مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سانحہ کارساز|| آفتاب احمد گورائیہ

بی بی شہید اپنی جان تو ہار گئیں لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید اور امر ہو گئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید تیس سال کی جمہوری جدوجہد کی مثالی تاریخ رقم کرنے کے بعد گڑھی خدا بخش میں دفن کارساز کے شہیدوں کے پاس ہی ابدی نیند جا سوئیں۔

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دس اپریل انیس سو چھیاسی اور اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات، یہ دو تاریخیں ہماری سیاسی تاریخ میں ایسے دو استقبالوں سے عبارت ہیں جن کی نظیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دونوں دفعہ یہ تاریخ ساز استقبال محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جلاوطنی سے پاکستان واپسی پر کئے گئے۔ دس اپریل انیس سو چھیاسی کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید جب لاہور ائرپورٹ پر اتریں تو ائرپورٹ سے مینار پاکستان تک تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس روز دس لاکھ سے زائد افراد بی بی شہید کے استقبال کے لئےلاہور کی سڑکوں پر موجود تھے۔ اس استقبال کا ریکارڈ خود محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ہی کراچی میں ہونے والے استقبال سے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو ٹوٹا جب تقریبا آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے پاکستان کی دھرتی پر قدم رکھا۔ آزاد ذرائع کے مطابق اس روز بیس لاکھ سے زائد افراد کراچی میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ کراچی کی سڑکیں پیپلزپارٹی کے جھنڈوں اور بی بی شہید کے استقبالیہ بینرز سے سجی ہوئی تھیں اور پورے پاکستان سے آنے والے افراد اپنی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب نظر آتے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے اس دن پورے ملک میں کس طرح ایک جشن کا سا سماں تھا جبکہ ہمارے جیسے بیرون ملک رہنے والے بھی ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ کر صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کراچی تو بالخصوص بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا۔ سارے پاکستان سے لاکھوں افراد دو دن پہلے ہی کراچی پہنچ چکے تھے، ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوسز میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں بچی تھی۔ کراچی کی سڑکوں پر سارے پاکستان سے آنے والے لاکھوں افراد پیلزپارٹی کے ترانوں پر جھومتے اور بی بی شہید کی واپسی کی خوشیاں مناتے نظر آرہے تھے۔ اٹھارہ اکتوبر کی سہ پہر جونہی بی بی شہید کے طیارے نے پاکستان کی سرزمین کوچھوا اور بی بی شہید قران کریم کے سائے میں طیارے سے باہر آئیں تو پیلزپارٹی کے کارکنوں اور چاہنے والوں کا جوش و خروش ساتویں آسمان تک پہنچ چکا تھا۔ بی بی شہید بھی پاکستانی پرچم کے رنگ والے لباس میں ملبوس بہت خوش نظر آ رہی تھیں۔ بی بی شہید نے طیارے سے باہر آتے ہی ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ یہ منظر ہزاروں کیمروں نے محفوظ کر لیا اور آج بھی بی بی شہید کی دعا مانگتے ہوئے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ تصویریں پیپلزپارٹی کے جیالوں کو اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کی یاد دلاتے ہوئے آزردہ کر دیتی ہیں۔
بی بی شہید کے استقبال کے لئے آنے والا مجمع اس قدر بڑا تھا کہ بی بی شہید کا استقبالیہ جلوس چار گھنٹے میں بڑی مشکل سے سٹار گیٹ تک ہی پہنچ سکا۔ اسی طرح آہستہ آہستہ چلتا ہوا جلوس شاہراہ فیصل پر پہنچا تو اس وقت وہاں موقع پر موجود لوگ بتاتے ہیں کہ تاحدِ نظر سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ بی بی شہید پیپلزپارٹی کے قائدین کے ہمراہ ٹرک پر کھڑے ہو کر استقبال کے لئے آنے والےلاکھوں افراد کے نعروں اور جوش و خروش کا ہاتھ ہلا کر جواب دے رہی تھیں۔ کئی سالوں بعد پاکستان کے عوام کو ملنے والی یہ خوشی کسی جگہ پر کسی کو برداشت نہیں ہو سکی اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بی بی شہید کا کارواں تقریباً سوا سات بجے کے قریب جونہی شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر پہنچا تو یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے اور بی بی شہید کے ٹرک کے آس پاس دھوئیں اور آگ کے بادل چھا گئے۔ بچانے والا چونکہ مارنے والے سے زیادہ طاقتور ہے اور کاتبِ تقدیر نے ابھی بی بی شہید کی زندگی کے کچھ مہینے اور لکھ رکھے تھے اس لئے بی بی شہید ان بم دھماکوں میں محفوظ رہیں۔ دھماکوں کے بعد پیلزپارٹی کے جانثار کارکنوں نے بی بی شہید کو دھماکوں سے تباہ شدہ ٹرک سے نکال کر گاڑی میں بلاول ہاؤس منتقل کر دیا۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے ایک سو ستر سے زیادہ کارکن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ چار سو سے زائد افراد اس سانحہ میں زخمی ہوئے۔
افراتفری اور بم دھماکوں کے خوف کے اس عالم میں بھی جب سینکڑوں کارکن شہید اور زخمی ہو چکے تھے تو جہاں کارکنوں کو بی بی شہید کی زندگی کی فکر لاحق تھی وہاں بی بی شہید کی جانب سے کارکنوں کے ساتھ محبت اور ان کے دکھ درد میں شرکت کا عالم یہ تھا کہ کارساز بم دھماکوں سے اگلے روز جب بی بی شہید کی جان کو لاحق خطرات کے باعث حکومت نے بی بی شہید کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کا کہا تو بی بی شہید تمام تر خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگلے روز ہی شہید کارکنوں کے اہل خانہ اور زخمی کارکنوں کی دلجوئی کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ قیادت اور کارکنوں کی اس محبت کی مثال کسی اور سیاسی جماعت سے ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کی بحالی میں بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔ سانحہ کارساز بھی اس کی ایک بڑی مثال ہے جب پیپلزپارٹی کی قیادت کو براہ راست نشانہ بنایا گیا اور اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے سینکڑوں کارکن شہید اور زخمی ہوئے لیکن آج کچھ سیاسی جماعتیں خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا چمپئین بنا کر پیش کرتی ہیں اور ان کے تنخواہ دار میڈیا مینیجرز اور صحافی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلابی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی جس کی ساری تاریخ جمہوری جدوجہد، قربانیوں، شہادتوں اور کارساز جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جس کی قیادت نےدو دفعہ جمہوریت کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اس جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے بڑی سیاسی اور تاریخی بددیانتی ہو نہیں ہو سکتی کہ ایک ایسی جماعت جس کی قیادت اور کارکنوں نے جمہوریت کے لئے خون دیا ہو اسے وہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کا طعنہ دے جس کے دامن میں جمہوریت کے نام پر چند ماہ کی آسودہ سی جیل اور اس کے بعد ڈیل کے ذریعے کبھی جدہ اور کبھی لندن روانگی شامل ہو، جو کبھی ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگاتی ہیں اور کبھی سول سپریمیسی کا لیکن جب میدان عمل میں نکلنے کا وقت آئے تو چپ سادھ لیتی ہیں یا پھر ان کا ہاسا نکل جاتا ہے۔
دو ہزار سات میں بی بی شہید کی پاکستان واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں پاکستان کے عوام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی وہاں بی بی شہید کی سیکیورٹی کے بارے خدشات کا اظہار بھی کیا جانے لگا۔ اس وقت اقتدار پر قابض آمر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے بی بی شہید کی پاکستان آمد کو روکنے کے لئے سب سے بڑا جواز بی بی شہید کی سیکیورٹی کو قرار دیا جانے لگا اور کہا گیا کہ بی بی شہید کی پاکستان آمد کی صورت میں ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ان تمام خدشات اور خطرات کے باوجود بی بی شہید کا وطن واپسی کا فیصلہ اٹل تھا، بی بی شہید ہر صورت وطن واپسی کا ارادہ کر چکی تھیں اور بی بی شہید کی بہادری اور دلیری کے آگے جنرل پرویز مشرف اور اس کے گماشتوں کی جانب سے ڈھکے چھپے انداز میں دی جانے والی دھمکیاں ہیچ ثابت ہوئیں۔ آج کےنام نہاد انقلابیوں کی طرح بی بی شہید نے کسی سے اپنی جان کی حفاظت کی ضمانت نہیں مانگی تھی اور بی بی شہید ان تمام ترخطرات کے باوجود اپنے عوام کے درمیان لوٹ آئیں۔
بی بی شہید اپنے وعدے کے مطابق پاکستان لوٹ تو آئیں لیکن بی بی شہید کی بے مثال دلیری اور بہادری گھٹیا اور نیچ دشمنوں سےبرداشت نہ ہو سکی اور وہ دشمن جو اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو اپنے بزدلانہ وار میں کامیاب نہ ہو سکا تھا وہ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو کئے جانے والے اپنے دوسرے بزدلانہ وار میں کامیاب ہو گیا اور بالاآخر پاکستان میں جمہوری جدوجہد کا نشان اور پاکستان کےغریب عوام کی امیدوں کی شمع بُجھا دی گئی۔ بزدل دشمن جیت گیا اور پاکستان کے عوام ایک بار پھر ہار گئے۔ بی بی شہید اپنی جان تو ہار گئیں لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید اور امر ہو گئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید تیس سال کی جمہوری جدوجہد کی مثالی تاریخ رقم کرنے کے بعد گڑھی خدا بخش میں دفن کارساز کے شہیدوں کے پاس ہی ابدی نیند جا سوئیں۔
کاتبِ تقدیر کا فیصلہ تو اٹل ہوتا ہے لیکن پھر بھی کبھی یہ خیال آ ہی جاتا ہے کہ کاش بی بی شہید واپس ہی نہ آتیں۔۔۔ کاش

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: