اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں||سارہ شمشاد

پاکستانی سیاست آج جس ڈگر پر گامزن ہے اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ اگر اس قسم کے تندوتیز اور عامیانہ بیانات اور گفتگو کا سلسلہ یونہی مزید جاری رہا تو حکمرانوں کی توجہ عوامی مسائل سے بالکل ہی ہٹ جائے گی
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے چند دنوں سے سیاسی رہنمائوں کی جانب سے اس قدر عامیانہ بیانات دیئے جارہے ہیں کہ بحیثیت مسلمان اور مہذب قوم کے شہری کی حیثیت سے مجھے شرمندگی محسوس ہونے لگی ہے کہ ہمارے سیاستدان اختلاف اور تنقید کی بجائے نفرت کے اس گہرے سمندر میں جاگرے ہیں کہ جہاں اخلاقیات نامی چیز کا کوئی گزر تک نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے وزیراعظم عمران خان پر بدترین تنقید کوئی نئی بات نہیں لیکن موصوفہ شاید یہ بھول گئی ہیں کہ وہ سیاستدان ہونے سے پہلے ایک خاتون بھی ہیں۔ نہ تو ہمارا مذہب اور نہ ہی کلچر خواتین کو اس قسم کی عامیانہ اور اخلاقیات سے گری ہوئی بات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ 3مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جو ہر وقت اعلیٰ خاندانی روایات کی پاسداری اور ایک خاتون کو پیشی پر بلانے پر آٹھ، آٹھ آنسو روتے تھے، کیا کبھی اپنی بیٹی کے ان بیانات کا جائزہ لیں گے۔ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی سب سے بڑی پرانی سیاسی جماعت ہے جس میں اقدار اور روایات شروع سے ہی اہمیت کی حامل رہی ہیں لیکن مریم بی بی کی جانب سے اس قسم کے افسوسناک بیانات کہ ملک کی تقرریاں جادو ٹونے اور جنات کریں گے تو اداروں کا تماشا بنے گا، بارے بحیثیت ایک پڑھی لکھی شہری میں یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ اس قسم کے بیانات دے کر وہ کس کی خدمت کررہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نئی نسل کو کیا پیغام دے رہی ہیں۔میرا تو یہ سوچ کر تو دماغ ہی مائوٹ ہوجاتا ہے کہ اگر خدانخواستہ مریم نواز کبھی اس ملک کی وزیراعظم بن گئیں تو کیا ماحول اور گفتگو ہوگی، اس کا تصور ہی محال ہے۔ اگر مریم نوازغیر ذمہ دارانہ گفتگو کررہی ہیں اور یہ تک سوچنے کی زحمت نہیں کررہیں کہ وہ اس ملک کے چیف ایگزیکٹو کے بارے میں اس قسم کے الفاظ استعمال کرکے دنیا کو کیا پیغام دے رہی ہیں اور اس سے پاکستان کا دنیا میں کیا امیج جائے گا ۔ اسی طرح حکومتی وزراء بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں کہ اپنے مخالفین پر ذاتی حملوں کے ساتھ سیاسی چڑیل اور جنات نے پیسے بھیجے جیسے اخلاقیات سوز بیان دینے سے گریز نہیں کررہے اور یہ تک بھول گئے کہ وہ جس ملک کے شہری ہیں وہاں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ عورت چاہے بیٹی ہو، ماں یا بیوی یا بہن، ہر روپ میں قابل احترام ہے۔
وزیراعظم عمران خان ہر فورم پر پاکستانی معاشرے کے سب سے بہترین ہونے کی بات بڑے فخر سے کرتے ہیں تو کیا وہ یہ بات اپنے وزراء اور حکومتی ٹیم کو سمجھانا بھول گئے ہیں کہ سیاسی اختلافات کو اس قدر نہ بڑھایاجائے کہ وہ نفرت کی آگ میں تبدیل ہوجائیں۔ مریم نواز خود کو بینظیر کہلوانا پسند کرتی ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ مریم کو بی بی شہید کے معیار تک پہنچنے کے لئے کئی بار پیدا ہونا پڑے گا۔ بی بی شہید سرتاپا عزت و احترام کے قابل ہیں۔ انہوں نے سیاست میں ہونے کے باوجود ایک بہادر بیٹی کا کردر آمر ضیاء کی جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرکے کیا۔ اگر ایک وفا شعار بیوی کا روپ دیکھنا ہو تو 11برس تک ان کے شوہر کو پابند سلاس رکھا گیا لیکن وہ وفا کی دیوی رہیں۔ اگرایک ماں کے روپ میں دیکھنا ہو تو وہ کردار بھی انہوں نے بہترین انداز میں ادا کیا۔ بینظیر بھٹو شہید ایک اعلیٰ پائے کی مقرر تھیں۔ آواز اونچی کرنے کی بجائے دلیل سے بات کرنے پر ان کا شمار دنیا کے بہترین Intellectuals میں ہوتا تھا ۔بی بی شہید کے مقام تک پہنچنے کے لئے مریم کو ابھی بہت ریاضت کی ضرورت ہے۔
مغربی ممالک میں جمہوریت کی مضبوطی کی بڑی وجہ وہاں کے سیاسی رہنمائوں کی تربیت ہے کہ وہ کسی عہدے پر پہنچے سے قبل میرٹ کی چھلنی سے ہوکر گزرتے ہیں اور وہاں پر انہیں سیاست کے نہ صرف دائو پیچ سکھائے جاتے ہیں بلکہ اخلاقیات بارے بھی ان کی ٹریننگ کی جاتی ہے۔تاہم ادھر جمعرات کے روزشہباز شریف اور مریم نواز کی امریکی ناظم الامور انجیلا ایگلر سے ملاقات نے بھی کئی سوالوں کو جنم دیا ہے اور عوام میں حسب روایت ایک اور ڈیل کے تاثر نے جنم لیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکی صدر پاکستانی وزیراعظم کو فون کرنے کے لئے ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود تیار نہیں لیکن امریکی ناظم الامور ایک سزا یافتہ خاتون سیاستدان سے ملنے ان کے گھر پہنچ جاتی ہیں۔ اس میٹنگ کے بھلے جو بھی مقاصد ہوں اس سے بہرحال امریکہ کے حوالے سے ایک واضح پیغام حکومت کو جہاں گیا وہیں عوام کو بھی سمجھ آگیا ہے کہ امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ کرنے والوں پر ہی ہاتھ رکھتا ہے۔ اب اس ملاقات کا مقصد اور ایجنڈا کیا تھا، اس بارے تو آنے والے دنوں میں ہی واضح ہوگا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مریم اپنے سخت بیانات کے باعث جہاں حکومت کو دبائو میں لانے میں کامیاب نظر آتی ہیں وہیں دنیا بالخصوص امریکہ کو بھی رام کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہیں جو حکومت کے لئے باعث تشویش اس لئے ہونا چاہیے کہ اس ملاقات کی ٹائمنگ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے حوالے سے بڑی اہم ہے۔
پاکستانی سیاست آج جس ڈگر پر گامزن ہے اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ اگر اس قسم کے تندوتیز اور عامیانہ بیانات اور گفتگو کا سلسلہ یونہی مزید جاری رہا تو حکمرانوں کی توجہ عوامی مسائل سے بالکل ہی ہٹ جائے گی۔جس پر وہ پہلے ہی کچھ زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما مریم نواز اور تحریک انصاف کے بڑے قدکاٹھ رکھنے والے سیاستدان معاملات کو مزید تلخی کی طرف جانے سے روکیں لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ مریم نواز کو غلط کہنے کی جرات کسی میں بھی نہیں وہ تو ایک شہزادی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ان کے پیچھے جس طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں وہ تو ان کے درباری معلوم ہوتے ہیں اس لئے یہ توقع کرنا کہ مریم نواز کو کوئی سمجھائے کہ یہ خاصا مشکل کام ہے کیونکہ وہ اپنے چچا تو ایک بعض اوقات اپنے والد سے بھی الجھ پڑتی ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں کو قومی ایشوز پر سیاست کرنی چاہیے تاکہ ملک و قوم کی کچھ خدمت ہوسکے۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت مہنگائی کم کرے۔ بلاشبہ انہوں نے عوام کے دل کی بات ہے لیکن کیا جہانگیر ترین بارش ک پہلا قطرہ بنتے ہوئے اپنی ملوں سے فراہم کی جانے والی چینی کی قیمت 70روپے مقرر کرکے وطن اور عوام سے وابستگی کا ثبوت دیں گے۔ یاد رہے کہ جہانگیر ترین کی ملوں سے 20فصد سے زائد چینی پیدا ہوتی ہے۔ مگر ہائے ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘
پاکستانی سیاست جو رخ اختیار کرتی جارہی ہے اس سے ہمارے معاشرے کی زوال پذیری اور اخلاقی انحطاط کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ معاشرہ جو کبھی دوسروں کے لئے رول ماڈل ہوا کرتا تھا آج یہاں عامیانہ گفتگو اور بیان بازی کرکے سیاست سے اخلاقیات نامی چیز کو ہی ختم کیا جارہا ہے۔ سیاستدانوں کی ذاتیات پر مبنی لڑائیاں درحقیقت ہماری نئی نسل میں بھی پروان چڑھ رہی ہیں اسی لئے تو عدم برداشت کے رویے تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ آج اگر ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال پذیری کا شکار ہے تو اس کے ذمہ دار سیاستدان بھی ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کے چکر میں اخلاقیات کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔یہاں مجھے محترمہ بینظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر یاد آگئیں کہ جب انہوں نے رانا ثناء اللہ کو پارٹی سے خواتین بارے فضول اور گھٹیا بات کرنے کے جرم میں پاداش میں نکال دیا تھا۔ یہ وہ معیار تھا جو ہماری سیاست میں آج بھی موجود ہونا چاہیے تھا لیکن آج ہم بحیثیت معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا شکار ہیں اس کے ذمہ دار بھی دراصل ہم خود ہی ہیں جو خودنمائی اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے چکر میں اپنی اعلیٰ روایات اور تہذیب کو یکسر ہی فراموش کربیٹھے ہیں۔ اگر اب بھی سینئر سیاستدانوں جن میں چوہدری نثار علی اور اعتزاز احسن و دیگر بڑے نام شامل ہیں، نے سیاست کو نفرت کی بھینٹ چڑھنے سے روکنے کے لئے اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو پاکستانی سیاست میں اختلاف رائے اور تنقید کی جگہ طعن و تشنیع اور مغلظات لے لیں گی جس کا وطن عزیز کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے تانے بانے کو بکھرنے سے بچانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کریں، یہی وقت کی پکار ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: