مارچ 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خانقاہ حسینیہ شکارپور||یونس رومی

خانقاہ حسینیہ شکارپور سندھ کے مطلعق جاننے کلیئے شکارپور شہر کے بنیاد رکنھ والے خاندان اورشکارپورپر حکومت کرنے والے خاندان کی تاریخ کا جاننا بھی ضروری ہے

یونس رومی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خانقاہ حسینیہ شکارپور سندھ کے مطلعق جاننے کلیئے شکارپور شہر کے بنیاد رکنھ والے خاندان اورشکارپورپر حکومت کرنے والے خاندان کی تاریخ کا جاننا بھی ضروری ہے
شکارپورکسی دور میں سندھ کاپئرس تھا تو کبھی سندھ کا دارالخلافہ تھا تو کبھی اس شہرکو درسگاہوں کا شہر کہا جاتا تھا، شکارپور کے بنیاد مطلق سندھ کے تاریخدان بڑے عجیب مفروضہ فارسی لفظ غوک جس کا مطلب مینڈک کا بھی استعمال کرتے ہیں، جو ایک غیر سنجیدہ الفاظ ہے کسی بھی شہر کی بنیاد کو اس طرح ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہوسکتا، یا تو اس خاندان کے کے زوال کے بعد طاقتور خاندان نے اپنی دشمنی کے تاریخ کو تباھ کیا ہوگا، جو ہر دور میں اس طرح ہوتا ہے،ہمارے موجودہ تاریخدان اپنے کم علمی کیوجہ سے گزرے ہوئے تاریخدانوں کو اپنے نظریہ کے تحت دیکھتے ہیں، کیونکہ گذرا ہوا طاقتور دور ان کے دشمن کا تھا ، کیا اس وقت کوئی تاریخدان نہیں تھا جو آج کل کے دانشورو تاریخ کے ساتھ اس طرح کا کلواڑ کرتے ہیں، یا ان کو روکنے والا نہیں، قاتل نے مقتول کے تاریخ کیساتھ ان کے ہر چیز کو مسخ کیا جو ان کیلئے تباھی کا باعث بن سکتا ہو،اس لیئے شاید انہیوں نے سندھ ادبی پورڈ کو اپنے اپنے دشمن کے تاریخ کو تباھ کرنے کیلئے استعمال کیا ہوگا، کتاب لکھنے کا عجیب سلسلہ شروع ہوا تھا دو صفحے نسحے فارسی کے ملے تھے پر ان کو پوری کتاب فارسی میں لکنھے کی کیا ضرورت پیش آئی، فارسی کے بعد انہیں کتابوں کو سندھی اردو میں ترجمہ کر کے خوب پیسے کمائے،اس لیئے کہتے ہیں ایک جھوٹ کو دس مرتبہ دھراو وہ سچ ہوجاتا ہے،شاید سندھ ادبی بورڈ کے پلیٹ فارم سے عباسی خاندان کے ہی کتابوں کو عباسی خاندان کے خلاف لکھا گیا، اس لیئے شکارپور کی تاریخ نہیں ملتی، شکارپورکی بنیاد رکھنے والے عباسی خاندان کی تاریخ کو ختم کیا، شکارپورعباسیوں کا گڑھ مانا جاتا تھا، شکارپور کی بنیاد مخدوم محمد ابراہیم یار خان فتح جنگ بن اعتمادولہ میر غیاث الدین محمد عباسی نے رکھی تھی، ابراہیم یار خان فتح جنگ نے شکارپوراپنے بیٹے کے محمد کے یاد میں محمد آبادرکھا تھا جس کو بدل کر خداآباد رکھ دیا گیا، جو بعد میں خداآباد سے شکارپور بنا دیا گیا، ابراہیم یار خان فتح جنگ نے شکارپور میں شاہجہان کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی اور اپنی بیٹے محمد شاہ کےساتھ آج بھی لال پیر شکارپور جو کہ خانپوری درکے راستے واقع ہے،پرانے دور مین خانپوری در کا راستہ لال پیر سے خانپور پھر رستم،محمودہ باغ،بھرکن،چک، جہاں خان سے ہوتا ہوا سکھر پہنچ جاتا تھا، ابرہیم یار خان فتح جنگ بن اعتمادولہ میرغیاث الدین محمد بن ابوالقاسم نمکین بن سلطان محمود بن حسین خان بن میر غیاث الدین محمد عباسی ابن عباس خیفہ مصر کے خاندان سے تعلق ہے، میر غیاث الدین محمد عباسی ابن بطوطہ کیساتھ 1331/133پہلے دس سال سمرقند میں سلطان علائالدین طرمشرین کے دور میں آیا تھا، جہاں اس کوسلطان علا الدین طرمشرین نے حضرت قثم ابن عباس رضہ کے خانقاہ کا متولی بنایا گیا تھا۔جس کو شاہ زندہ بھی کہا جاتا ہے،پھر سلطان محمد تغلق کے دور میں ابن عباس دہلی ابن بطوطہ کے ساتھ آیا تھا، توخانقاہی نظام سینٹرل ایشیا میں رائج تھا ہمارے ہاں ابھی مدرسہ کہا جاتا ہے ، پہلے پورے ہند سندھ میں خانقاہی نظام رائج تھا، خانقاہ حسینیہ شکارپور صدیوں تک سے شکارپور میں قائم تھا ۔ شکارپور کےمحترم حبیب اللہ مولابخش بھٹو اپنے کتاب سہنا شہر شکارپور کے صفحہ 31میں رقمزار ہے شکارپور شہر سیاست میں ہمیشہ اپنا نمایاں نام رکھا ہے، جب سید احمد شہید انگریزون کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا تو پہلے شکارپور کے ہی تشریف لائے تھے، کچھ لوگ لکھتے ہیں کہ لکھیدر کے جامع مسجد میں آئے تھے، یہ جھوٹھے اگر فقیراللہ شاہ علوی کے مدرسہ کا کہتے تو بات سمجھ آجاتی، خانقاہ حسینیہ میں سید احمد شہید تسریف لائے تھے اور خلافت تحریک میں بہت سے لوگ افغانستان چلے گئے تھے،اور انگریزوں کیخلاف 1857 کےآزادی کے جنگ میں جہاں پورے ہندوستان کے لوگ انگریزون کے خلاف برسرپیکار جنگ میں تھے تو وہاں پر شکارپور میں تعنیات 16ریجمنیٹ کےغیور مسلمان سپاہیوں نے رات کوانگریز سرکارکے ہتیاروں پر قبضہ کیا اور بڑے بھادری کے ساتھ لڑتے رہے، پر سکھر سے انگریزوں کے طرف سے ملنے والے کمک سے باغیوں پر قابو پا لیا گیا، 25 کو خیرپور بھیج دیا گیا، 4 کو گولیاں مارکر شہید کیا گیا، ایک صوبیدار کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا،تبھی شکارپور کے چھاونی کو سکھر منتقل کیا گیا ااورساتھ شکارپور کے ڈویزن کوختم کرکے اس کوتعصیل کا درجہ دیا گیا، محترم نثار کھوکر 22 فروری 2017 کاوش کے ایک آرٹیکل میں طالبا ن کے لیڈر ملا عمر کا ع90 میں شکارپور کے گوٹھ حاجی خواستی بروہی میں موجود ہونے کا بتاتے ہین تو آج اسی گاوں اور شکارپور کے کچھ سیاسی مفادپرست، شرپسند، رات کے تاریکی میں میں سمادا آشرم کے پنڈت کے لوگوں کیساتھ ں ملاقاتیں کر رہے ہیں،کیا وہ دور دوبار دوہرایاجا رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو حکومتی اداروں کو چاہیئے ان کے خلاف سخت کاروائی کریں ایسا نہ ہو کہ دوبارہ 1958 کا واقعہ پیش نہ آجائے جس میں شکارپورمیں عباسی خاندان کے سربراہ حاجی میر خان عباسی کو جب شہید کر کے عباسی خاندان کی نسل کشی شروع ہوا تھا یہ سلسلا 1990 تک جاری رہا، ان کے ملکیتوں،زمینوں،ملوں، کارخانوں پر قبضہ کرنا سمجھ میں تو آتا ہے پر شکارپور میں موجود عباسی خاندان کے شاہی قبرستان کو مسمار کرنا، ان کے درگاہوں، مسجدوں اور خانقہاوں پر قبضہ کیا کرنا، پورے سندھ میں تو بہت سے عباسی خاندان کے درگاہوں پر ہندوں کا قبضہ ہے 58 سے زیادہ مسجد، درگاہیں خانقاہیں ہیں جن پر ہندوں مسلمانوں کا قبضہ ہے، صرف شکارپور میں عباسی خاندان 12 خانقاہوں پر قبضہ کر کے مندر بنائے گئے،جس میں سب سے بڑے خانقاہ حسینیہ شکارپور پر 1968-70 کے دہائی میں سمادا آشرم مندر بنا دیا گیا،خانقاہ حسینیہ میں موجود عباسی خاندان کے بزرگوں کے موجودگی کیوجہ سے اس کو سمادا آشرم بنا دیا گیا،ہندی میں سمادھی قبر کو آور خانقاہ کو آشرم کہتے ہیں تو کل کا خانقاہ حسینیہ آج سمادا آشرم بن گیا، عباسی خاندان کے تین بھائی محمد یونس،ممتاز علی اور عبداللطیف عباسی کہتے ہیں کے انڈیا سے آئے ہوئے اییجنٹ جنہوں نے رات کے تاریکی میں خانقاہ پر حملہ کیا ، جس میں حملہ کرنے والوں کو اس وقت کے حکومت، اور ضلعی انتظامیہ کا مکمل آشیروارد حاصل تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگا جا سکتا ہے کے خانقاہ کیساتھ ہی شکارپور پولیس اسٹیشن تھا، جب حملہ آوروں نے رات کے تاریکی میں خانقاہ پر حملہ کیا تو اس وقت خانقاہ میں موجود لوگ سو رہے تھے، ان پر بندوقوں، کلھاڑیوں سے حملہ کیا گیا،پورے خانقاہ کو آگ لگا دیا گیا ، خانقاہ میں موجود بزرگوں، طلبا سب کو بیدردی کیساتھ شہید کیا گیا، اور خانقاہ کے کتب خانوں کو آگ لگا دی گئی تو کچھ نے کتابین چوری کی، آج خانقاہ حسینیہ ایک مندر میں تبدیل ہوگیا ،مندر بنے کے بعد بہت سے مرتبہ کچھ غیور مسلمانوں نےخانقاہ حسینیہ کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی پرشکارپور کے ضلعی انتظامیہ میں موجود انڈیا کے ایجنٹ رکاوٹ بنتے گئے، یہاں تک کچھ مسلمان ہندوں کیلئے جیل تک گئے، شو بجھن مھاراج پنڈت بن گئے، اللہ انے ان کے جسم میں جیتے جی جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے، آج وہی ہندوں جنہوں نے خانقاہ حسینیہ کو مندر بنوایا تھا، ان کے آدھے رشتیدار مسلمان بن گئے، آج جب عباسی خاندان کے کچھ لوگ خانقاہ حسینیہ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تووہی ہندوں جو مسلمان ہوگئے تھے وہ ہندوں کے ساتھی بنے ہوئے ہیں جو شکارپور کے ضلعی انتظامی ،مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں اثر رسوخ رکھتے ہیں، ضلعی انتظامیہ سمادا مندر کے ساتھی بنے ہوئے ہیں، ایک سرکاری عملدار کا کہنا تھا کے عباسی خاندان کے خلاف کچھ سیاسی مذہبی جماعتیں ہیں اس لیئے ان کو خانقاہ حسینیہ اور درگاہیں نہیں دے سکتے ہیں، ایک پٹواری کو تو سمادا والوں کیطرف سے پلاٹ بھی عطا کیا گیا۔ ویسے بھی شکارپور کے سارے ادارے روینیو،مختیارکار، پٹھواری، سب رجسٹرا، سب ریکارڈ اپنے اپنے گھر ہی لے جاتے ہیں پر سب رجسٹرار کا ایک کلارک تو سرکاری ریکارڈ کو اپنے گھر میں اپنے قبضہ میں کیا ہوا ہے، 1970کے دہائی میں خانقاہ حسینیہ کوسمادا آشرم مندر بنا دیا گیا اور اسی سمادا آشرم مندر کے ریکارڈ کو 20 سال پہلے کا ریکارڈ روینیو ریکارڈ 1953 میں ظاہر کیا گیا ہے، جبکہ عباسی خاندان کے پاس انہیں زمینوں کا ریکارڈ 1941 میں خریدا گیا اور 1949 میں پاکستان کیساتھ الحاق کیا گیا تھا، رونییو ریکارڈ کے موجب خانقاہ حسینیہ کا ریکارڈ کتاب نمبر 1-1196 کے صفحہ نمبر396-398 تک جلد 60 میں درج ہے ، گزشتہ 8 سالوں سے عباسی خاندان کے لوگ خانقاہ حسینیہ اور عباسی خاندان کیساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف ملک کے سارے اداروں کو درخواستیں دی ہیں شکارپور کے مختیار کار،ڈپٹی کمشنر اور دوسرے ادارون نے عباسی خاندان کیساتھ ناروا سلوک رکھا ہوا ہے ان کہ ان کو ان اداروں میں داخلے پر پابندی بھی لگا دی گئی، پولیس تو کورٹ اورآئی جی سندھ کے حکم نامے نظر انداز کر کے عباسی خاندان کخلاف انتقامی کاروایوں میں مصروف ہے،شکارپور میں عباسی خاندان کی نسل کشی کے بعد کچھ لوگ حاجی خواستی بروہی کے لوگون کے قبضے میں تھے جو 2014 سے اپنی خاندان کےبحالی کیلئے مخلتف پلیٹ فارم پر اپنی آواز اٹھا رہے ہیں، کبھی سوشل میڈیا تو کبھی سندھی پنھنجی اخبار تو کبھی نوائے وقت تو کبھی ملکی اداروں کے لکھے ہوئے درخواستوں کے صورت میں، کہ خدارا اس خاندان پر رحم کریں جس کا تعلق نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس رضہ سے ہیں، ،زمین بھی عباسی خاندان کا اور قبضہ طاقتورں کا،آج کمزور خاندان جن کے بڑوں نے صدیوں تک اسلام پہلانے میں کردار ادا کیا، عباسی خاندان نے 750 سے 1260 تک بغداد تو 1261 سے 1515 تک بحیثیت مسلمانوں کے خلیفہ کےحیثیت سے رہے، اور 1414 سے 1958 تک سینٹرل ایشیا، مشرقی ایشیا، آفریکا، یورپ میں جس خاندان کی حکومت تھی، آج وہ لوگ کمپرسی کی حالت گذار رہے ہیں۔
حاصل مطلب اگرآج رحیم یار خان کے ایک چھوٹھے سے شہر بھونگ میں کچھ شرپسندوں نے ایک چھوٹھے 8 بچے کو نادانی کے سلسلے میں گنیش مندر کو توڑا پوڑا دیا تھا جس پر وزیر اعظم اور سپریم کورٹ اور ملکی اداروں کا نوٹس لینا ایک اچھا عمل ہے اور ہمارے اقلیتوں کو ان کے حقوق کا پتہ چلا کے وہ ایک محفوظ ملک میں ہیں،قائد اعظم کے فرمان کو سچ ثابت کیا کہ یہ ملک سب کا ہے، آج اگر ایک اسلامی ملک میں اقلیت تو محفوظ ہیں تو کیا اس اسلامی ملکی میں مسلمان بھی محفوظ ہیں ان کے مسجدیں خانقاہیں محفوظ ہیں کیا؟ آپ اسلام آباد میں ایک کیا 400 مندر بنائیں پر خدارا ایک نظر ان مسلمان خاندانوں پر بھی ڈالیں جنہوں نے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا، ان خاندانون کی قتل عام اسی ملک میں ان کے اداروں کے ماتحت ہوئی ہے، عباسی خاندان جو اس ملک کے بانی خاندانوں سے ایک خاندان ہیں جنہوں نے اپنی ساری ملکیتیں پاکستان کیساتھ الحاق کیا تھا اسی خاندان کی نسل کشی شکارپور سندھ میں کی گئی، ان کے خانقاہوں ،مسجدوں، درگاہوں پر ہندوں مسلمانوں دونوں کا قبضہ ہے، جس میں خانقاہ حسینیہ شکارپور پر سمادا آشرم مندر تو ،لال شہباز قلندر، اڈیرو لعل، سادہ بیلہ پر ہندو مسلمانوں کا قبضہ ہے یہ سب عباسی خاندان کی ملکیتیں ہیں، عباسی خاندان کے لوگوں نے صدرپاکستان، وزیر اعظم،آرمی چیف، سپریم کورٹ اور ملکی اداروں سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کیساتھ ہونے والے مظالم کا نوٹس لیں، اور ان کے خاندان کے وابسطہ درگاہوں، خانقاہوں،مسجدوں، ملوں،گھرون ،حویلیوں اور زمینوں پر قابض لوگوں سے آزاد کرکو آزد کرالیں،اور شکارپور انتظامیہ میں موجود کرپٹ عہدیداروں کیخلاف سخت کاروائی کرے،۔شکارپور کے عباسی خاندان کا کھویا ہوا مقام اس کو ان کو دیا جائے، ان کی تاریخ کیساتھ ان کے تاریخ کو بھی اجاگر کریں۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاے۔

یونس رومی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: