اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹر عبدالقدیر خان چلے گئے||حیدر جاوید سید

ان کی آخری رسومات میں وزیراعلیٰ سندھ۔ سپیکر قومی اسمبلی، قائم مقام صدر اور چند وفاقی وزراء نے شرکت کی۔"اخیرالمومنین"، اعلیٰ سول و ملٹری قیادت موجود نہیں تھی۔ کہا جارہا ہے کہ سکیورٹی کے مسائل تھے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان چلے گئے، یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے کوئی نہیں بستا۔ وقت مقرر ہے ہر ذی نفس مقررہ وقت سے ایک پل زائد یا کم کبھی نہیں جیسا بسا اور رہا، نظام قدرت یہی ہے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانیوں میں شمار ہوں گے بانی ہرگز نہیں تھے، اس پروگرام میں انہوں نے اپنے حصے کا کام کیا اور جی جان سے کیا۔

1936ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال (ریاست کا بھوپال کا دارالحکومت) میں پیدا ہوئے۔ 86سال کی عمر میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ بھوپال سے پاکستان کی طرف ان کے خاندان نے 1950ء کی دہائی میں ہجرت کی۔ کراچی پہنچے وہیں آباد ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم بیرون ملک سے حاصل کی بعدازاں ہالینڈ کی ایک ریسرچ لیبارٹری سے منسلک ہوئے۔

1970ء کی دہائی میں ان کا اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ ہوا۔ بھٹو کے ایما پر ہی وہ ہالینڈ سے پاکستان منتقل ہوئے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہوگئے۔ اس وقت اس پروگرام کے سربراہ منیر خان تھے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام سائنسدانوں کی مشترکہ محنت اور لگن کا "شاہکار” ہے۔ نفرتوں پر ہوئے بٹوارے سے بنے دونوں ملکوں میں نفرتوں کے سودے ہی بکتے تھے اور اب بھی بک رہے ہیں۔

بھارت نے 1970ءکی دہائی میں ہی راجھستان میں ایٹمی تجربہ (دھماکہ) کیا تھا جواباً پاکستان نے اسی راستے پر اپنے سفر کو تیز کردیا۔ بھٹو کہتے تھے "گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے”۔ لیجئے ایٹم بم بن گیا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ ایٹمی پروگرام ہی بھٹو کی رخصتی اور پھانسی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔ ان کا تختہ الٹے جانے تک تقریباً نوے فیصد کام ہوچکا تھا۔ یوں کہہ لیجئے کہ اگر 1980ء کی دہائی کے وسط میں بھی 1998ء والا کام کرنا پڑتا تو پاکستان کے لئے مشکل نہیں تھا۔

ڈاکٹر خان کے سانحہ ارتحال کے بعد ان کی ذات، تحقیق اور کام پر اٹھی بحثوں میں سینگ پھنسانے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ ہمارے دوست اخلاق مرزا نے لکھا "مرحوم حب الوطنی کی ہراست میں وفات پاگئے”۔ ان کے مداحین نے جن میں اکثر بھٹو دشمنی کے رزق سے پلے بڑھے ہیں، شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لانے کا کریڈٹ بھی ان کے کھاتے میں لکھ دیا۔ کہا جارہاہے کہ ایٹمی معلومات کے بدلے میں انہوں نے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی۔

یہ دعویٰ خلاف واقعہ ہے۔ دنیا بھر کے خفیہ ادارے اس امر پر متفق ہیں کہ شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی محترمہ بینظیر بھٹو لائی تھیں۔ امریکیوں کو جب اس کاعلم ہوا تو کہا گیا اگر بروقت پتہ چل جاتا تو سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے اس جہاز کو گرادیا جاتا جس میں بینظیر بھٹو سوار تھیں۔ پسندوناپسند اور اندھی نفرت و محبت کے کھیل میں ہم تاریخ تبدیل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔

ہمارے یہاں ایک متھ یہ بھی ہے کہ "مرنے والے کی صرف خوبیاں بیان کی جائیں "۔ اس روایتی متھ کا اطلاق اگر مسلم تاریخ پر کیا جائے تو یقین کیجئے تاریخ طبری محض دو اڑھائی سو صفحات کی کتاب کی صورت میں بچ رہے گی۔ ہمارے چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں (ڈاکٹر خان کو) ایٹمی معلومات اور تکنیک کچھ ملکوں کو فروخت کرنے کا ذمہ دار بناکر پیش کیا گیا۔ کہتے ہیں مشرف کو امریکہ نے ٹھوس ثبوت فراہم کئے تھے۔ سی آئی اے نے یہ معلومات ایران اور لیبیا میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حاصل کی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق ایرانیوں نے کھل کر کسی ملک یا شخص کا نام نہیں لیا۔ یہی کہا بیرون ملک سے معلومات اور "تکنیکی سہولت” خریدی گئی۔ لیبیا کے قذافی نے البتہ ڈاکٹر خان اور پاکستان کا نام لیا تھا۔ ڈاکٹر خان کا موقف تھا کہ "جنرل پرویز مشرف دو افراد کے ساتھ ان سے ملنے آئے انہوں نے قرآن مجید میری گود میں رکھا اور کہا اس وقت پاکستان کو صرف آپ بچاسکتے ہیں ورنہ امریکہ سلامتی کونسل کے ذریعے پابندیاں لگانے کے ساتھ ایٹمی ہتھیار تحویل میں لینے جیسے اقدامات کرسکتا ہے۔ دو اڑھائی گھنٹے کی بحث کے بعد میں (ڈاکٹر خان) نے پاکستان کی خاطر قربانی دینے کا فیصلہ کیا”، جنرل پرویز مشرف اس معاملے میں یکسر الٹ بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "جب میں نے سارے ثبوت ڈاکٹر خان کے سامنے رکھے تو اولاً اولاً وہ اسے سازش کہتے رہے پھر انہوں نے میرے گھٹنے چھوتے ہوئے کہا مجھ سے غلطی ہوگئی اگر میرے اعتراف سے پاکستان محفوظ رہتا ہے تو میں اس کے لئے تیار ہوں "۔

ڈاکٹر خان مرحوم اور پرویز مشرف اس حوالے سے مزید بھی کچھ کہتے ہیں لیکن سچ چونکہ زہر جیسا تلخ اور بھیانک ہے اس لئے منہ موڑ کر پتلی گلی سے نکلنے میں عافیت ہے۔ یہ سچ بہرطور اپنی جگہ ہے اور رہے گا کہ ڈاکٹر خان پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانیوں میں شامل تھے اس پروگرام کے اپنے شعبے کا کام انہوں نے خوش اسبولی سے سرانجام دیا۔ انسان تھے سو فکری مغالطوں کا شکار رہے انہی مغالطوں سے بھری ان کی تحریروں پر داد دینے والوں نے انہیں قطب دوراں قرار دیا۔ جیسے گزشتہ روز سراج الحق نے انہیں "ولی اللہ” کہا۔ انسان خوبیوں، خامیوں سے گندھا ہوتا ہے، کون اسے محفوظ ہے؟ میں یا آپ؟ کوئی بھی نہیں۔ اس لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حمایت یا مخالفت دونوں میں اندھے پن کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ان کی حقیقی خدمات کا اعتراف کیا جانا مناسب رہے گا۔

بھارت کے ایٹمی دھماکوں اور پروگرام کے جواب میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے تھا۔ یہی جو ذوالفقار علی بھٹو نے کیا اور پھر 1998ء میں میاں نوازشریف کے دور میں ہوا یا پھر خطے میں پیدا ہوئے طاقت کے عدم توازن کو حقیقت مان کر ایک طفیلی ریاست کے طور پر جینے کا راستہ اپنایا جاتا؟ میری دانست میں خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ بھارت نے شروع کی۔ پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کے پیش نظر اس دوڑ میں شامل ہوا۔ زیادہ مناسب یہ ہوتا کہ بھارت اس راہ پر چلنے کی بجائے وسائل غربت کے خاتمے، تعلیم کے فروغ اور بنیادی سہولتوں پر صرف کرتا جواباً ہمارے یہاں بھی یہی راہ اپنانا پڑتی، لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا کہ نفرت پر ہونے والے بٹوارے کے سارے فریق طاقت کے حصول کو مقصد زندگی قرار دیتے ہیں اور طاقت کو ہی زندگی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔

بٹوارے کا "اصل” یہی ہے۔ سو اب جو سوال ہم اپنی ریاست سے کرتے ہیں کبھی پڑوسی کی طرف بھی اسے اچھال کر دیکھیں۔ البتہ یہ ابدی سچائی ہے کہ اقوام اور ملک طاقت سے نہیں مساوات اور شرف انسانی کے احترام کے ساتھ عوام کے حق حکمرانی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے زندہ و تابندہ ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ ایک نئی بحث کا دروازہ کھولنے کا موجب بن رہا ہے اس بحث سے بچ کر آگے نکلتے ہیں۔

ان کی آخری رسومات میں وزیراعلیٰ سندھ۔ سپیکر قومی اسمبلی، قائم مقام صدر اور چند وفاقی وزراء نے شرکت کی۔”اخیرالمومنین”، اعلیٰ سول و ملٹری قیادت موجود نہیں تھی۔ کہا جارہا ہے کہ سکیورٹی کے مسائل تھے۔ یہ بھی کہ ان کا مشرف دور والا اعترافی بیان اس کے مانع ہوا۔ ایک دو باتیں اور بھی ہیں یہ ساری باتیں سچ ہیں تو پھر ڈھونگ رچانے کی ضرورت کیا تھی۔

ڈاکٹر خان کو ان کی وصیت کے مطابق اسلام آباد کے ایف 8کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔ اچھا کیا مرحوم کی وصیت کا احترام ضروری تھا۔ اس لئے بھی کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو انہوں نے اپنی وفات سے چند دن قبل جو خط لکھا اس کا ایک ایک لفظ جس کہانی کو ترتیب دیتا ہے وہ رنج اور دکھ سے بھری کہانی ہے۔ ڈاکٹر خان کا سفر حیات تمام ہوا۔ سبھی کو رخصت ہونا ہے، یہی ابدی سچائی ہے۔ اب تاریخ کی عدالت اپنا فیصلہ دے گی ہم نہ سہی ہماری آئندہ نسلیں اس فیصلے کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرپائیں گی فی الوقت یہی کہ محبت اور نفرت میں جنون کا شکار سماج میں زندہ رہنا بھی ایک معجزہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: