حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو تین دن ہوتے ہیں عرض کیا تھا کہ "آئی ایم ایف اور ہماری سرکار میں جاری مذاکرات کی "کامیابی” کے حوالے سے کئے جانے والے دعووں نے اگر عملی صورت اختیار کی تو اس کی قیمت عوام کو چکانا پڑے گی” ایک بڑے صاحب نے ٹیلیفون پر کہا، "آپ بلاوجہ تنقید کرتے اور حقائق کو مسخ کرتے رہتے ہیں۔ معاملات کو اپوزیشن کی محبت میں نہیں حقائق کی روشنی سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والے حکومتی وفد کے سامنے ساری صورتحال ہے تسلی رکھیں ایسا کچھ نہیں ہوگا جو آپ سوچ اور لکھتے آرہے ہیں "۔
عرض کیا تھاکہ خدا کرے ایسا ہو لیکن ہوگا نہیں۔ خیر ارباب اختیار کو دوسرے قارئین کی طرح شکوہ کرنے اور اپنا موقف پیش کرنے کا حق ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ آئی ایم ایف سے جاری مذاکراتی عمل میں پچھلے ہفتہ کے دوران تین بار بجلی کے فی یونٹ قیمت میں اضافہ ہوا اور اس دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں طوفان کی طرح بڑھ گئیں۔ تحریر نویس اب بھی دستیاب معلومات پر قائم ہے کہ بجلی کی قیمت میں تین میں سے 2اضافے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے ہوئے اور مزید فی یونٹ 2روپے 65پیسے اضافہ ہوگا یہ اضافہ فوری طور پر مقصود ہے۔
اب اطلاع ہے کہ نیپرا نے اس اضافے کے لئے سمری بھجوادی ہے اور سی پی پی اے میں 27اکتوبر کو اس درخواست کی سماعت ہوگی۔ مزید عرض کردوں، آئی ایم ایف کا دباو ہے کہ روپے کی ڈالر سے شرح تبادلہ 180روپے کی جائے اور بجلی کے فی یونٹ نرخ میں دسمبر 2021ء تک مزید 3روپے کا اضافہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ اضافہ 2روپے 65پیسے کے اس اضافے کے علاوہ ہوگا جس پر سی پی پی اے نے 27اکتوبر کو غور فرمانا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر ہمیں کہانیاں اور لوریاں سنائی گئیں۔ ایک کہانی وہی ہے اس کے ذمہ دار سابق حکمران ہیں اور لوری یہ کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے سے ہم مشکل کا شکار ہیں۔ اس کہانی اور لوری پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اہل اقتدار ہی ہمیشہ "سچے” ہوتے ہیں۔ 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کے حصول کےلئے پچھلے وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے جو معاہدہ پاکستان کے گلے میں ڈالا اس کی سختیوں کا اعتراف کرنے کے باوجود جناب شوکت ترین اسی راہ پر گامزن ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کے "منظور نظر” افراد کو تیسری دنیا میں مالیات کے شعبہ میں اہم منصبوں پر فائز کرنے کے پیچھے مقاصد یہی ہوتے ہیں کہ ان اداروں کی شرائط پر قرضہ حاصل کرلیا جائے اور بعدازاں یہ ڈگڈی بجائی جائے کہ معاہدہ کرنے والوں نے اپنے سابق مالک ادارے کے مفادات پر ملک کے مفاد کو قربان کردیا۔ ہم پچھلی کئی دہائیوں سے یہی دیکھ سن رہے ہیں۔ ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اب یہ پتہ نہیں چلتا کہ سچ کیا ہے کہ اور جھوٹ کیا۔
مثال کے طور پر اکتوبر 2011ء سے 2018ء میں اقتدار میں آنے کے درمیانی عرصہ میں ہمیں بتایا جاتا رہا کہ پاکستان کے چوری ہونے والے 200ارب ڈالر بیرون ملک پڑے ہیں۔ ایک نوجوان وزیر تو حالت "وجد” میں یہ کہا کرتے تھے کہ جس دن عمران خان اقتدار میں آئیں گے 2سو ارب ڈالر بیرون ملک سے واپس لاکر 100ارب ڈالر قرضہ دینے والوں کے منہ پر ماریں گے اور 100ارب ڈالر ملک کی تعمیروترقی پر خرچ ہوگا۔
تحریک انصاف اقتدار میں آگئی 22کروڑ لوگ اس امید میں تھے کہ 200ارب ڈالر آنے والے ہیں ایک دن وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک نیوز چینل کے پروگرام میں کہا 200ارب ڈالر والی بات تو سیاسی بیان تھا بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جناب نوازشریف علاج کے لئے بیرون ملک روانہ ہوئے، تحریک انصاف کے سابق لینن نے اپنے ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیا کہ نوازشریف 500ارب ڈالر ادا کرکے سمجھوتے کے مطابق باہر گئے ہیں۔
لینن صاحب نے انکشاف کیا کہ ان میں سے 4سو کچھ ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں جمع کروائے گئے باقی پتہ نہیں کہاں گئے اس خوردبرد پر ایک "خاص” جگہ تشویش پائی جاتی ہے۔ ہم ایسوں نے تبھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر نوازشریف واقعی 500ارب ڈالر دے کر گئے ہیں تو خوردبرد ہونے والی رقم منہا کرکے زرمبادلہ 450ارب ڈالر ہونا چاہیے۔ حکومت بیرونی قرضے اتارے اور باقی رقم کام میں لائے مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ نوازشریف تو 50روپے کے اسٹام پیپر پر لکھی گارنٹی پر گئے تھے۔
حکومت کے کچھ حامی اینکروں نے سال 2020ء میں دعویٰ کیا کہ آصف علی زرداری بھی 1000ارب ڈالر دینے پر آمادہ ہیں۔ نوازشریف کی ادائیگی اور زرداری کی آمادگی، یہ دونوں باتیں اصل میں سوشل میڈیائی جہادیوں کی گھڑی کہانیاں تھیں ویسی ہی کہانیاں جیسی شکار پور کے ایک گھر کے تہہ خانے میں 5ارب روپے شارٹ سرکٹ سے جل جانے کی تھی یا ایک لانچ سے 2ارب ڈالر 5من سونا اور ڈیڑھ ارب کے درہم و ریال کی برآمدگی کی کہانیاں تھیں۔
سچ یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا کی برآمدگیوں پر یقین کرلیا جائے تو یہ تو مجموعی طور پر 10ارب ڈالر کے قریب ہیں نوازشریف والی رقم کے علاوہ۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ آصف علی زرداری 1000ہزار ارب ڈالر کی ادائیگی کے وعدے سے پیچھے کیوں ہٹے البتہ فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ "جس دن زرداری نے ایک ہزار ارب ڈالر دینا تھے اور سرکاری نمائندہ حفاظتی دستوں کے ساتھ رقم وصول کرنے پہنچا تو انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے دیئے گئے 500ارب ڈالر میں سے جو 95ارب ڈالر خوردبرد ہوئے ہیں جب تک حکومت وہ برآمد نہیں کرتی میں بھی پیسے نہیں دوں گا”۔
آپ ہنس رہے ہوں گے کہ یہ کہانیاں ہیں مگر کیا کریں یہ کہانیاں 90فیصد سوشل میڈیائی ہیں اور 10فیصد الیکٹرانک میڈیا کی سوشل میڈیا تو چلیں شتر بے مہار ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا کے سیاپہ فروشوں کو لمبی لمبی چھوڑنے سے قبل یہ تو سوچ لینا چاہیے کہ اس "چھوڑا چھاڑی” کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے محبوب وزیراعظم اپنے زمانہ اپوزیشن میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر 12ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ اب تین سال سے وہ وزیراعظم ہیں یقیناً انہوں نے 12ارب روزانہ والی مالی کرپشن بند کروادی ہوگی۔ اس رقم کا حساب یہ ہے کہ ایک ماہ میں 360ارب روپے کرپشن سے بچائے گئے۔ سال میں 3920 ارب روپے اور تین برسوں میں مجموعی طور پر 11760ارب روپے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ 11769ارب روپے کی رقم گئی کہاں؟
آپ اس سوال پر غوروفکر کے ساتھ دلپشوری کیجئے، یہاں اگلے روز وزیراعظم عمران نے کہا ہے کہ پاکستان سے ہر سال 1000ارب ڈالر چوری ہوکر آف شور کمپنیوں میں چلا جاتا ہے۔ وزیراعظم کو کوئی بتائے کہ ہمارا کل بجٹ ہی 48ارب ڈالر ہے اور جی ڈی پی 280ارب ڈالر۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ 1000ارب ڈالر سالانہ چوری ہوتا ہو۔ اچھا اگر چوری ہوتا ہے تو تین سال میں 3ہزار ارب ڈالر اس حکومت نے چوری ہونے سے کیوں نہ روکا؟
معاف کیجئے گا حساب گڑبڑ ہورہا ہے۔ بیرون ملک والے 200ارب ڈالر واپس نہیں آئے۔ 12ارب روزانہ والی کرپشن کا 11760 ارب روپے کا کچھ پتہ نہیں۔ نوازشریف والے 500ارب ڈالر گم ہیں کسی یا اندھے کنویں میں، اسی کنویں میں لانچوں والی رقم بھی ہے اب یہ 1000ارب ڈالر سالانہ کی چوری۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہ ان اعدادوشمار پر غور کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی کا ایک جگ اپنے پاس رکھ لیجئے گا دل کی دھڑکن تیز ہونے لگے تو کچھ وقت کسی اور کام میں صرف کیجئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ