اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ابا کو سالگرہ مبارک||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

کاش معاشرے کے مرد ہمارے ابا کی طرح عورت کو اس کا حق دینا سیکھ سکیں، انسان ہونے کا حق، عورت ہونے کا حق اور بیٹی ہونے کا حق!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“ لڑکیوں کا بھلا کیا کام کہ باپ کی جائیداد کے حصے بخرے کریں اور بھائیوں کے منہ کو آئیں۔ ارے وہی تو ان کا میکہ ہوتے ہیں۔ میکے کے چراغ سدا جلتے رہیں، دروازے سدا کھلیں رہیں۔ نہ بابا نہ، ہم تو غیرت والی بیٹیاں ہیں”

ہمارے ابا کمال شخص تھے!

چھ بچوں کے باپ بنے، تین بیٹیاں اور تین بیٹے، اور محبت کا ترازو کبھی اولاد نرینہ کی طرف نہ جھکا۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے نہ جانے کیا دل میں آئی کہ کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے اور جوں جوں قلم کی سیاہی کاغذ پہ پھول بن کر بکھرتی گئی، ابا کی مسکراہٹ مزید روشن اور گہری ہوتی گئی۔

جب تفصیل سے لکھ چکے تو سب بچوں کو اکھٹا کر لیا اور کہنے لگے کہ بھئی تم سب کو کچھ سنانا چاہتا ہوں۔ اب اگر کم گو سے ابا ایسا کریں گے تو سب کا ماتھا ٹھنکے گا ہی، خیر انہوں نے بولنا شروع کیا

“ میں شوکت علی کاظمی بقائمی ہوش و حواس اپنی وصیت درج کرتا ہوں…….

“یہ کیا ….کیوں… کس لئے؟ “

ملی جلی آوازوں کے شور میں وہ مسکرا اٹھے،

“جی چارہا تھا کہ وصیت لکھ دوں، نہ جانے کب دنیا سے دانہ پانی ختم ہو جائے۔ کوئی غلط فہمی نہ ہو بعد میں”

ہم سب کے نہ صرف منہ بنے بلکہ سب نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔

“دیکھو زندگی کی حفاظت تو موت کرتی ہے اور موت اٹل حقیقت ہے۔ جو رات قبر میں آنی ہے، اس سے کیا ڈرنا۔

وصیت لکھنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ میرے بعد بیٹیوں کی کسی طرح حق تلفی نہ ہو۔ مال و متاع چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ، تقسیم صحیح طریقے سے ہونا چاہیے۔ جس اولاد کو میں دنیا میں لے کر آیا ہوں، چاہے بیٹی ہو یا بیٹا، حقدار ہے۔

میں نے لکھ دیا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچوں اور میری بیوی یعنی تمہاری ماں کو گھراور زمین سے اصول وراثت کے مطابق حصہ ملے”

ہم سب کچھ اداس ہوئے اور کچھ خوش کہ ہمارے ابا کبھی بھی کچھ بھی نہیں بھولتے۔

اور ہمارے سامنے کی تو بات تھی کہ دادا کے گزر جانے کے بعد جب بھی زمینوں سے موسمی فصل کا حصہ آتا یا مزارعوں کی بھجوائی ہوئی رقم، ابا کو کبھی نہ بھولتا کہ ان کی اکلوتی بہن بھی اس میں برابر کی حصے دار ہے۔ ذاتی ضروریات اور بچوں کی خواہشات ان کا رستہ کبھی نہ روک سکیں اور انہوں نے آخری لمحے تک اپنی بہن کو باقاعدہ طور پہ حساب کتاب سے آگاہ کیا۔ پھوپھو جب کبھی لاہور سے آتیں، دونوں بہن بھائی حقے کے کش لگاتے ہوئے پہروں باتیں کرتے۔ ابا کی محبت بھری نظر پھوپھو کے چہرے کا طواف کرتی اور اس نظر کو ہم بخوبی پہچانتے تھے۔

ابا کی لکھی گئی تحریر پہ فخر محسوس ہونے کی شادمانی میں ہمیں یوں محسوس ہوا کہ اماں خاموش بیٹھی ابا کو گھور رہی ہیں اور پیشانی کے بل گہرے ہو چکے ہیں۔ آپس کی بات ہے کہ ہمیں علم تھا کہ اماں کیا سوچ رہی ہیں؟

ہماری اماں محبت کا ایسا سرچشمہ تھیں جس سے اپنے چھوڑ پرائے بھی ہمہ وقت سیراب ہوتے تھے۔ اماں کے نزدیک ابا اور بچوں کا کہا ہوا ہر لفظ، کیا گیا ہر عمل اور ہر خواہش ان کی زندگی کی علامت تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود اماں انسان تھیں اور کچھ ایسا بھی تھا جو ان کے ساتھ پل کر بڑا ہوا تھا۔

نہ جانے کیسے لیکن اماں کے ذہن میں یہ خیال راسخ تھا کہ آبائی زمین جائیداد میں حصے بخرے نہیں ہونے چاہئیں۔ بیٹے باپ کی گدی پر بیٹھ کر سب کچھ سنبھالیں اور بیٹیاں بھائیوں کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔ ان کے نزدیک ایسا چلن میکے سے محبت اور بے پناہ محبت کرنے کی علامت تھا۔ اب اماں چونکہ محبت کی مٹی سے گوندھی گئی تھیں سو اس سوچ کا داغ وہ اپنے ماتھے پہ کیسے لگا سکتی تھیں۔

وہ اکثر و بیشتر کہتی رہتیں کہ میکے سے کسی بھی چیز کا حصہ لینا اچھی بیٹیوں کا وطیرہ نہیں ہوا کرتا۔ ہم بہت چھوٹے تھے لیکن سوال فورا ہی کوڑیالے سانپوں کی طرح کلبلانے لگتے،

“اماں، کیا پھوپھو اچھی بیٹی نہیں ہیں؟”

ابا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی اور اماں یہ سنتے ہی گڑبڑا جاتیں اور فورا ہی گھرک دیتیں، چل ہٹ پرے تو پتہ نہیں کہاں کی باتیں سوچتی ہے۔

ہمارا اگلا سوال ہوتا کہ لڑکیوں کے لئے اپنا حق لینا کیوں بری بات ہوتا ہے، لڑکوں کے لئے کیوں نہیں؟

اماں فورا کہتیں کہ لڑکیوں کا میکہ اس طرح انہیں عزت کی نظر سے دیکھتا ہےاور آؤ بھگت ہوتی ہے۔ بھائی مرتے دم تک سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں۔ لڑکی کو میکے سے آیا ہوا کفن نصیب ہوتا ہے۔

“اس کا مطلب یہ ہوا کہ میکے والے آپ کا حصہ ہڑپ کرنے کے بعد آپ کی عزت کرتے ہیں اور آؤبھگت بھی تو آپ کے دیے ہوئے مال سے ہی ہوئی نا…. اور مال کے بدلے کفن…. سستا سودا ہے بھئی” ہم کہتے۔

اب کے اماں مزید ناراض ہو کر کہتیں، تم جو کچھ کرنا چاہتی ہوکر لینا۔ لیکن سب کان کھول کر سن لیں، مجھ سے کبھی کوئی نہ کہے کہ میں اپنے بھائیوں سے اپنا حصہ طلب کروں۔

“اماں پیاری اماں، میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ آپ کا حق نانا کا چھوڑا ہوا تحفہ ہے آپ کے لئے، آپ وہ کیوں نہ لیں؟ بھلا بھائی کون ہوتے ہیں نہ دینے کا فیصلہ کرنے والے” ہم اماں کے گلے میں بازو ڈال دیتے۔

اماں غیض وغضب سے ہمیں گھورتی رہیتں، انہیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ہم اتنے “ لالچ” کی باتیں کیوں کرتے تھے؟

وہ یہ بات کبھی سمجھ نہ سکیں کہ ان کا شوہر عورت کو جس مرتبے پر دیکھتا ہے، وہ سبق ان کی بیٹیوں کے خون میں دوڑتا ہے۔

ہمارے نانا کے انتقال کے بعد ابا نے یہ بات اماں پہ واضح کر دی کہ وہ ان کے خیالات اور فیصلے سے متفق تو نہیں لیکن وہ ان کی رائے کا بھرپور احترام کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی دخل اندازی نہیں کریں گے۔ ابا کی طرف سے یہ بات غیر متوقع نہیں تھی۔

نانا کی جائیداد بٹنے لگی تو اماں نے فخر سے سر بلند کر کے کہا کہ وہ اپنا حصہ نہیں لینا چاہتیں۔ یہ سن کر ان کے بھائیوں کے منہ سے تکلفاً بھی نہ نکلا کہ کیوں؟ یہ تو باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد ہے، وہی باپ جو تمہارا بھی ہے اور ہمارا بھی۔

دستخط کرنے کے لئے اماں کو کچہری لے جایا گیا۔ اماں کی نیت پہ تو ان کے بھائیوں کو شک نہیں تھا لیکن اماں کے بچوں کا کیا اعتبار کہ کل کو عدالت پہنچ جائیں یہ کہتے ہوئےکہ ہماری ماں نے ہم سے پوچھے بنا یہ فیصلہ کیا تھا سو تقسیم پھر سے کی جائے۔ اس خطرے کے پیش نظر ایک ماموں دور کی کوڑی لائے اور سٹامپ پیپر پہ لکھوایا گیا کہ اماں پیسے لے کر اپنی زمین و گھر بھائی کو فروخت کر رہی ہیں۔ ہماری بھولی اماں نے نہ یہ کاغذ پڑھا اور نہ ہی مرتے دم تک وہ یہ راز جان سکیں۔ اچھا ہی ہوا، اماں کا محبت سے بنایا ہوا تاج محل قائم رہا۔

ابا کے گزر جانے کے بعد کبھی کبھا جب ہم سب اکھٹے ہوتے تو باتوں باتوں میں ہم کہنا نہ بھولتے کہ ابا کی وصیت کے مطابق ہمارا ہر چیز میں حق ہے۔ اماں فورا تاؤ کھا کر کہتیں توبہ ہے اللہ نے اتنا نوازا ہے پھر بھی لالچ ختم نہیں ہوتا۔

ہم مسکرا دیتے لیکن ایک دن ہم نے کہہ ہی دیا،

“سنیے اماں، بات روپے پیسے کی نہیں ہے، حق کی ہے۔ وہ حق جو مجھے شوکت علی کاظمی نے دیا ہے، بلکہ اللہ نے دیا ہے۔ اب چاہے وہ حق ایک چونی ہو یا ایک دونی، میں لوں گی ضرور۔ لے کر چاہے میں اسے تحفے کی صورت میں کسی کو دوں، یا پاس رکھوں، یہ میری مرضی اور میرا حق ہے”

ہمیں اپنی اماں سے بے تحاشا محبت بھی یہ سب کہنے سے کبھی نہ روک سکی۔ ہم ماں بیٹیوں نے کھل کر اپنی مرضی کا اظہار کیا، اختلاف کیا لیکن ماں اور بیٹی کے درمیان کبھی بھی رنجش کی دیوار کھڑی نہ ہوئی۔

ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہم نے اپنے گھر میں پدرسری نظام کی ایک جھلک دیکھی، اماں کے موقف کی صورت میں اور اس نظام کا شیرازہ بکھرتے دیکھا، ابا کی عورت سے محبت کے نتیجے میں۔

کاش معاشرے کے مرد ہمارے ابا کی طرح عورت کو اس کا حق دینا سیکھ سکیں، انسان ہونے کا حق، عورت ہونے کا حق اور بیٹی ہونے کا حق!

ابا کو گزرے بائیس برس ہو گئے۔ لیکن ابا گزرے کہاں، وہ تو ہمارے ساتھ ہیں، ان تمام لمحات میں جو ہمارے اندر سانس لیتے ہیں!

ابا سالگرہ مبارک!

%d bloggers like this: