سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے والے سوال کے جواب میں لکھ دیا تھا
” حجاج بن یوسف نے خلیفہ کو خط لکھ کر سندھ پر حملہ کرنے کی اجازت طلب کی اور اس کےساتھ اخراجات کے علاوہ ممکنہ مال غنیمت کاحساب بھی پیش کیا”
چچ نامہ کا یہ حوالہ لکھ کر اگلی سطر میں لکھ دیا کہ "کسی آزاد مورخ نے سری لنکا سے عرب جاتے مسلمان تاجروں کے جہاز کو لوٹے جانے اور پھر گرفتار ہونے والوں میں سے خواتین کے حجاج بن یوسف کو لکھے گئے خط اور قاصد کی تصدیق نہیں کی”
۔ اس طرح کم ازکم یہ طے ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں چونکہ حکومتیں چلانے کےلئے عشر و زکوةٰ کے علاوہ جنگ ہی کماﺅ انڈسٹری تھی جس کے ذریعے ملکی خزانہ بھرا جاتا تھا اس لئے سندھ کے مالدار اور زرخیز خطے پر عرب مسلمانوں نے لشکرکشی کی،
ایک وجہ اور بھی اس لشکرکشی کی لکھی ( لیکن وہ یہاں لکھنے سے قاصر ہوں )۔
پیپر مکمل کر کے نگران اُستاد محترم کو جمع کروا دیا۔ دو دن بعد اُستاد مکرم محمد رحیم ذوق نے کہا صاحبزادے آپ کو ہیڈماسٹر صاحب بلا رہے ہیں۔
کلاس روم سے نکل کر صدر معلم (ہیڈماسٹر) کے دفتر میں اجازت لے کر داخل ہوا۔
دفتر میں ہیڈماسٹر صاحب کے علاوہ اُردو کے استاد سید عباس نقوی، تاریخ کے استاد جناب مگسی صاحب اور ایک دو دیگر اساتذہ بھی تشریف فرما تھے۔
اساتذہ کرام کو سلام کر چکا تو صدر معلم بولے صاحبزادے۔ سندھ میں مسلمانوں کی آمد اور محمد بن قاسم کی فتوحات کے حوالے سے دو سوالوں کے جواب میں آپ نے جو لکھا وہ درسی کتب میں کہاں لکھا ہے؟۔
سر جھکا کر ادب سے کھڑے شاگر کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے عباس نقوی صاحب بولے بیٹا!
صدر معلم صاحب کے سوال کا جواب دو۔
عرض کیا! اُستاد محترم فرماتے ہیں کہ امتحانی پرچہ کے سوالات کا جواب لکھتے وقت درسی کتب اور مطالعہ دونوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔
صدر معلم بولے، کونسے اُستاد محترم۔
میں نے ادب سے جناب عباس نقوی اور مگسی صاحب کا نام لیا۔
اب مگسی صاحب کے بولنے کی باری تھی۔ فرمانے لگے صاحبزادے! تمہارے جوابات درست ہیں۔ مطالعہ سے استفادے سے ہی ذہن کو وسعت ملتی ہے مگر امتحانی پرچے کے سوالات کا جواب درسی کتب کے اسباق کی روشنی میں لکھا جاتا ہے۔
مگسی صاحب کے گھٹنے چھوکر عرض کیا۔
اُستاد محترم آپ ہی تو اکثر فرماتے ہیں زندگی کے امتحانی پرچوں کے سوالات کےجوابات جو اپنے شعور کی روشنی میں نہیں لکھتے وہ کامیاب نہیں ہوتے۔
مگسی صاحب مسکراتے ہوئے صدر معلم کی طرف دیکھنے لگے، صدر معلم اپنی کرسی سے اُٹھے، میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے صاحبزادے تاریخ کا شعوری مطالعہ اور اظہار اچھے طالب علم پر فرض ہے۔
بھول نہیں پا رہا تو انہوں نے مجھے ایک روپیہ انعام میں دیا تھا۔ گھر پہنچ کر میں نے سارا قصہ اپنی آپا سیدہ فیروزہ خاتون نقوی کو سنایا تو بہت خوش ہوئیں۔
مگسی صاحب نصرت الاسلام ہائی سکول کراچی میں تاریخ اور اسلامیات کے مضامین پڑھاتے تھے۔ بہت نفیس، علم دوست اور شاگردوں کےلئے شفیق ترین اُستاد تھے۔ آپ میں بہت خوبیاں تھیں مگر دو خوبیوں کا جواب نہیں، اولاً یہ کہ پڑھاتے وقت طلباءکو سوال کرنے کی مکمل اجازت دیتے یوں ہم ان سے ایسے ایسے سوال پوچھ لیتے جو آج کسی استاد سے پوچھیں تو فوراً کفر لادینیت کا فتویٰ لگ جائے۔
دوسری خوبی یہ تھی کہ آپ اپنی تنخواہ کا چوتھائی حصہ (ہر ماہ) سکول کے قریب واقع ایک کتب فروش کے پاس باقاعدگی سے جمع کرواتے۔
ان کا حکم تھا کہ کوئی بھی طالب علم حصول تعلیم میں معاون اشیا ان کا نام لےکر اگر مانگے تو طالب علم کا نام پوچھے بغیر وہ اشیا اسے دےکر ان کے کھاتے میں لکھ دی جائیں۔
مجھ سمیت درجنوں طلباءنے اسکول میں تعلیم کے دوران جناب مگسی صاحب کے اس فیض سے ضرورتیں پوری کیں۔
مگسی صاحب ہمیشہ فرمایا کرتے تھے،
” اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کی عزت نفس کا احترام کرے، مطالعہ عصری شعور کی روشنی میں کرے، اپنے کھانے میں اس ہم جماعت کو شریک کرے جو گھر سے کھانا نہیں لاسکتا، اساتذہ سے خوف کے بغیر سوال کرے، علم کو مقصد زندگی سمجھے”۔
مجھے لگ بھگ سات سال ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، چوتھی جماعت سے دہم تک ہم ان سے پڑھتے رہے۔
ہمیشہ سفید شلوار قمیض پہنتے اور اجرک ان کے گلے میں ہوتی۔
کلاس میں تشریف لاتے تو سب کی خیرخیریت دریافت کرتے۔ جس شاگرد نے کوئی مسئلہ بیان کیا وہ اسے حل کرنے کی بھرپور کوشش فرماتے۔
سیاست کے اس ہنگامہ خیز دنوں میں اُستاد مکرم مگسی صاحب یوں یاد آئے کہ ان دنوں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی والوں کو کچھ وزرا مہنگائی کا عالمی حساب یاد کروا رہے ہیں۔ میں چونکہ تاریخ اور حساب کے مضمونوں میں ازل سے کمزور ہوں اسلئے اکثر بھول جاتا ہوں کہ سچ صرف حکمران بولتے ہیں، تاریخ بھی حکمران بناتے اور بیان کرتے ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ